ہائی بلڈ پریشر

بلڈ پریشر کے بارے میں تقریباً سب جانتے ہیں کہ یہ انسانی صحت کو کتنا متا ثر کرتا اور خطرناک ثابت ہوتا ہے ،کارڈیالوجی کے ایک پروفیسر نے تفصیلاً بلڈ پریشر کے پس منظر اور خطرات کے بارے میں بتایا کہ یہ کب ہائی ہوتا ہے اور کب کم، کن عوامل سے انسان کو پرہیز کرنا چاہئے اور کن پر عمل درآمد۔پروفیسر کا کہنا ہے بلڈ پریشر ہائی ہونے کی پہلی نشانی کشیدگی ہے پریشانی اور غصے کے عالم میں انسان کی رگوں میں خون کے انتہائی تیزی سے سرکولیشن کرنے کے سبب دماغ کے خلیات پر شدید اثر پڑتا ہے اور آٹومیٹک اس کی نبض کی رفتار بھی تیز ہوجاتی ہے اور اس عالم میں بلڈ پریشر ہائی ہونے کے سبب ہارٹ اٹیک کا بھی خطرہ ہوتا ہے،شدید ذہنی دباؤ کے زیر اثر ایک صحت مند انسان بھی ہائی بلڈ پریشر میں مبتلا ہو سکتا ہے، طبی لحاظ سے یہ نارمل ہے اور کسی حد تک ضروری بھی ،بلڈ پریشر مختلف حالات میں جسم کے اعضاء ایڈجسٹ نہ ہونے کی صورت میں بھی ہائی ہو سکتا ہے لیکن تجربات سے ثابت ہوتا ہے کہ کشید گی اور کام کی زیادتی کے علاوہ گہرے الجھے معاملات بھی صحت مند انسان کو ہائی بلڈ پریشر میں مبتلا کر سکتے ہیں،خون کی گردش اور آکسیجن کے اتار چڑھاؤ کا دارومدار انسان کی اپنی ذہنی سوچ سے منسلک ہوتا ہے ، اس لئے پرسکون رہنے والے افراد کو بہت کم ہائی بلڈ پریشر کا سامنا کرنا پڑتا ہے، عام حالات میں روزمرہ کے معاملات کو حل کرنے اور پایہ تکمیل پہنچانے کیلئے انسان دماغ پر زور دینے اور اس نتیجے میں دباؤ کی صورت میں آکر بھی ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہوتے ہیں جو ایک نارمل بات ہے اور اسے بیماری میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔انسانی نظام کا اہم حصہ دل کی دھڑکن اسکی رفتار اور دیگر ہارمونز جسمانی سسٹم اور خاص طور پر بلڈ سرکولیشن کو کنٹرول کرتے ہیں اور بوقت ضرورت جسمانی فریکیونسز کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے اور کئی بار کسی جسمانی اعضاء کے کچھ لمحے کیلئے فیل ہو جانے پر جسم کے باقی ہارمونز پر شدید اثر پڑتا ہے ان میں ایک جز ہائی بلڈ پریشر کے نتیجے میں شمار ہوتا ہے،جسمانی نظام کی ریگولر فنکشن کیلئے ہارمونز ،گردے ،غدود اور دیگر جسمانی ریشوں کی سرکولیشن اور جسم میں منتقلی کے سبب اعصابی سسٹم اور خون کی روانگی برقرار رہتی ہے،ہائی بلڈ پریشرکا شکار تقریبا ہر انسان ہے لیکن ساٹھ سال سے زائد عمر کے افراد اکثر ہائی بلڈ پریشر میں مبتلا رہتے ہیں اس بیماری کے اعداد وشمار یا تحقیق کرنا مشکل ہے کہ کیوں جوان افراد کم اور عمر رسیدہ حتیٰ کے وہ پر سکون زندگی گزارتے ہیں لیکن اس بیماری کا شکار ہوتے ہیں،ماہرین کا کہنا ہے کہ بلڈ پریشر کا شکار نہ صرف عمر رسیدہ افراد ہوتے ہیں بلکہ وہ لوگ بھی نہیں بچ پاتے جو مسلسل کھڑے رہتے، بیٹھے یا لیٹے رہتے ہیں کیونکہ اچانک جسمانی پوزیشن میں تبدیلی رونما ہونے سے آنکھوں کے سامنے سیاہ دائرے گھومتے ہیں ،سر درد اور شدید چکر کے باعث دیگر جسمانی علامات کے سبب بھی بلڈ پریشر ہائی ہو جاتا ہے۔بلڈ پریشر کا دباؤ ایک صحت مند انسان پر 120/80ملی میٹر مرکری تک ہوتا ہے ،شریانوں میں خون کی پمپنگ اور پلمو نری کی گردش دل کے چیمبر میں نرمی سے سرکولیشن کرتی اور نئے خون کے بہاؤ میں شامل ہوتی رہتی ہے اس وقت بلڈ پریشر ہائی ہوتا ہے بدیگر صورت عام حالات میں خون کی شریانوں میں گردش دل کے خلیات میں نارمل سرکولیشن میں بلڈ کا پریشر کم رہتا یا نارمل ہوتا ہے۔پروفیسر کا کہنا ہے بلڈ پریشر اس وقت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے جب انسان پہلے سے ہی کسی بیماری میں مبتلا ہو اور مسلسل دباؤ کے باوجود کام کرتا رہے اس عمل سے دل کمزور ہوتا ہے اور نوبت ہارٹ اٹیک تک آجاتی ہے یہ کہنا مناسب ہے کہ ان حالات میں بلڈ پریشر کا ہائی ہونا موت کی علامت ہے۔مسلسل ہائی بلڈ پریشر میں مبتلا رہنے والے افراد کی آنکھوں اور گردوں کو بھی شدید نقصان پہنچتا ہے گردوں اور دیگر جسمانی ہارمونز میں پریشر بڑھنے سے انسان شدید متاثر ہوتا ہے بینائی سے محروم ہوجانے کے بھی امکان بڑھ جاتے ہیں،جو افراد کشیدگی کے باعث ہائی بلڈ پریشر میں مبتلا ہوتے ہیں پہلے انہیں چکر آتے ہیں تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے اور اسی لمحے چکرا کر گرنے کا خطرہ ہوتا ہے،کشید گی کے علاوہ جو افراد موٹاپے میں مبتلا ہیں ورزش نہیں کرتے تمباکو نوشی اور شراب نوشی بلڈ پریشر کے ہائی ہونے کی پہلی سیڑھی ہے،ورزش نہ کرنے سے اتنا جسمانی نقصان نہیں ہوتا لیکن دیگر روزمرہ خوراک انسانی صحت کو تباہ کرنے اور بلڈ پریشر کو ہائی کرنے میں اپنا کردار ادا کرتی ہے ان حالات میں نمک سے پرہیز کیا جائے۔ ہائی بلڈ پریشر پر قابو پانے کیلئے باقاعدگی سے ورزش ضروری ہے تاکہ وزن پر کنٹرول ہو،کم چربی کی خوراک لازمی قرار دی گئی ہے اور زیادہ سے زیادہ سبزیاں اور پھل استعمال کرنے سے صحت برقرار رہتی ہے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Shahid Shakil
About the Author: Shahid Shakil Read More Articles by Shahid Shakil: 250 Articles with 227945 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.