کراچی کے دبستان شاعری میں اردو غزل کا ارتقاء

کراچی کے دبستان شاعری میں اردو غزل کا ارتقاء ،ڈاکٹر جاوید منظر۔ کراچی:مکتبہ عالمین پاکستان، ۲۰۱۲ء۔ ۳۹۲ ص۔ قیمت: ۵۰۰ روپے

دبستان کراچی کے مصنف ڈاکٹر جاوید منظر عصر جدید کے اردو ادب میں ایک معتبر شخصیت کے حامل ہیں۔ جنھوں نے اردو زبان و ادب کی خدمت کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا اور انجمن ترقی اردو کے کار پردار کی حیثیت سے اردو ادب کی آبیاری کر رہے ہیں۔ ساتھ ساتھ مشق سخن بھی جاری ہے۔

قیام پاکستان کے بعد ہجرت کی اور کراچی میں مقیم ہو گئے۔ والد ڈاکٹر حسن ممتاز مرحوم، والدہ محترمہ ناظرہ زمانی منور جہاں مرحومہ بھی شاعرہ تھیں۔دادا بیرسٹر محمد اقتدار عالم کے بڑے بھائی بیرسٹر محمد اکرام عالم قائداعظم کے قریبی ساتھی تھے۔ دادا کے ایک اور بڑے بھائی اعزاز عالم شاعر، ماہر تعلیم اور مسلم لیگ کی ایجوکیشن کمیٹی کے رکن اور اہم عہدے دار تھے۔

ڈاکٹر جاوید عالم نے پی ایچ ڈی ۲۰۰۸ء میں مکمل کی۔ مقالہ کا موضوع تھا "کراچی کے دبستان شاعری میں اردو غزل کا ارتقاء" یہ مقالہ ڈاکٹر اسلم فرخی کی زیر نگرانی مکمل ہوا۔ یہ تصنیف دراصل ان کا تحقیقی مقالہ ہے۔یہ دنیا ادب کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے جدید دور اور آنے والے نسل کے لئے ایک اہم ادبی سرمایہ ہے۔

دبستان کراچی قیام پاکستان سے قبل کی ادبی اور ثقافتی تہذیب کا آئینہ دار ہے۔ دبستان دکن، دبستان دہلی اور دبستان لکھنو کے شعراء نے اردو غزل میں ایک نیا رنگ بھرا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد دبستان کراچی نےاردو غزل کو ایک نئی معنویت بخشی۔ تصنیف چار ابواب پر مشتمل ہے۔ ابتدائیہ ڈاکٹر جاوید منظر نے اور دیباچہ "اردو دنیا کا ایک دبستان " کے نام سے ڈاکٹر جمیل جالبی نے تحریر کیا ۔

باب اول میں کراچی کے دبستان شاعری میں اردو کا ارتقاء کا جائزہ اور کراچی شہر کے وجود میں آنے اور اس کی ترقی کا جائزہ لینے کے ساتھ ۲۸ شعرا کو شامل کیا ہے۔

باب دوئم میں " عروس البلادکراچی" اور "کراچی اپنے ابتدائی دور سے تاریخ کے آئینے میں" پر روشنی ڈالی ہے۔قیام پاکستان سے قبل کی عمارتیں اور کراچی شہر کی جغرافیائی اہمیت کا جائزہ لیا گیا ہے۔ قیام پاکستان سے قبل کراچی میں اردو زبان کی ترقی اور فروغ، کراچی کا ابتدائی ادبی منظر نامہ پیش کرنے کے ساتھ کراچی کی قدیم شعری روایت کا مختصر جائزہ لیا گیا ہے۔اور قیام پاکستان سے قبل کراچی کے جن شعرائے اکرام نے اردو شعر و ادب کی اس روایت کو برقرار رکھا ان ۳۲ شعراء کا مختصر تعارف پیش کیا ہے۔ اس کے علاوہ بدلتے حالات کی سفاکی، فسادات، ہجرت، بے زمینی کا احساس، سماجی اور سیاسی مسائل، غزل میں فکر کے نئے پیرایہ اظہار، غزل کے تصوف میں آمیزش اور تعمیر وطن کا جذبہ جیسے عنوانات کو شامل کیا ہے۔

باب سوئم میں" دبستان کراچی کے معمار"کے تحت کراچی کےشعری دبستان کے وجود میں آنے اور لانے والے شاعروں کے بارے میں تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔ یہاں صرف ان شعراء کا تزکرہ ہے جو دبستان کراچی میں اہمیت کے حامل تھے اور جنہوں نے اپنی شاعری سے ادب میں ایک مقام حاصل کیا۔ان کی عمر قیام پاکستان کے وقت ۲۱ سال کی تھی۔ باسٹھ شعرائے کرام کا تذکرہ حروف تہجی کے لحاظ سے کیا گیا ہے۔
باب چہارم میں کراچی کے دبستان شاعری میں شعراء کی دوسری ہجرت کا جائزہ لیا گیا ہے۔اس باب میں ان شعرائے کرام کے بارے میں اظہار خیال ہے جو بنگلہ دیش کے قیام کے بعد پاکستان تشریف لائے اور کراچی میں مقیم ہوئے۔ ان لوگوں نے اپنی پریشانیوں، تلخیوں اور صعوبتوں کو اپنی شاعری میں جذب کر دیا۔ دبستان کراچی مین جن شعرائے کرام کے حالات زندگی اور شاعری کو شامل کیا گیا ہے۔ انکے نام یہ ہیں، افسر ماہ پوری، اقبال عظیم، مجید کھام گانوی، نیر صدیقی اور نیر مدنی۔
موج لکھنوی نے ڈاکٹر جاوید منظر کی غزلوں کے منتخب اشعار پیش کیے ہیں
اگر اسے کوئی تجھ سا ادب شناس ملے
ہر ایک شخص کے ہاتھوں کرے کتاب سفر
چھوڑ دے آسان رستہ زندگی دشوار کر
جس طرف دریا چڑھا ہو اس طرف سے پار کر
زندگی راستہ بدلتی ہے
راستہ خود کہاں بدلتا ہے

یہ تصنیف ڈاکٹر جاوید منظر کی ایک بہترین کاوش ہے اور دور حاضر میں ایک اہم علمی و ادبی سرمایہ ہے۔ سر ورق خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ کراچی کی چند اہم عمارات کی تصاویر پیش کرتا ہے۔