انسانوں کے دو بڑے قاتل’’ مچھر اور انسان‘‘

ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا کی آبادی 7 ارب ہے اس آبادی کے لوگوں کے بارے میں مختلف قسم کے سروے ہوتے رہتے ہیں انہیں میں سے ایک سروے جو کہ انسانوں کی اموات کے لحاظ سے ہوا ہے وہ’’میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن‘‘ کا ہے۔

’’میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن‘‘ کے اعدادو شمار کے مطابق مچھر ہر سال سات لاکھ پچیس ہزار انسانوں کو قتل کرتا ہے ان میں سے چھ لاکھ اموات ملیریا کے باعث ہوتی ہیں جبکہ سالانہ سے مرض قریباً بیس کروڑ لوگوں کو متاثر کرتا ہے ۔ جبکہ انسانوں کا دوسرا بڑا قاتل خود انسان ہے ہر سال انسان چار لاکھ پجھتر ہزار انسانوں کو قتل کرتے ہیں۔

مچھر کو انگریزی میں(Mosquito) کہتے ہیں۔مچھراصل میں مکھی کی ہی ایک قسم ہے۔ دنیا پھر میں اس کی 3500 اقسام ہیں۔ مچھر کی زندگی چار ارتقائی مراحل پر مشتمل ہوتی ہے ۔انڈہ،لاروا،پیوپا،اور مکمل مچھر ان کی افزائش عموماً تالابوں،نالیوں یا پانی کی کسی بھی ذخیرے اور پودوں کے پتوں پر ہوتی ہے ان کی زندگی کے پہلے تین مرحلے ایک سے دو ہفتے میں مکمل ہو جاتے ہیں مادہ مچھر ایک ماہ تک زندہ رہ سکتی ہے مگر عام طور پر اس کی زندگی ایک سے دو ہفتہ تک ہوتی ہے ان کی افزائش اور زندگی میں ماحول کو حاص اہمیت حاصل ہے ۔مچھروں کی اصل خوراک پھلوں اور پھولوں کا رس ہے خون کی ضرورت صرف مادہ مچھر کو ہوتی ہے انڈے دینے کے لئے مادہ مچھر کو فولاد اور پروٹین کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ یہ خون سے حاصل کرتی ہے۔خون حاصل کرنے کے بعد مادہ مچھر آرام کرتی ہے جب تک کہ یہ خون ہضم نا ہو جائے اور انڈے تیار نا ہو جائیں۔ مچھروں کی بعض اقسام مسلسل چار گھنٹے تک اڑ سکتے ہیں اور رات بھر میں یہ بارہ کلومیٹر کا سفر طے کر لیتے ہیں ۔ مچھر ڈینگی بخار،پیلا بخاراور ملیریا کا موجب بنتا ہے جن میں زیادہ تعداد افریقی اور ایشیائی لوگوں کی ہوتی ہے۔

انسانوں کو سب سے بڑا قاتل تو ایک جانور ہے مگر انسانوں کو دوسرا بڑا قاتل خود انسان ہے انسان کو انگلش میں (Human)کہتے ہیں اور دنیا میں پائی جانے والی تمام تر انواع میں سے برتر دماغ رکھنے والی ہے اس مخلوق کو اشرف المخلوقات بھی کہتے ہیں یعنی خدا تعالیٰ کی جتنی بھی مخلوقات ہیں ان میں سے سب سے زیادہ قابلِ عزت ۔

حیاتِ انسان ایک معاشرتی مخلوق ہونے کے ساتھ ساتھ شعور وادراک میں دیگر تمام مخلوقات سے اعلیٰ معیار تک پہنچی ہوئی ہے۔ انسان کو ’’آدم‘‘ کی نسبت سے اردو، فارسی،عربی میں آدمی بھی کہا جاتا ہے ۔ انسانوں کی تخلیق جس حیاتیاتی مادہ سے ہوئی ہے ان کو دنیا DNA کے نام سے جانتی ہے اور تمام انسانوں کو حیاتیاتی مادہ 99.9 تک ایک جیسا ہے ۔ تمام انسان ایک ہی وجود سے پیدا ہوئے ہیں انسان پر خدا کا ایک یہ بھی انعام ہے کہ انسان کے اشرف المخلوفات ہونے کے ساتھ ساتھ خدا تعالیٰ نے اس کی راہنمائی کے لئے اپنے فرستادے اور اپنی ہدایات بھیجی ہیں اور تمام آنے والے فرستادوں اور تمام ہدایتوں میں خدا تعالیٰ نے آپس میں محبت و پیار کا ہی درس دیا ہے مگر ان تمام فضلوں اور ہدایتوں کے با وجود انسانوں کا دوسرا بڑا قاتل بھی انسان خود ہی بنا ہوا ہے اور جو گروہ اپنے آپ کو خود تباہ کرنا چاہتا ہو اسے کوئی نہیں بچا سکتا شاید زمین پر موجود کوئی جانوربھی ایسا نہیں ہوگا جو کہ خود اپنی ہی ذات کو اس تیزی سے ختم کرنے میں مصروف ہو اس زمیں پر بہت سے جانور ہیں اور ایسے جانور ہیں جو کہ انسان سے طاقت میں بھی بڑے ہیں اور قدمیں بھی ۔ وہ انسان کی موت کا اتنا بڑا سبب نہیں ہیں جتنا خود اپنی اموات کا سبب ہے مچھر انسان کو خون چوستے ہیں اور انسان ،انسان کو خون چوسنے میں مصروف ہے ،مچھر انسان کا خون اس لئے پیتا ہے کہ وہ اپنی نسل کو آگے پڑھا سکے مگر انسان ، انسان کا خون کبھی مذہب،کبھی فرقہ، کبھی صوبہ پرستی کبھی نسل پرستی کبھی طاقت کے اظہار کے لئے پی کر اپنے آپ کو ہی ختم کرتا ہے سانپ کے کاٹنے سے 50 ہزار،کتوں کے کاٹنے سے 25 ہزار انسانوں کی اموات ہوتی ہیں، اورشارک مچھلی10 اور مگر مچھ اوسطاً1000 انسانوں اموات کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔مگر انسان ان سب سے آگے ہے انسان سالانہ چار لاکھ پجھتر ہزار انسانوں کاقاتل ہے ۔ جو کہ قابل صد افسوس ہے۔
Nadeem Ahmed Farrukh
About the Author: Nadeem Ahmed Farrukh Read More Articles by Nadeem Ahmed Farrukh: 33 Articles with 27943 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.