کردار سازی میں والدین کا حصہ

الحمد ﷲ رب العالمین و الصلوٰۃ و السلام علی سید الانبیاء و المرسلین علی آلہ و اصحابہ اجمعین ۔ اما بعد!

یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاقُوْآاَنْفُسَکُمْ وَ اَہْلیْکُمْ نَاراً وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَۃُ عَلَیْھَا مَلٰٓئِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَا اَمَرَھُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُوْمَرُوْنَO (سورۃ التحریم ،آیت ۶)
اے ایمان والو! تم خود کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں اُس پر تند مزاج اور سخت گیر فرشتے (مقرر) ہیں، اﷲ انہیں جو حکم دے وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے، اور وہ وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔

تمام تعریف اﷲ رب العزت، خالق کائنات کے لئے ہیں جس نے اپنے نبی محترم ، حبیب پاک احمد مجتبیٰ ، رحمۃ للعالمین ، خاتم النبین ،محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ و سلم کی اس عظیم الشان امت میں پیدا فرمایا اور کرم پہ کرم یہ کیا کہ ہمیں علم دین سیکھنے کی توفیق عطا فرمائی۔ اﷲ رب العزت کا فضل ، نبی دوعالم ﷺ کا صدقہ اور ہمارے والدین کا احسانِ عظیم ہے کہ آج ہم یہاں ذکر الٰہی اور نبی پاک ﷺ پر درود و سلام کا نذرانہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہے ہیں۔ابھی میں نے جس آیت شریفہ کی تلاوت کا شرف حاصل کیا ہے اس میں اﷲ رب العزت انسان کو اور اسکے اہل و عیال کو دوزخ کی آگ سے بچنے کا حکم فرمارہا ہے یعنی انسان کو خود اُسکی اور اسکے بچوں کی دنیوی و اُخروی زندگی کی کامیابی و سرخروئی کے لئے شریعت مطہرہ ﷺ کے مطابق زندگی گزارنے کی تلقین کی جارہی ہے۔

انسان کی تعلیم و تربیت کیلئے اﷲ تعالیٰ نے جو نعمت عطا کی ہے وہ والدین ہیں جن کی وجہ سے ایک معصوم بچہ اپنے ماں باپ کے اشاروں پر کچھ سیکھنے کی کوشش کرنے لگتا ہے، یہی ہونہار شیرخوار بچے آہستہ آہستہ والدین کی تربیت میں پروان چڑھنے لگتے ہیں، اگر ان کی تعلیم و تربیت اسلامی اصولوں پر ہوتی ہے تو وہ بڑے ہوکر ملتِ اسلامیہ کیلئے قیمتی گوہر کی طرح اندھیروں میں روشنی کی کرن بن کر جگمانے لگتے ہیں۔ انہیں والدین جس طرح ادب و اخلاق ، حلم و بردباری ، محبت و شفقت کی تعلیم و تربیت سے آراستہ کرتے ہیں اس کا اظہار انکی عملی زندگیوں میں نمایاں ہونے لگتا ہے،انہیں دیکھنے والے یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ واہ کتنے پیارے بچے ہیں جن کے والدین نے انہیں جس طرح تعلیم و تربیت کی ہے اسی کا نتیجہ ہیکہ آج یہ بچے اپنے پیارے نبی کریم ﷺ کے اسوۂ حسنہ کو اپنائے ہوئے ہیں۔ بچوں کی کردار سازی میں والدین کا بہت بڑا حصہ ہوتا ہے وہی بچوں کی صحیح تربیت انجام دے سکتے ہیں، اگر والدین اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت سے کنارہ کشی اختیار کریں تو یہی بچے مستقبل کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں۔ اسی لئے اﷲ رب العزت اپنی اس آخری اور عظیم الشان کتاب قرآن مجید میں بار بار والدین کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آنے کی ترغیب دے رہا ہے۔ احادیث مبارکہ میں والدین کی عظمت و اہمیت کو اسی لئے بتایا جارہا ہے کیونکہ وہی اپنی اولاد کی پرورش کرتے ہیں اس کی دیکھ بھال یعنی کھانے پینے، رہن سہن ، تعلیم و تربیت کا خیال رکھتے ہیں ۔ ایک ماں ہی ہوتی ہے جو اپنے لخت جگر کو اپنی گود سے تربیت دینے لگتی ہے اسی لئے انسان کی پہلی درسگاہ ماں کا گود کہا گیا ہے ، ماں کی ممتا اور اسکے شفقت بھرے ہاتھوں سے انسان پاک و صاف رہنے کا ہنر سیکھتا ہے، اسی کی توجہ خاص کا اثر ہوتا ہے کہ وہ زندگی میں پیش آنے والی ہر چیز سیکھنے لگتا ہے ، والد اپنی اولاد کو کھانے پینے کا انتظام کرتا ہے دن رات محنت مزدوری کرکے اپنی اولاد کی بھوک و پیاس بجھانے مشقت کرتا ہے، اولاد کی ہر خوشی کو اپنی خوشی سمجھ کر فوقیت دینے لگتا ہے۔ بچے کی ہر ضروریات کو پوری کرنے کے لئے ماں باپ تمام تر کوششیں کرتے ہیں۔ اس کی تعلیم و تربیت کے لئے بہتر سے بہتر اسکول میں داخلہ دلانے کی کوشش ہوتی ہے۔ لیکن ان سب سے اہم جو کام ایک مسلمان ماں باپ کرتے ہیں وہ ہے بچوں کو صحیح العقیدہ بنانا،ان کے دلوں میں اﷲ تعالیٰ اور رسول اﷲ ﷺ کی محبت جاں گزیں کرنا، ایمان کی روشنی سے قلب کو منور کرنا، انہیں قرآن و حدیث کی تعلیم دینا، ادب و اخلاق سکھانا، زندگی کے ہر ہر پل پیش آنے والے حالات سے مقابلہ کرنے کی تعلیم یہی ماں باپ کے ذریعہ سیکھتے ہیں۔ ایک مومن سنگین حالات میں کس طرح صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے مقابلہ کرتا ہے، اﷲ کی نعمتوں کے بے بہا خزانے جب اسے ملتے ہیں تو کس طرح اپنے مالکِ حقیقی کا شکر ادا کرنا اور پیارے حبیب پاک ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم کی زندگیوں کو مدّنظر رکھ کر غریبوں کا خیال کرنا، پڑوسیوں کے حقوق ، رشتہ داروں کے حقوق، اساتذہ کے ساتھ برتاؤ، بڑوں کا ادب واحترام ، چھوٹوں سے محبت و شفقت کا معاملہ ، غرض کہ ایک کامیاب انسان کی کردار سازی میں والدین کا بہت بڑا رول ہوتا ہے اور جو اولاد اپنے والدین کے احسانات کا خیال رکھتے ہوئے ان کے حقوق ادا کرتے ہیں وہی دنیا و آخرت میں سرخرو ہوتے ہیں۔ سورۃ انفعال میں اﷲ تعالیٰ کا ارشادہے : وَاعلَمُوْا اَنَّمَا اَمْوَالُکُمْ وَ اَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ وَّاَنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ اَجْرٌ عَظِیْمٌO (سورۃ انفعال، آیت ۲۸)
اورخوب جان لو کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد (سب ) آزمائش ہے اور بیشک اﷲ، اسی کے پاس اجر عظیم ہے۔

مال اور اولاد سے بڑھ کر سخت آزمائش اور کونسی ہے ، محبت مال اور اولاد انسان کو بزدل بھی بنادیتی ہے اور بخیل بھی۔ حضور ﷺ کے پاس ایک بچہ لایا گیا آپ ﷺ نے اسے بوسہ دیا اور فرمایا: یہ انسان کو بخیل بھی بنادیتی ہے اور بزدل بھی ، اور یہ اﷲ کے پھول ہیں۔ اب جو اس طبعی محبت کے باوجود احکام الٰہی کی تعمیل میں کوتاہی نہیں کرتا یقینا وہ کامیاب ترین انسان ہے۔ ایک دوسرے لحاظ سے بھی اولاد بڑی آزمائش ہے۔ بچوں کی صحیح تربیت ، ان کو صحیح مسلمان اور کامل انسان بنانا ان کی لوح دل پر اقدار عالیہ کے نقوش ثبت کرنا والدین کے لئے ایک کٹھن آزمائش ہے۔ اور یہی اﷲ تعالیٰ کی اس نعمت کا صحیح شکرہے۔ جو لوگ اپنے بچوں کو تعلیم و تربیت میں اﷲ تعالیٰ کے احکامات پر عمل اور نواہی سے بچنے کی تعلیم دیتے ہیں اور آقائے دوعالم ﷺ کی پیاری پیاری سنتوں پر عمل کرنے کی ترغیب عملی طور پر دیتے ہیں وہ اور انکی اولاد دنیا و آخرت میں سرخرو ہوتے ہیں۔ دیکھیے اﷲ تعالیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ کس طرح بندوں کو اپنا تقرب حاصل کرنے کیلئے دعا سکھارہے ہیں: رَبِّ اجْعَلَنِیْ مُقِیْمَ الصلٰوۃِ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ رَبَّنَا وَ تَقَبَّلْ دُعَآءِ O(سورۃ ابراہیم، آیت ۴۰) اے میرے رب مجھ کو اور میری اولاد کو نماز کا خاص اہتمام کرنے والا بنا دیجئے۔ اے ہمارے رب اور میری یہ دعا قبول کیجئے۔ پھر دیکھئیے اسی کلام مقدس میں اﷲ تعالیٰ اپنے بندہ حضرت لقمان حکیم کی انکے بیٹے کو نصیحت فرمانے کو بتاتے ہوئے پیارے حبیب ﷺ کے امتیوں کو انکی اولاد کی تربیت کی ترغیب دی جارہی ہے۔
وَاِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لِابْنِہٖ وَہُوَ یَعِظُہٗ یٰبُنَیَّ لَا تُشْرِکْ بِاللّٰہِ اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیمٌ (سورۃ لقمان آیت۱۳) جب لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا تھا جبکہ وہ اسے نصیحت کررہے تھے اے میرے پیارے بیٹے! تو اﷲ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرا بیشک شرک ظلم عظیم ہے۔ اور آگے کی آیت نمبر ۱۷میں نصیحت کررہے ہیں’’ میرے پیارے بیٹے نماز صحیح صحیح ادا کیا کرو، نیکی کا حکم دیا کرو اور برائی سے روکتے رہو اور صبر کیا کرو ہر مصیبت پر جو تمہیں پہنچے بیشک یہ بڑی ہمت کے کام ہے۔‘‘

حضرت لقمان سب سے پہلے اپنے بچے کو شرک سے بچنے کی تعلیم دے رہے ہیں کیونکہ انسان دنیوی مال و دولت ، سامانِ تعیش جمع کرنے کے لئے کفر و شرک تک پہنچ جاتا ہے اسے پتہ بھی نہیں چلتا کہ وہ کس طرح کفر و شرک کے دلدل میں پھنس چکا ہے۔ دنیوی اغراض و مقاصد کے حصول کے لئے اسے اپنے خالق حقیقی پر پورا بھروسا کرنا چاہیے، والدین اپنے بچوں کو صبر و استقامت کا درس بھی دیں ، بچوں کی ہر خواہش کو اگر پورا کردیا جائے تو انہیں صبر و شکر کسے کہتے ہیں معلوم ہی نہ ہوگا لہذا بچوں کو اسلاف کے اُن واقعات سے آشنا کیا جائے جس میں بھوک و پیاس کی شدت ، تین تین دن تک پیارے حبیب پاک ﷺ اور صحابہ کرام بھوکے رہتے۔ اس کے باوجود اپنے رزاق مالک سے حرف شکایت بھی زباں پر نہ لاتے۔ یہی درس ہے جو والدین اپنی اولاد کو دیں ۔ اسی لئے تو ماں کا درجہ آقائے دوعالم ﷺ نے اس طرح بتایا : ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے۔ اور والد کے لئے فرمایا : والد جنت کے دروازوں میں بیچ کا دروازہ ہے۔ اتنا بڑا مرتبہ و مقام ماں باپ کواسی لئے دیا گیا ہے کیونکہ ماں نے جس طرح اپنے ہونے والے بچے کواپنی کوکھ میں رکھ کر کئی تکالیف سہہ کر جنم دیا ہے اور ولادت کے بعد اسی طرح سے نگہداشت، اس کی صفائی ستھرائی کا خیال،والد کی جانب سے ضروریات زندگی کے سامان مہیا کرناوغیرہ ہے۔ آقائے دو عالم ﷺ نے بچوں سے پیار و محبت کرنے کا عملی طور پر درس دیا ہے۔ آج والدین اپنی اولاد کو عصری تعلیم کے حصول کے لئے لاکھوں روپیے خرچ کررہے ہیں ، انکے ہاتھوں میں عصری ٹکنالوجی سے مزین آلات یعنی موبائل فون، کمپیوٹر، لیاب ٹاپ، آئی پیڈ وغیرہ تھماکر خوشی محسوس کررہے ہیں کہ انکی اولاد عصری تقاضوں سے بھرپورٹکنالوجی سے استفادہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے جبکہ انہیں پتہ ہی نہیں کہ انکی اولاد کس راہ پر گامزن ہورہی ہے، پیروں سے زمین اُس وقت کھسنے لگتی ہے جب انہیں پتہ چلتا ہے کہ وہ کس طرح بے راہ روی کا شکار ہوچکے ہیں۔ اُس وقت افسوس اور آہ و بکا کرنے کے بجائے موجودہ حالات کو پیش نظر رکھ کر انہیں ہر ایسی نقصان پہنچانے والی اشیاء سے دور رکھا جائے یا اگران چیزوں سے استفادہ کرنے دیا جائے تو ان پر پوری نظر رکھی جائے۔ آج مسلم والدین کی کوتاہی اور لاپروائی کا نتیجہ ہے کہ انکی اولاد عصری و اعلیٰ علوم کی ڈگریاں حاصل کررہے ہیں لیکن ان میں ادب و اخلاق کا فقدان نمایاں نظر آتا ہے۔ آداب زندگی کا انہیں پتہ نہیں، دین سے بیزاری علانیہ دکھائی دیتی ہے۔ اسلامی طور و طریقے معلوم نہیں ، یہی وجہ ہے کہ آج عالمی سطح پر مسلمان بدنام ہورہے ہیں۔ وقت کا تقاضہ ہیکہ والدین اپنی اولاد کی ہر جائز و ناجائز خواہش کو پورا کرنے کے بجائے اسلامی طرز زندگی گزارنے کی راہ دکھلائیں۔ بچوں کو ابتداء ہی سے دینی تعلیم سے آراستہ کریں۔ ان کے اندر عشق رسول ﷺ کو جاگزیں کریں۔ جب ہم اپنی اولاد کو ابتداء ہی سے اسلامی ماحول فراہم کریں گے تو وہ عصری و اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اپنی دنیوی و اُخروی زندگی کو کامیاب بناسکتے ہیں اور اسی سے اﷲ اور رسول اﷲ ﷺ کی خوشنودی حاصل کرسکتے ہیں۔جو انسان اپنے رب کی رضا کیلئے اپنی اولاد کی تربیت کرتا ہے اُسے رب العزت بھی شادمانی عطا فرماتے ہیں، اُسے اپنے حبیب پاک ﷺ کے اسوۂ حسنہ پر چلنے کی راہ فراہم کرتے ہیں اور جب انسان کو قرآن و حدیث کا علم حاصل ہونے لگتا ہے تو سمجھ لیں کہ اﷲ تعالیٰ اس سے راضی ہوا اور جب اﷲ تعالیٰ اپنے بندہ مومن سے راضی ہوتا ہے تو رحمۃ للعالمین ﷺ بھی اپنے پیارے امتی سے راضی ہوجاتے ہیں اور جب اﷲ اور رسول اﷲ ﷺ راضی ہوجائیں تو ماں باپ کی دعائیں بھی اس کے ساتھ شاملِ حال ہونے لگتی ہیں۔ اور ان تمام کے حصول کے لئے یہی ماں باپ کا کردار ہوتا ہے جو بچپن سے ہماری اسلامی ماحول میں تعلیم وتربیت ہوئی ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہمارے والدین کو صحت و عافیت اور سلامتی کے ساتھ ایمان پر قائم رکھے اور ایمان پر ہم تمام کوخیر کی موت نصیب فرمائے۔
Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 209574 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.