اداروں کا ٹکراؤ یا تہزیبوں کا ٹکراؤ

جہاں تک میری معلومات ہے ہمارے خاندان کی پچھلی تین چار پشتوں میں کوئی فوجی نہیں گزرا کم از کم انگریز کی فوج یا پاکستانی افواج کے اداروں میں کسی نے قدم تک نہیں رکھا تھا اور جو کچھ ان اداروں کے ہاتھوں پاکستان اور اسکی عوام کے ساتھ ہوتا دیکھتے رہے ہیں اسکے بعد قوی امید ہے کہ آیندہ تین چار نہیں بلکہ کم از کم سات نسلیں ان اداروں کے پاس سے بقول گلوکار ابرار الحق "جتھے نیلی بتی والی گڈی ویکھو ا وتھوں نیویں نیویں ہوکے لنگ جاؤ" یعنی لنگ ہی جائیں گی !

مگر میں نے ایک ذاتی مشاہدہ کرنے کے شوق میں فوج سے منسلک ایک تعلیمی ادارے میں استاد بننے کی کوشش کی. میرٹ اور تجربہ میرے پاس تھا اور سنی سنائی یہ بات بھی کہ اس ادارے میں " سفارش " نہیں چلتی اس لیے سوچا کہ دیکھ ہی آئیں کہ اس " سنی سنائی " میں کوئی دم ہے یا یہ بھی ہما رے نیوز چینلز پر چلتے وہ " Tickers " ہیں جو پہلے اڑتی پھرتی بات ہوتے ہیں پھر خبر بنتے ہیں اور پھر کوئی " سینئیر تجزیہ کار " اپنی بڑا ئی ثابت کرتےہوۓ ان اڑتی پھرتی کو اپنا " تجزیہ " قرار دے دیتا ہے .

ایک ہی دن میں سارے written ٹیسٹ دیۓ جو کلیر ہونے کے بعد انٹرویو کی نوبت آئ. سلام دعا کے بعد پہلا حملہ ہی میری " ذات " پر تھا یعنی میری CAST پر تقریبا تین سوال کیۓ گیۓ پھر مزید چار سے چھ سوال اس بات پر کہ آپ " پنجاب " میں کیا کر رہی ہیں ؟ یعنی پنجاب نہ ہوا ریاست ہا ئے متحدہ امریکہ ہوگیا کہ میں بغیر ویزہ لیۓ یہاں پہنچی کیسے؟ استاد بننے گئی تھی مگر انٹرویو سے ایسا لگنے لگا تھا جیسےمیں بچوں کو پڑھانے نہیں بلکہ انکی " ٹارگٹ کلنگ " کرنے آئی ہوں.

افواج پاکستان کے یہ افسر شاید انگریزی ہی میں سوالات کی بوچھاڑ کر رہے تھے یا شاید پنجابی میں انگریزی بول رہے تھے یا کم از کم کوشش ضرور کر رہے تھے . " آپ یہاں کب آئیں ؟ پنجاب ہی کیوں آئیں ؟ یہاں آپکا کون کون ہے؟ آپ سندھ کو کیوں چھوڑ آئیں میرا مطلب ہے وہاں سے آنے کا کیا مقصد ہے ؟ کیا آپ وا پس جائیں گی ؟ لاہور کے علاوہ کہاں کہاں گئیں ؟ سندھ میں رہے تو مکان پنجاب میں کیوں ہے؟ آپکا فوج میں کوئی رشتے دار ہے ؟ "

اس انٹرویو سے پہلے کتنے ہی سرکاری ، نیم سرکاری اداروں میں انٹرویو کا موقع ملا کچھ میں نا کا می اور چند میں کامیابی بھی ملی مگر زندگی میں پہلی بار اس قسم کی Interrogation سے واسطہ پڑا تھا یعنی میری ذاتی قابلیت یا تجربے پر سوالات کرنے کی بجاۓ میرے خاندانی نام پر سوالات اٹھاۓ گیۓ کہ آپ اور " فوجی ادارے " میں ؟؟ جیسے انکو یقین تھا کہ میں وہاں درسی کتابیں پڑھا نے نہیں بلکہ "بغاوت" پر اکسانے کا ارادہ رکھتی ہوں .مجھ سے میرے مضمون کے بارے میں کم اور ذاتی دلچسپیوں کے بارے میں کرید کرید کر پوچھا جارہا تھا جیسے میں گھر میں نہیں کسی ٹرینگ کیمپ میں وقت گزارتی ہوں." آپ کس قسم کی کتابیں پڑھتی ہیں ؟ آخری بار کونسی کتاب پڑھی ؟ کتنے عرصے پہلے پڑھی؟ کیا کہا ؟ آپ شاعری کی کتابیں بھی پڑھتی ہیں؟ کونسے شا عر کی کتاب آپ اکثر پڑھتی ہیں " یہ تو اللہ کا کرم ہوا کہ ایک ریٹایرڈ فوجی پرنسپل کی شکل میں موجود تھا جس کو دوران انٹرویو یہ یاد آجاتا تھا کہ یہ بیچاری " کپتان " بننے نہیں بلکہ استاد بننے آئی ہے اس سے کبھی کبھار اسکے مضمون کے بارے میں بھی کچھ پوچھ لیا جاۓ.
میرے آبائی نام اور لسانیت پر انکے تابڑ توڑ حملوں نے مجھے یہ تو سمجھا دیا تھا کہ یہاں سے کیا جواب ملے گا لیکن یہ آج تک سمجھ نہیں آیا کہ انہوں نے مجھے انٹرویو کے قا بل ہی کیوں سمجھا تھا ؟ اگر انکو یقین تھا کہ اس انٹرویو کے بعد بھی نہ میں اپنا نام تبدیل کروں گی ، نہ لسانیت اور نہ ہی اپنا " سویلین " دماغ جسکو حبیب جالب ، احمد فراز اور فیض احمد فیض سے عشق ہے تو انہوں نے میرا قیمتی وقت کیوں برباد کیا ؟ جب میں ہر ٹیسٹ میں کامیاب ہوگئی تھی تو مجھے صرف "interrogation" کے لیے ڈیڑھ گھنٹہ بٹھانے کا کیا جواز تھا ؟ جن لوگوں کا انٹرویو تھا ان میں صرف دو افراد تھے جو صوبہ پنجاب سے تعلق نہیں رکھتے تھے ایک میں اور ایک اور صاحب ! دونوں کو ہی لبمی " کھینچائی" کا سامنا کرنا پڑا، میری مزید " خوشبختی" یہ تھی کہ میں ان صاحب کی طرح چودھری ، چھٹہ یا وٹہ بھی نہیں تھی لہذا مجھ پر آدھا گھنٹہ مزید " سوالاتی تشدد " کیا گیا.

اس انٹرویو کے آخر میں فضا ئیہ سے تعلق رہنے والے ایک صاحب نے شاید آخری لمحوں میں ماحول کو بہتر بنانے کے لیے ایک سوال کیا " کبھی کوئی کھیل بھی کھیلا ہے آپ نے ؟" دل چاہا کہہ ہی دوں " جی ہاں ! آپ لوگوں کے ساتھ ہم ہر 10 سال بعد میوزیکل چیر کھیلتے تو ہیں "،

مگر یہ سوچ کر خاموش ہوگئی کہ میری ذات اور لسانیت پر انکا شک میرے اس جواب سے یقین میں بدل جاۓ گا کیوں کہ میرا اور انکا ٹکراؤ دو" اداروں" کا نہیں بلکہ دو" تہذیبوں " کا ٹکراؤ تھا نہ یہ کبھی میری بات کھلے دل ؤ دماغ سے سمجھیں گے اور نہ میں انکی نیت تک کبھی پہنچ سکوں گی .
aina syeda
About the Author: aina syeda Read More Articles by aina syeda: 44 Articles with 62937 views I am a teacher by profession, a writer by passion, a poet by heart and a volunteer by choice... View More