میگا پروجیکٹ

جرمن نژاد امریکی سائنسدان کا ناقابل یقین میگا پروجیکٹ۔جرمن سائنسدان نے کاربن ڈائی آکسائڈ کو گرفت میں لینے کیلئے ایک ناقابل یقین فارمولا تیار کیا ہے جو نہ صرف گیس کو پکڑے گا بلکہ بوتلوں میں بند کرنے کے بعد مزید سائنسی و ترقیاتی کاموں میں استعمال کیا جائے گا،ایک ہزار سے زائد درختوں سے زیادہ موثر ایک مصنوعی درخت ہمارے اس منصوبے جو کہ ماحولیاتی آب و ہوا میں مثبت کردار ادا کرے گا بہت جلد اس میگا پروجیکٹ پر عمل دراآمد کیا جائے گا۔سائنس و ترقی کے موضوع پر شائع ہونے والے امریکی اور جرمن میگزین میں بتایا گیا کہ تقریباً چالیس ارب ٹن سی او ٹو جسے سائنسی زبان میں کاربن ڈائی آکسائڈ کہتے ہیں دنیا بھر میں کثیر مقدار میں پھیل رہی ہے اور اس گیس کی آلودگی سے انسان شدید متاثر ہو رہے ہیں گیس کا کثرت سے پھیلاؤ واضح طور پر سائنسدانوں اور ماحولیاتی آلودگی پر ریسرچ کرنے والے محقیقین کیلئے بہت زیادہ مقدار ہے اور اس پر قابو پانے کیلئے بہت جلد ہائی ٹیک ڈیوائس تیار کیا جائے گا جو سی او ٹو یعنی کاربن ڈائی آکسائڈ کو گرفت میں لے کر نہ صرف قید کرے گا بلکہ اس گیس کو انڈسٹری میں دیگر عوامل کیلئے استعمال کیا جا سکے گا۔ماہرین کا کہنا ہے سال بہ سال بھاری مقدار میں کاربن ڈائی آکسائڈ دنیا میں پھیل رہی ہے جس سے انسان متاثر ہو رہے ہیں یہ گیس زمین کو شدید گرمائش پہنچانے کے علاوہ دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی اور درجہ حرارت میں ریکارڈ اضافے کا باعث بھی ہے اس ضمن میں گزشتہ چند سالوں کے دوران عالمی سطح پر درجہ حرارت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے اس جان لیوا گیس پر قابو پانے کیلئے طویل مدتی منصوبوں پر عمل درآمد کرنے کا وقت نہیں اگر فوری طور پر ہم نے اس نئے ہائی ٹیک پرو جیکٹ پر عمل نہ کیا تو ہمارے سیارے زمین پر سنگین افتاد پڑ سکتی ہے کسی بھی حالت میں سی او ٹو کے اخراج کو روکنا ،قابو پانا اور قید کرنا ناگزیر ہو چکا ہے ورنہ یہ گیس تمام درختوں اور پودوں کو شدید نقصان پہنچائے گی اور انسان کا تمام دارو مدار درختوں اور پھول پودوں پر ہے اگر ہم گرین زمین کو نہ بچا سکے تو آنے والی نسلوں میں کئی امراض پھیل سکتے ہیں۔ڈیوائس تیار کرنے والے جرمن پروفیسر کا کہنا ہے موجودہ سی او ٹو ایک ایسے نقطہ پر پہنچ گیا ہے جس کا اخراج لازمی ہے اس سے قبل جو بھی تجربات کئے گئے وہ سب مصنوعی تھے جس سے ابھی تک کوئی مثبت نتائج برآمد نہیں ہوئے ہم اس نئے تجربے کو جلد از جلد پایہ تکمیل پہنچانا چاہتے ہیں اس نئے تجربے سے ایک ہزار سے زائد درختوں سے زیادہ موثر ایک مصنوعی درخت میں اتنا سائنسی اور ہائی ٹیک مواد ہو گا کہ کاربن فوری گرفت میں آجائے گی جرمن سائنسدان جو ایری زونا سٹیٹ میں قائم سینٹر فار نیگیٹو کاربن ایمیشن پر تحقیق کر رہے ہیں کا کہنا ہے کئی سالوں کی ریسرچ کے بعد سینتھیٹک میٹریل جو کاربن میں جذب ہوگا اور مخصوص وقت پر اخراج کرے گا تیار کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں انہوں نے اپنے تیار کردہ فارمولے کو ایک سائنسی ریسرچ کانفرنس میں پیش کیا کہ کن مراحل اور نئی تحقیق و تیکنیک کے ذریعے ایک مصنوعی درخت گیس پر قبضہ کرے گا اجلاس میں انہوں نے بتایا کہ نئے مصنوعی درخت کو ایک مخصوص زاویے میں ٹیڑھا کرنے کے بعد کئی میٹر تک زمین بوس کیا جائے گا اس درخت کی بناوٹ و ساخت ٹینس کے ریکٹ سے مشابہت رکھتی ہے،ریکٹ نما یہ مصنوعی درخت پانی ،کیلشیم اور دیگر کیمیائی میٹریل سے تیار کیے جائیں گے جو کاربن ڈائی آکسائڈ کو اپنی طرف کھینچیں گے اور جذب کرنے کے بعد نیٹریم کاربونیٹ کے ذریعے سی او
ٹو کو کنٹیکٹ کریں گے جس سے ایک نیا کیمیائی جز یا فارمولا جسے بیکنگ پاؤڈر کہا جا سکتا ہے میں ڈھلنے کے ایک گھنٹے بعد بذریعہ فلٹر اس پاؤڈر میں کاربن ڈائی آکسائڈ جذب ،گرفت یا قید ہو جائے گی،ہمارے سائنسی تصور کے مطابق روبوٹ اسے ہولڈر سے نکالنے کے بعد نیٹ ورک کے تحت ایک کنٹینر میں واپس پہنچائے گا اور ویکیوم چیمبر میں داخل ہونے پر دیگر کیمیائی عمل کو جاری رکھے گامتبا دل طور پر پانی ایک خود کار نظام میں سرکولیشن کرے گا جس سے سی او ٹو دوبارہ فری ہو جائے گی روبوٹ کاربن پر قبضہ کرنے کے بعد واپس اپنے ماڈلز میں واپس چلا جائے گا اور باقی تمام عمل میں ہوا آٹومیٹک خود کار نظام کے تحت تمام انسٹرومنٹ کو خشک کرے گی،اس قسم کی تیکنیک اگرچہ آبدوزوں اور خلائی شٹل میں طویل عرصے سے استعمال کی جا رہی ہیں کیونکہ سانس لینے کیلئے کاربن کا اخراج اشد ضروری ہوتا ہے ہمارا یہ فارمولا ائیر فلٹر کے ذریعے گیس کو دس سے پچاس فیصد تک کی کمی کی سطح پر لے آئے گا اور یہ ہی ہماری کامیابی ہے۔اس میگا پروجیکٹ کے اخراجات کو مزید کم کرنے کیلئے مختلف الیکٹرونک پمپس کا استعمال کیا جائے گا ،ماہرین کا کہنا ہے ہم زیادہ سستے اور معیاری نظام کے تحت ہی ڈیویلپ کریں گے ایک پروٹو ٹائپ کے ذریعے پمپس کو استعمال کیا جائے گا جو تمام سسٹم کے سٹرکچر کو قائم رکھے گا اور ہزاروں سٹرا ٹائپ کے پلگ منسلک کئے جائیں گے ،آسان اور سستا سسٹم تیار کرنے پر بھی اندازً ایک سو میلین ڈالر کے اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا ہے،ابھی واضح طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ اس سسٹم کو ہماری ریسرچ کے مطابق اقتصادی طور پر کتنا فائدہ ہو گالیکن امید ہے کہ ہماری سوچ کے مطابق ہی تمام انسٹرومنٹ فنکشن کریں گے۔امریکی محیقین کے ایک گروپ نے حال ہی میں فی ٹن گیس کو قید کرنے پر چھ سو سے ایک ہزار ڈالر کا اندازہ لگایا ہے،ان کا کہنا ہے اگر گیس پر قبضہ کرنے والے آلات ایک شپنگ کنٹینر کے سائز کے ہوں تو فی ٹن تیس ڈالر کی لاگت آ سکتی ہے جس سے بڑے پیمانے پر اخراجات میں واضح طور پر کمی ہو سکتی ہے،ایک پلانٹ دن میں ایک ٹن گیس پر قبضہ کرے گا تو چھتیس ارب ٹن گیس کو گرفت میں لینے کیلئے ایک سو میلین پلانٹس کی ضرورت ہو گی فارمولے کے تحت تمام ڈیوائس کی ایڈجسٹمنٹ کے بعد دنیا بھر کے ریگستانوں اور ہائی ویز کے قریب نصب کئے جائیں گے اور یوں اس پروجیکٹ کا تاریخی جیوگرافک انجینئرنگ میگا پروجیکٹ میں شمار ہو گا۔قبضہ کی گئی کاربن ڈائی آکسائڈ کو باٹلنگ سسٹم میں ڈھال کر انڈسڑی کو فروخت کیا جائے گا جو کئی طرح کی پروڈکشن میں کار آمد ہو سکتی ہے مثلاً آگ بجھانے کے سسٹم کی تیاری میں ،سافٹ ڈرنکس اور کولنگ سسٹم کے علاوہ ایندھن کے طور پر بھی استعمال کی جائے گی جسے مائع ہائڈروکاربن میں تبدیل کیا جا سکتا ہے نئی ٹیکنالوجی کے تحت اس گیس کو جلایا بھی جا سکتا ہے ۔سائنسدانوں کا اگلا بڑا قدم یہ ہے کہ مکمل طور پر گیس کو پکڑنے ،تعمیرات اور تحقیق کے انسٹیٹیوٹ کی انسٹا لیشن کی جائے تاکہ پلانٹس کی تیاری اور اسے مکمل کیا جائے اور جلد از جلد ماحولیاتی آلودگی پر قابو پایا جائے ان کا کہنا ہے ہمیں عوامی فنڈنگ کی ضرورت ہے کیونکہ اس میگا پروجیکٹ کو اکیلا سینٹر فار نیگیٹو کاربن ایمیشن مکمل نہیں کر سکتا ہم امید کرتے ہیں کہ جیسے ہی دنیا بھر سے تحقیقی فنڈنگ یا ڈونیشن کا اشارہ ملے گا اس تاریخی میگا پروجیکٹ کا آغاز کردیں گے۔


 
Shahid Shakil
About the Author: Shahid Shakil Read More Articles by Shahid Shakil: 250 Articles with 227605 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.