بابا قیوم کی پکار۔۔۔۔۔۔!

آج مجھے بابا قیوم کی تدفین میں جانا تھا جن کا آج صبح رضاالٰہی سے انتقال ہوگیا تھا بابا قیوم ایک پینسٹھ سالہ ضعیف العمر شخص تھا جن کے پاس اکثر میری بیٹھک ہوا کرتی تھی بابا قیوم ایک محنتی باہمت انسان تھااور اِس ضیعف العمری میں بھی اپنا گزر بسر کرنے کے لئے ایک پرائیویٹ فرم میں مزدوری کرتا تھا بابا قیوم کو دمہ کا مرض لاحق تھا جو کہ مستقل علاج نہ ہونے کے سبب کافی مہلک ہوچکا تھا اُس کی سانسیں اچانک اُکھڑنا شروع ہوجاتی تھیں آج بھی اُس کی سانسیں اُکھڑ رہی تھیں لیکن باوجود اِس کے وہ پھر بھی ڈیوٹی پر چلا گیاکیونکہ ڈیوٹی سے غیر حاضری کی صورت میں ایک دن کی تنخواہ کٹ جانی تھی سانسوں کااُکھڑنا تو معمول بن چکا تھا جو کچھ وقت بعد بحال ہوجایا کرتی تھی لیکن آج وہ دورانِ ڈیوٹی اپنی اُکھڑتی سانسوں کو بحال نہ کرسکا اور ایک دن کی تنخواہ بچانے کے لئے اپنی بوڑھی سانسوں کو قربان کر بیٹھا شایداُس کی اِن بوڑھی سانسوں کی قیمت ایک دن کی تنخواہ سے کم تھی۔ بابا قیوم اپنی جوشِ جوانی سے لیکر ضیعف العمری کی لچارگی تک مسلسل کام کرتا آیا تھا بابا قیوم پانچوی پاس تھا مختلف جگہوں پرمحنت مزدوری کرنے کے بعد اب وہ بڑھاپے کی دہلیزپر بے یارو مددگار کھڑا تھاایک دن وہ مجھ سے کہنے لگاعمران بیٹا کام کر کر کے اب یہ ہڈیاں بوڑھی ہوچکی ہیں اب اِن بوڑھی ہڈیوں میں مزید کام کرنے کی سکت نہیں رہی کام کرنے میں بڑی دشواری ہوتی ہے اگر مجھے بھی اوروں کی طرح پنشن ملنے لگے تومیں بھی اپنی زندگی کے بچے کچے دن سکون سے گزار لوں عمران بیٹا کیا پاکستان کے آئین میں اور ہمارے دینِ اسلام میں ہمارے جیسے ضعیف العمر لوگوں کیلئے کوئی سہولت نہیں ہے۔بابا قیوم کے اِس سوال کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھاسوچ رہاتھااِن سے کیا کہوں کس طرح سمجھاؤں کہ پاکستان جیسے ملک میں اِس طرح کی سوچ رکھنااِس طرح کی تمنا کرنا ناقابلِ معافی جرم ہے ۔ ہاں اگر بابا قیوم جیسے لوگ پاکستان کے علاوہ کسی یورپی ملک کے شہری ہوتے توبات کچھ اور تھی جہاں اُنھیں اِس طرح کا شکوہ کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی جہاں اولڈ سٹیزن کو چاہے وہ کسی ادارے سے منسلک ہوں یا نہ ہوں ضعیف العمری میں اُس کی گزر بسر کے لئے نہ صرف ماہانہ پنشن کا اجرء حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے بلکہ اُس کے علاج معالجے کی پوری ذمہ داری حکومت کے ذمہ ہوتی ہے۔میں کیسے بتاتا کہ ہمارا دین جو کہتا ہے آج اُس کی پاسداری اغیار بہت اچھے سے کررہے ہیں ہم توبس دعاؤں کے طفیل بیٹھے ہیں۔
قرآن گھر میں ہے مگر ہم پڑھتے نہیں
ذرا بھی اﷲ کا خوف ہم کرتے نہیں
صورت سے تو انساں نظر آتے ہیں ہم
مگر سیرت سے تو مسلماں ہم لگتے نہیں

قارئین آج کل ہمارے معاشرے میں بہت سے مسائلوں نے جنم لے رکھا ہے ریاست میں موجود تقریباً ہر شہری پریشانی و اذیت میں مبتلا نظر آتا ہے جس کی اصل وجہ کوئی زیادہ بڑی نہیں بلکہ زندگی کا لازمی جُزجسے اﷲ رب العزت نے ریاست کے سہارے بہت آسان فرمایا تھاآج کسی بھی ریاست میں رہنے والے شہری کا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ بن چکا ہے جی ہاں ـ"دو وقت کی روٹی کا حصول " جو کہ موجودہ حالات میں اِس قدر مشکل ہوگیا ہے کہ جسے دیکھیں اپنی تمام ذمہ داریوں کو اپنے تما م مقاصد زندگانی کو پسِ پشت ڈال کر صرف اپنے لئے دو وقت کی روٹی کے حصول میں مصروف نظر آتا ہے۔ نوجوانوں کو دیکھ لیجئے بے روزگاری کے سبب مالی حالات میں گرفتار اپنی جوانی پرروتا ہے اور اپنے آپے کوستا رہتا ہے کہ آخر اُس نے جوانی کی دہلیز پرقدم ہی کیوں رکھا ۔اِسی طرح اپنی جوانی کے قرب ناک دور سے گزر کرجب ایک بوڑھا ضعیف العمری کی آغوش میں بے سہارہ بے یارو مددگار اپنی لچارگی کو دیکھتا ہے تو دل بے اختیار کہہ اُٹھتاہے کہ یا اﷲ تونے بڑھاپے کی زندگی کو اتنا لاچار کیوں بناڈالا ۔ حالانکہ دینِ اسلام نے انسان کے اِن ارتقاؤں کی ہر طرح سے رہنمائی فرمائی ہے اور پیدائشِ اذاں سے لیکر دارِ فغاں تک کوئی لمحہ بھی قدرت کی مہربانیوں سے خالی نہیں چھوڑا۔جنابِ نبی کریم ﷺ نے حقوقِ انسانی کا ایسا لازوال انقلاب برپا کیا کہ تاریخِ انسانی میں معراجِ انسانی کی ایسی مثال کہیں نہیں ملتی۔

جتنے حقوق اﷲ رب العزت نے ایک انسان کے لئے دینِ اسلام میں رکھے ہیں شاید ہی دنیا کے کسی دوسرے مذہب میں رکھے گئے ہوں۔ باپ کے حقوق، ماں کے حقوق، اولاد کے حقوق، بیوی کے حقوق، پڑوسی کے حقوق، دوست کے حقوق، عزیزو اقارب کے حقوق، نوجوانوں کے حقوق ،ضعیف العمری کے حقوق ،حکمرانوں کے حقوق، رعایا کے حقوق اور جانے کتنے ہی بے شمار حقوق کی بات قرآنِ کریم کرتا ہے جن کو اگرمسلسل تحریر کرنے بیٹھیں تو ہمارے قلم کی سیاہی اور اشاعتی کاغذ کم پڑسکتے ہیں۔لیکن ہمارے آج کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے حکمرانوں سمیت پوری اُمت ِ مسلمہ اِن تمام حقوق کی پاسداری سے استشناء حاصل کئے بیٹھی ہے۔
قوم کیا چیز ہے ،قوموں کی امامت کیا ہے
اِس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام۔

حضرت عمرؓ فاروق کا دورِ خلافت تھا آپ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ علاقے کا دورہ فرمارہے تھے کہ آپ ؓ نے دیکھا کہ ایک ضعیف العمر شخص زمین پر مردہ حالت میں پڑا ہے آپ ؓ نے ساتھیوں کو حکم دیا کہ اِس شخص کو دیکھو یہ کون ہے دیکھنے پر پتا چلا وہ نیم مردہ حالت میں ہے جب آپ ؓ نے اُسے دیکھا تو ساتھیوں سے پوچھا تم میں سے کوئی اِسے جانتا ہے سب نے اُس بوڑھے شخص کو پہچاننے سے انکار کردیا خلیفہ دوئم حضرت عمرِ ؓفاروق نے کہا اِس شخص کو میں بہت اچھی طرح جانتا ہوں یہ ایک یہودی ہے جو اپنی جوانی میں بہت محنتی اور طاقتور تھا اپنے زورِبازو کما کر اپنا گزر بسر کیا کرتا تھا لیکن آج یہ بوڑھا ہوچکا ہے۔ خلیفہ دوئم حضرت عمر ؓ فاروق نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ اِسے اُٹھاؤاور اپنے ساتھ لے چلواب اِس کی تمام ذمہ داری ریاست کے ذمہ ہے قارئین یہ شان ہوا کرتی تھی مسلمان حکمرانوں کی جو ایک غیر مسلم کو بھی ریاست کا شہری ہونے کے ناطے اپنی ذمہ داری خیال کیا کرتے تھے۔ بابا قیوم جیسے لوگ تومسلمان ہیں ایک مسلم ریاست کے شہری ہیں ایک ایسی مسلم ریاست جسے اسلام کا قلعہ تصور کیا جاتا ہے آج پاکستان میں بابا قیوم جیسے جانے کتنے ضیعف العمر لوگ ہیں جو اپنی زندگی کا ایک بامقصد حصہ گزار کربڑھاپے کی لاچارگیوں میں گرفتار اپنی ارتقا ء کی باقی ماندہ چند سانسوں کو دوسروں کے رحم وکرم پر چھوڑ دینے پرمجبور ہے اور ہمارا معاشرہ ہے کہ اُنھیں معاشی بوجھ کے تصور کرتا ہے۔ اگر وہ کسی ادارے سے منسلک ہوکر پنشن نہیں لے پارہے تو کیا وہ جینا چھوڑ دیں ریاست کی کوئی ذمہ داری نہیں بنتی کہ ایسے لوگوں کو معاشی و سماجی تحفظ فراہم کریں۔ اوراگر کوئی کسی ادارے سے منسلک ہیں بھی تو اُنھیں اداروں کا محتاج بنادیا جاتا ہے جوکہ اپنی بچی کچی زندگی کی اَدھ مری سانسیں اِن اداروں کے طواف میں پوری کردیتے ہیں ۔ جانے ایسے کتنے ادارے ہیں جو خود کو EOBI سے رجسٹرڈ کروانا اپنی توہین سمجھتے ہیں جو مزدور کی کم از کم مقرر کی گئی تنخواہ د ینا اپنی جیب پر بوجھ تصور کرتے ہیں اُن سے کمائی ہوئی بے شمار دولت اپنا حق سمجھتے ہیں۔
رزق اُگلا ہے زمیں نے تو سبھی کا لیکن
پھر سرِراہ غربت کا تماشا کیوں ہے؟
روشنی جس کے پسینے سے جنم لیتی ہے
وہ مزدوراُجالے کو ترستا کیوں ہے؟

خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق ؓ کا قول ہے مجھے نئے کپڑوں میں دفن نہ کیا جائے کیونکہ نئے کپڑوں کے زیادہ مستحق وہ ہیں جو زندہ اور برہنہ ہیں۔اسی طرح ایک اور قول مروی ہے آپؓ نے فرمایا بطور خلیفہ میری ماہوار تنخواہ اتنی ہوگی جتنی مدینہ کے ایک محنت کش کی ہوگی ۔ اگر میرا اور میرے بال بچوں کا اِس تنخواہ میں گزارا نہ ہوسکا تو میں مدینے کے محنت کش کی تنخواہ بڑھادوں گا۔ قارئین برعکس اِس کے ہم آج کے حکمرانوں پر نظر ڈالیں جنھوں نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں اپنی اور پوری پارلیمان کی تنخواہوں میں تو سو فیصد اضافہ کر دیاجبکہ ملک کے غریب ملازمین کی تنخواہوں میں صرف ساڑھے سات فیصد اضافہ کرکے فر؂عونیت کو دوام بخشا ہے۔

ہماری حکومتِ وقت سے درخواست ہے کہ اگر وہ واقعی اسلام کے خیر خواہ ہیں پاکستان اور اُس کی عوام کے ساتھ مخلص ہیں تو پھر خلیفہ راشدین کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ریاست میں موجود رعایا کے حقوق کی پاسداری کرنی ہوگی، ضعیف العمر لوگوں کے لئے ایسا نظام مرتب کرنا ہوگاجس سے اُنھیں معاشی و سماجی تحفط فراہم کیا جاسکے۔ پاکستان میں موجود پاکستانی شہریت کے حامل ضعیف العمرچاہے وہ کسی ادارے سے منسلک ہوں یا نہ ہوں اُنھیں ماہانہ پنشن کا اجراء اور اُن کے تمام علاج معالجے کی سہولت فراہم کرنا حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہو، جیسا کہ دیگر یورپی ممالک میں ہوتا آیاہے ۔ یاد رکھیں یہ اﷲ رب العزت کا فرمان ہے جس نے بار بار قرآنِ مجیدمیں انسان کو باور کرایا ہے کہ " نظام قائم کرو اور زکواۃ ادا کرو۔ اب یہ تمام مسلم حکمرانوں پر لازم ہے اور ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک ایساانسانی معاشرہ قائم کرنے میں مالی و اخلاقی طور پر حکومت کا ساتھ دیں جس میں انسان کے تمام حقوق کی پاسداری کو ممکن بنایا جاسکے جہاں جوان سے لیکر ضعیف العمر تک کومعاشی و سماجی تحفظ فراہم کیا جاسکے جہاں علمیت پسندی کا رجحان ہو،جہاں اعلیٰ تعلیم و تربیت عام ہو جدید علوم سے لوگ آراستہ ہوں، جہاں تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ امن وسلامتی سے رہ سکیں۔ جہاں بابا قیوم جیسے لوگوں کی سانسوں کی قیمت ساری انسانیت سے بڑھ کر ہو۔یقین جانیئے اِس طرح آپ انسانیت کی بھی خدمت کرپائیں گے اور اسلام کی بھی ۔قارئین جاتے جاتے اقبال کا یہ شعر آپ کی نظر
داغِ سجود اگر تیری پیشانی پر ہوا تو کیا
کوئی ایسا سجدہ بھی کر کہ زمیں پر نشان رہیں۔اقبال
علی راج
About the Author: علی راج Read More Articles by علی راج: 128 Articles with 106583 views کالم نگار/بلاگر.. View More