سرمائے پر سود ( Interest On capital)

سرمائے پر سود یا سر مائے کے استعمال کا معاوضہ کاروباری سود کہلاتا ہے... تمام سرمایہ دارانہ نظاموں میں کاروبار سرمائے پر سود کے اصول کے تحت ہوتا ہے..
سرمایہ درانہ نظام میں چار عاملین پیدائش شمار ہوتے ہیں...
زمین جس کا معاوضہ لگان
محنت جس کا معاوضہ اجرت
سرمایہ جس کا معاوضہ سود
اور تنظیم سازی جس کا معاوضہ منافع
سرمایہ درانہ نظام میں سرمائے پر سود کا جواز رسک آف کپیٹل دیا جاتا ہے...
یعنی سرمایہ لگنے سے نفع و نقصان اٹھانے کا خطرہ سرمائے پر سود کی شکل میں دیا جاتا ہے....
اس کے برعکس اسلامی معاشی نظام میں سود کی گنجائش قطعی طور پر موجود نہیں ہے.. اسلام نے سود کو حرام قرار دیا ہے....
سرمایہ درانہ نظام کے اس من گھڑت اصول ( سرمائے پر سود) کی نفی کا دلیلی و منطقی جواب موجود ہے....
سرمایہ فراہم کرنے والے حصے دار کاروبار میں نفع نقصان کی شرح طے کر کے شریک ہوتے ہیں.. سرمائے کے استعمال کا رسک نفع یا نقصان کی حثیت میں موجود ہے.. اس لیے الگ سے ادائیگی کا کوئی جواز نہیں.. سرمائے کے استعمال کا معاوضہ نفع یا نقصان ہے نہ کہ سود...
درحقیقت عاملین پیدائش تین ہیں....
زمین جو لگان کی صورت معاوضہ لیتی ہے...
محنت کا معاوضہ اجرت،....
اور سرمائے کے خطرے کا معاوضہ منافع.. .
ناظم کا کام کاروبار چلانا ہوتا ہے.. جس کا معاوضہ اجرت یا تنخواہ کی صورت وصول کیا جاتا ہے.... یوں تنظیم الگ سے کوئی عامل پیدائش نہیں ہے...
نفع یا نقصان سرمایہ فراہم کرنے والے کا ہوتا ہے نہ کہ تنظیم کا.. تنظیم کار محنت کی صورت اپنا معاوضہ وصول کرتے ہیں...
سرمایہ دارنہ نظام میں سود صرف صارفین کے احتصال کی صورت ہے... جس میں رسک آف کپیٹل سود کی صورت منافع سے الگ ادا کیا جاتا ہے.. اور اس زائد رقم کا بوجھ گراں اشیا کی صورت میں صارفین پر ڈالا جاتا ہے...
اسلام میں اسی احتصال کی وجہ سے سود قطعی حرام ہے...

اے ایمان والوں اللہ سے ڈرو اور جو سود تمھارا لوگوں پر باقی بے اسے چھوڑ دو..اگر تم ایمان رکھتے ہو.. اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے جنگ کا اعلان قبول کرو اور اگر تم توبہ کر لو تو تمھیں اپنے راس المال یعنی ( اصل رقم) لینے کا حق ہے..
البقرۃ

اسلامی معشیات (بحوالہ)
صدف
About the Author: صدف Read More Articles by صدف: 4 Articles with 4895 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.