خالصہ خالصتان کا ۔۔۔۔۔کشمیر پاکستان کا

دنیا بھر کے جمہوری نظام میں حکومت اور اپوزیشن کا تصور موجود ہے لیکن پاکستان میں پیپلز پارٹی اور نوا ز لیگ نے میثاق جمہوریت کے تحت دو بڑی جماعتوں کو یکجا کر کے حکمرانی کا نیا تصور متعارف کروا دیا ہے۔ گویا کہ ملک میں اپوزیشن کا وجود ہی باقی نہ رہے اور نہ ہی دوسری جماعتوں کو آگے بڑھنے کا کبھی موقع ملے۔ میثاق جمہوریت کا ایک مقصد پاکستان کے دفاعی نظام کو کمزور کرنا بھی تھا بلکہ ہر دو جماعتوں کی حکومت کے ادوار میں افواج پاکستان کے خلاف ملک گیر منظم مہم چلانے کی کئی ناکام کوششیں بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ پیپلز پارٹی کے لئے تو شاید کوئی جواز ہو سکتا تھا لیکن ملک کی بانی جماعت مسلم لیگ کے پاس اس کا کوئی بھی بہانہ نہیں ہے۔ ساری دنیا میں دائیں بازو (ملک کی بانی) کی جماعتیں ہر حالت میں اپنی دفاعی قوت کے ساتھ ہوتی ہیں بلکہ اب تو دنیا بھر میں دائیں بائیں سے بالا تر ہو کر ہر آزاد ملک کے تمام طبقات اپنی فوج کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں صورت حال خاصی مختلف ہے۔ نیشنل ایکشن پلان پر اتفاق رائے کے باوجود تا حال حکومت نے ہر قدم پر اپنا ہاتھ کھینچ اور روک رکھا ہے کہ کہیں سیاستدانوں کے’’ مخصوص مقاصد‘‘ متاثر نہ ہونے لگ جائیں۔

عسکری دہشت گردی کے مقابلے اور ضرب عضب میں خاصی حد تک کامیابی کے بعد افواج پاکستان نے جونہی شہری آبادیوں میں موجود دہشت گردوں کا رخ کیا تو بعض سیاستدان اپنی بدحواسی اور خوفزدگی کو دیر تک چھپا نہ سکے اور گھبراہٹ کے عالم میں ایسے بیان داغ دیئے کہ وہ پھنستے اور بے نقاب ہوتے چلے گئے۔

اس عرصے میں جنرل راحیل شریف کی قیادت میں پاکستان کو کئی داخلی اور خارجی محاذوں پر بھرپور اور مثالی کامیابیاں حاصل ہوئیں اور خاص طور پر ایسے وقت میں جب حکومت پاکستان وزیر خارجہ کے بغیر چل رہی ہے۔ جنرل راحیل شریف کا برطانیہ ، امریکہ اور چین کے انتہائی کامیاب دوروں کے بعد کریملن(Kremelin) ماسکو میں گارڈ آف آنر کا معائنہ کرنا اور روسی فوج کا پاکستانی قومی ترانے کی دھن بجانا کوئی معمولی بات نہیں۔

چین پاکستان (CPEC) اقتصادی راہداری منصوبہ اور اس پر ہندوستانی رد عمل سامنے آچکا ہے۔ یادر ہے کہ اقتصادی راہداری منصوبہ بھی پاکستانی فوج کی ضمانت کے بعد ہی حتمی شکل اختیار کر سکاہے۔ساتھ ہی چین کے صوبہ سنکیانگ سے ماسکو تک ٹرین سروس کا افتتاح ایک غیر معمولی پیش رفت ہے۔ اب پاکستان کو سنکیانگ سے لنک ہونا ہے اور پھر بلا روک ماسکو تک رابطے کی سہولت موجود ہو گی۔CPEC کے بعد چین کی جانب سے پاکستان کو فضا سے فضا میں مار کرنے والے( Z10 Anti Tank) انٹی ٹینک ہیلی کاپٹر ز کا تحفہ، پیرس کے ایئر شو(Air Show) میں پاکستان کو ملنے والے JF17 کے آرڈرزبہت حوصلہ افزاء ہیں۔ یاد رہے کہ ہندوستان بڑی دیر سے ماؤنٹین وار فیئر (Mountain war fair) یعنی پہاڑی علاقے (کشمیر) میں جنگی ہتھیار وں کے حصول کے لئے کوشاں ہے۔

دریں اثناء چین کے صوبہ kunming سے ہندوستانی شہر کلکتہ تک ریل منصوبہ اور بنگلہ دیش ، چائنا ، انڈیا، میانمار راہداری منصوبے کا آغاز اور خطے میں اس طرح کے کئی انقلابی اقدامات جو علاقائی اور عالمی تناظر میں کئی بنیادی تبدیلیوں کا باعث بن رہے ہیں سب کے سب میں پاکستانی فوجی قیادت کی بالواسطہ یا بلا واسطہ شرکت /شمولیت اور رضامندی پاکستان کے لئے موجودہ بدنام زمانہ کمزور اور غیر مستحکم جمہوری نظام کے باوجود پاکستان کی غیر معمولی کامیابی ہے۔ فوجی قیادت کے کشمیر پر اپنے موقف پر استقامت سے ڈٹے رہنے کا ایک فوری ایک فوری نتیجہ یہ بھی ہے کہ ہندوستان کے آئے دن کے کشمیر پر تلخ بیانات کم ہوتے گئے۔ کشمیر پر سیاستدانوں کی پسپائی کا صرف یہی ثبوت کیا کم ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں سرینگر سے حریت کانفرنس کے قائدین حکومت پاکستان کی دعوت پر باقاعدگی سے کئی کئی بار آزاد کشمیر اور پاکستان کے دورے پر آتے رہے۔ جبکہ میثاق جمہوریت کے گزشتہ آٹھ سالوں سے زائد عرصے میں ایک بار بھی حکومت پاکستان نے یہ زحمت گوارا نہیں کی۔ ظاہر ہے کہ ایک وقت میں یا کشمیریوں کا قاتل ہندوستان most favoured ہو سکتا ہے یا پاکستان کے لئے شہید ہونے اور لٹنے والے لاکھوں کشمیریوں پر توجہ دی جا سکتی ہے۔نوابزادہ نصراﷲ اچانک جب بھی یاد آتے ہیں تو ان کا کوئی شعر یا کوئی تقریر بھی ذہن میں کود پڑتی ہے۔ ان کا کتنا خوبصورت شعر ہے کہ :
؂ ڈھالے ہیں سیم و زر نے کمینے نئے نئے
حیرت سے تک رہی ہے شریفوں کی آبرو

کشمیر کے محاذ پر اپنے تسلیم شدہ بین الاقوامی موقف پر قائم رہنا اور اس کا اظہار کرتے رہنا بذات خود ایک بڑی کامیابی ہے ۔بطور خاص ذہنی پسپائی اور سیاسی معذرت خواہی کے اس دور میں۔مودی کے معتصب شدت پسند رویے نے ہندوستان میں کئی تحریکوں کو دوبارہ متحرک کر دیا ہے۔ سرینگر میں سکھوں کا پاکستانی پرچم لہرانا اور زندہ باد کے نعرے لگانا تو ریاست کے اندر کی بات تھی لیکن گزشتہ دنوں جموں ، پنجاب،فرانسسکو، فرانس اور دنیا بھر میں سکھوں کے بھرپور امظاہرے کرنا اور یہ نعرے لگانا کہ ’’خالصہ خالصتان کا کشمیر پاکستان کا‘‘ ۔ نریندر مودی کی جارحانہ کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ رفتہ رفتہ ہندوستان کے دوسرے طبقات اور علاقوں میں بھی ایسا ہی رد عمل سامنے آتا دکھائی دیتا ہے۔ ہمارے قائد مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان نے ہمیشہ کہا ہے کہ ہمیں ہندوستان کے توڑ پھوڑ کی کبھی خواہش نہیں کرنی چاہئے کہ کشتی میں بیٹھ کر بحری جہاز کو غرق کرنے کی منصوبہ بندی جہاز سے پہلے خود کشتی کو لے بیٹھ سکتی ہے۔ یہ تو ہماری سوچ ہے لیکن مودی صاحب اور RSS چونکہ ہٹلر کے نقش قدم پر چلنا چاہتے ہیں اس لئے ممکن ہے کہ انہیں ہندوستان کو موجودہ شکل میں یکجا رکھنا مشکل لگتا ہو۔ ویسے بھی ہندوستان کو کبھی انگریزوں نے کبھی مغلوں نے اور کبھی دیگر عوامل نے یکجا رکھا تھا۔ خود ہندوستان میں اکٹھا رکھنے کی صلاحیت زیادہ نہیں ہے۔ ا س لئے ممکن ہے نریندر مودی کسی ایسے منصوبے پر کام کر رہے ہوں جس سے علیحدگی کی تحریکوں کو اور ہوا ملے تاکہ ہندوستان کو ہندو طالبان کی ریاست میں تبدیل کیا جا سکے۔ جموں وکشمیر کے عوام کسی علیحدگی کی نہیں بلکہ حق خودارادیت کی تحریک سے وابستہ ہیں۔ اس لئے ہمیں علیحدگی پسندیا توڑ پھوڑ کی تحریکوں سے دور رہنا چاہئے۔

داخلی محاذ کے حوالے سے تفصیلات بہت ہیں تا ہم سندھ حکومت کی نا قص کارکردگی اور کرائم علی شاہ کی کرپشن کے خلاف رینجرز کے آپریشن اور بطور خاص کراچی بلڈنگ کارپوریشن (KBC)کے دفتر پر چھاپہ نے زرداری صاحب کی چیخیں نکلوا دی ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان کے دورہ کراچی کے دوران ڈی جی رینجرز کی جانب سے زرداری کی عزت افزائی اور کور کمانڈر کراچی کی بریفنگ ہی ابھی ہضم نہیں ہو رہی تھی کہ کہ آرمی چیف کے ساتھ کوشش کے باوجود آصف زرداری کی ملاقات تو نہ ہو سکی البتہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی طویل ملاقات نے آصف زرداری کے خیال میں ا ن کے لئے نئے مسائل پیدا کر دیئے۔ اس پر مزید یہ کہ KBC کا سارا ریکارڈ رینجرز نے محفوظ کر لیا۔

میثاق جمہوریت کے کن کن کمالات کا تذکرہ کیا جائے اور کن کو چھوڑا جائے ۔ایک لانچ سے برآمد ہونے والے پانچ کروڑ ڈالر، سندھ کے صوبائی وزیر کے گھر سے کئی ارب اور سندھ حکومت کے سیکرٹری کے گھر سے ملنے والے ایک سے زائد ارب روپے کا کوئی دعویدار سامنے آنے کے لئے تیار نہیں۔
بقو شاعر کہ: ؂ لٹیرے اگر پاسبان ہو گئے۔۔۔۔۔۔ تو سمجھ لوکہ خالی مکان ہو گئے

ماہرین میثاق جمہوریت کی دستاویز میں مجرمانہ حکمرانی کو آئینی تحفظ دینے کی ایک شق ڈالنا بھول گئے ورنہ ان سب امور کو بھی آئینی تحفظ دیا جا سکتا تھا۔

اس دور میں ایان علی اور توفیق بٹ تو وی آئی پی سلوک کے مستحق ہیں جبکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے پاکستان کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھنے والے شعیب شیخ ایف آئی اے اور پولیس کے بدترین سلوک اور تشدد کا شکار ہیں۔کہتے ہیں شیخ سعدی ؒکو پیدل چلتے ہوئے چند کتے کاٹنے کو دوڑے توانہوں نے انہیں مارنے کے لئے پتھر اٹھانے کی کوشش کی جو بھاری ہونے کے باعث نہ اٹھ سکا۔ شیخ سعدیؒ نے کہا کہ اس بستی کے لوگ کتنے احمق ہیں کہ کتے کھلے پھرتے ہیں اور پتھرباندھ کر رکھ دیئے گئے ہیں۔

شورش کاشمیری کچھ لوگوں کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ ’’انہیں زمین کی پیٹھ کے بجائے زمین کے پیٹ میں ہونا چاہئے‘‘ وہ شاید یہی لوگ ہیں۔زرداری صاحب فرماتے ہیں کہ ’’اینٹ سے اینٹ بجا دینگے‘‘جرنیل تین سال کے لئے آتے ہیں اور ہم ہمیشہ کے لئے آتے ہیں ۔ماضی کا سارا کچا چٹھا کھول کر رکھ دوں گا۔ سارا ملک جام کر دوں گا‘‘۔محترم زرداری صاحب اس غریب ملک کی کونسی قابل ذکر اینٹ آپ نے باقی رہنے دی ہے جسے آپ اب بجانا چاہتے ہیں۔ تین سال کے لئے کیوں ؟آپ نے تو چھ چھ سال سے زائد توسیع در توسیع دے کر جرنیلوں کو قبول کئے رکھا ۔ آپ نے د س سال جیل کاٹنے کی بات کی ہے۔ محمد خان ڈاکو تقریباً ساری زندگی جیل میں رہا ہے ۔ آپ ماضی کی داستانیں نہیں دھراہئے گا کہ ان میں بمبینوں سینما کا ذکر آئے گا۔ ٹکٹ بلیک کرنے کے ثبوت ملیں گے۔ ہمارا مودبانہ مشورہ ہے کہ ایسا نہ کیجئے گا۔ جرنیلوں کی ماضی کی تاریخ ضرور دہرائیے جس میں جنرل مشرف کا آگرہ کا دورہ آئے گا ، کارگل کا کامیاب تاریخی معرکہ آئے گا۔جنرل ضیا ء الحق کا ہندوستان میں کھڑے ہو کر راجیوگاندھی کو ہندوستان کو دنیا کے نقشے سے مٹانے کی دھمکی آئے گاگی۔ جنرل ایوب خان کا پاک چین سرحدی معاہدہ آئے گا جس کے سبب آج چین جیسا طاقتور ملک پاکستان کے خلاف دنیا بھر کے خطرات کے سامنے ڈھال بن کر کھڑا ہو گیا ہے۔ جنرل ایوب خان کی قیادت میں چونڈا کا محاذ اور ہندوستان ٹینکوں کے پڑخچے اڑتے ہوئے آپ کو دکھائی دیں گے۔زرداری صاحب نے سینٹ کا فورم بھی افواج پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی ناکام کوشش کی ہے جو انتہائی قابل مذمت اور افسوس ناک ہے۔

وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور وزیر دفاع خواجہ آصف کا بھلا ہو کہ انہوں نے کھل کر قومی جذبات کی ترجمانی کی ہے۔ زرداری صاحب محترم آپ نے پہلے بے نظیر بھٹو شہید سے جان چھڑائی پھر پیپلز پارٹی کو اندرون سندھ تک محدود کر دیا اور اب اﷲ کو منظور ہوا تو آپ کی سیاست ہر آنے والے دن محدود تر ہو تے جائے گی۔ آج وقت اور ضرورت ہے کہ ساری قوم افواج کے شانہ بشانہ کھڑی ہو کہ قیام پاکستان کے بعد پہلی بار فوجی قیادت نے بیک وقت دنیا میں طاقت کے تمام اہم مراکز کے ساتھ اپنے باوقار روابط استوار کر لئے ہیں اور نہیں مستحکم کیا جا رہا ہے۔ لگتا ہے زرداری صاحب کو احساس ہو گیا ہے کہ پیپلز پارٹی اپنی افادیت کھو چکی ہے اور زرداری صاحب کا یہ احساس بڑی حدتک درست بھی دکھائی دیتا ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر فیلڈ مارشل ایوب خان کی سیاسی گود میں تربیت کے حصول کے بعدبہت اچھے اور باصلاحیت لوگوں پر مشتمل پیپلز پارٹی قائم کی تو ایک تو ایک اچھا پہلو سامنے آیا کہ بھٹو نے ( سابق امریکی صدر نکس کی زبان میں) ملک کی خاموش اور بے بس اکثریت کو زبان تو دی لیکن ساتھ ہی بد قسمتی سے بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی پاکستان مخالف اور بعض انتہائی منفی قوتوں کا مرکز بھی بنتی چلی گئی جس کا شاہکار موجودہ دور کی قیادت کی صورت میں سامنے ہے ۔ ملک کی قومی فوج کا کردار دیکھ کر لگتا ہے کہ ملک کے منفی عناصر اب دم توڑ رہے ہیں اور پاکستان اپنی کامیاب مستحکم اور خوشحالی کی زندگی کے راستے پر گامزن ہو چکا ہے۔
؂ یہ ڈوبتے تارے یہ فسردہ شب مہتاب
آثار بتاتے ہیں سحر ہو کے رہے گی
Sardar Attique Ahmed Khan
About the Author: Sardar Attique Ahmed Khan Read More Articles by Sardar Attique Ahmed Khan: 23 Articles with 37875 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.