پرائیویٹ تعلیمی اداروں سے اقلیتوں جیسا سلوک کیوں؟

تعلیم حاصل کرنے کا حق ہرا یک کو ہے۔ امیر ہو یاغریب ، مسلم ہوغیرمسلم تعلیم کے لیے ان میں کسی قسم کے سرٹیفیکیٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ البتہ ہمارے ہاں معیار تعلیم میں فرق ضرورہے۔ یہاں پر امیر کے لیے تعلیم کچھ اور غریب کے لیے تعلیم اور۔پاکستان میں تعلیم (Education ) کی نگرانی وفاقی حکومت کی وزارت تعلیم اور صوبائی حکومتیں کرتی ہیں۔ وفاقی حکومت زیادہ تر تحقیق اور ترقی نصاب، تصدیق اور سرمایہ کاری میں مدد کرتی ہے۔ ملینیم گول اور آئین پاکستان کی شق 25-A کے مطابق ریاست 5 سے 16 سال کی عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی معیاری تعلیم فراہم کی پابند ہے۔حکومت پاکستان تعلیم کے لیے ہرممکن کوشش کررہی ہے۔

چند روز پہلے لاہور ہائی کورٹ کے ایک سنگل بنچ نے حکم دیا تھا کہ گرمیوں کی چھٹیوں میں سکول ایک ماہ سے زیادہ فیس پیشگی نہیں لے سکتے۔ فاضل عدالت عالیہ کی طرف سے عوامی مفاد میں کئے گئے اس فیصلے پر نظر ڈالیں تویہ فیصلہ نجی شعبے کے تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کے خلاف ہے۔ حکومت اور نجی شعبے کے اقدامات میں بظاہر ایک چیز قدر مشترک ہے کہ دونوں عوام کی جیبوں سے زیادہ سے زیادہ رقوم نکلوانے کے خواہاں ہیں۔ ہائی کورٹ کے سنگل بنچ نے نجی تعلیمی اداروں کو ایک ماہ سے زائد کی فیسیں بیک وقت وصول کرنے سے روک دیا ہے۔ یہ فیصلہ بھی خوش آئند ہے اور لاکھوں عوام اس فیصلے سے خوش اور مستفید ہوں گے۔ تعلیمی ادارے کئی عرصوں سے گرمیوں کی چھٹیوں کی فیسیں پیشگی وصول کرلیتے ہیں۔ جن تعلیمی اداروں کی فیس ہزاروں میں ہے ان کے طلباء کیلئے تین ماہ کی فیس بیک وقت ادا کرنا ممکن نہیں لیکن یہ سلسلہ قہر درویش برجان درویش اب تک کسی نہ کسی طرح جاری تھا نہیں بلکہ جاری ہے۔ طلباء اور والدین کی کوئی شنوائی نہ تھی جو بچے فیس ادا نہیں کر پاتے تھے ان کے نام کاٹ دیے جاتے تھے یا سکولوں سے نکال دئے جاتے تھے ۔یہی نہیں بہت سے سکولوں کی انتظامیہ اپنے ملازمین کو 31 مئی تک کنٹریکٹ پر ملازم رکھتی ہے اور انہیں چھٹیوں کے مہینوں کی تنخواہ نہیں دی جاتی۔ دوبارہ سکول کھلنے پر انہی اساتذہ کو نئے کنٹریکٹ لیٹر جاری کر دئے جاتے ہیں۔ یہ دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹنے کا طریقہ ہے۔ویسے تو سرکاری تعلیمی اداروں میں بھی تین ماہ کی فیسیں یکمشت وصول کی جاتی ہیں مگر ان کی فیسیں آٹے میں نمک کے برا برہونے کی وجہ سے ان پر کوئی اعتراض نہیں اٹھاتا۔بظاہر تو ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اب وہاں بھی یہ سلسلہ روکناچاہیے مگر کیونکہ ہائیکورٹ نے صرف پرائیویٹ اداروں کو فوکس کیا ہے اس لیے گورنمنٹ سکولوں کی طرف کسی توجہ نہیں ہوگی جبکہ وہ تو فیسیں وصول کرکے چھٹیاں بھی کرچکے ہیں۔

اگر دیکھا جائے تو ہائیکورٹ کا یہ فیصلہ بہت اچھا ہے اور بہت سے غریب لوگ جو تین ماہ کی فیس یکمشت نہیں دے سکتے تھے ان کا بوجھ کسی حدتک عدلیہ نے کم کرنے کی کوشش کی ہے مگر دوسری طرف کچھ سوالات پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی طرف سے بھی اٹھائے جارہے ہیں۔ بقول پرائیویٹ سکول مالکان کے کہ’’ تین ماہ کی فیس یکمشت وصول کرنا نجی تعلیمی اداروں کی مجبوری ہے کیونکہ اکثر تعلیمی ادارے کرائے کی عمارتوں میں ہوتے ہیں ۔جن کا ہزاروں کے حساب سے کرایہ ادا کرنا ہوتا ہے۔ سٹاف کی تنخواہیں، ٹیلی فون ، انٹرنیٹ، بجلی اور سوئی گیس کے بل وغیرہ بھی ادار ے نے ادا کرنے ہوتے ہیں۔اچھا ہوتا کہ عدلیہ اپنے فیصلہ صادر کرتے وقت یہ حکم نامہ بھی جاری کردیتی کہ کوئی پرائیویٹ تعلیمی ادارہ یوٹیلیٹی بل اور بلڈنگ کا کرایہ بھی ادا نہ کرے مگریہاں تو یہ حال ہے کہ اگر یوٹیلیٹی بل ادا کرنے میں ایک بار لیٹ ہوجائیں تو اگلے ہی دن کنکشن کاٹنے کے لیے عملہ در پر کھڑا ہوتا ہے ۔غورطلب بات یہ ہے کہ جب ان اداروں کے پاس آمدن نہیں ہوگی تو وہ اخراجات کدھر سے کریں گے؟

حکومت گورنمنٹ سکولز کو تو ہر طرح سے سپورٹ کرتی ہے مگر یہ پرائیویٹ ادارے تو اپنی مدد آپ کے تحت چلتے ہیں۔انہیں تو کوئی سرکاری سطح سے فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ رجسٹریشن کی مد میں یہ سرکار کے ریونیو میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔حالیہ آرمی سکول میں ہونے والے حادثے کے بعدحکومت نے سکیورٹی گارڈز کی تعیناتی اور سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب وغیرہ کاحکم پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو بھی کیا اور ساتھ میں یہ بھی حکم صادر کیا کہ یہ ادارے سکیورٹی کی مد میں کوئی اضافی فنڈ وصول نہ کریں اور نہ ہی سکیورٹی کے نام پر فیسوں میں اضافہ کر سکتے ہیں جبکہ دوسری طرف گورنمنٹ تعلیمی اداروں کوحکومتی فنڈ زسے ناصرف چاردیواری، خار دار وائر بلکہ سی سی کیمرے تک خودنصب کرکے دیے ۔

ہم لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کوقدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں مگرعدلیہ کو تھوڑا بہت ان پرائیویٹ اداروں کے مالکان کی طرف سوچنا چاہیے تھاکیونکہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتی بلکہ ان میں فرق ہوتا ہے اس لیے جو پرائیویٹ ادارے لوٹ مار کررہے ہیں ان کے خلاف قانون سازی کی جاتی اور باقی اداروں کو ریلیف دینا چاہیے تھا ۔ اس حقیقت سے عدلیہ بھی انکاری نہیں کرسکتی کہ تعلیمی معیار کو اونچا کرنے میں پرائیویٹ اداروں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ کسی بھی لیول کا رزلٹ دیکھ لیں نمایاں پوزیشن پرائیویٹ اداروں کے بچوں کی ہوتی ہے پھر کیوں انکے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جارہا ہے؟جبکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومت اپنے بجٹ میں گورنمنٹ سکولوں کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ سکولوں پر بھی دست شفقت رکھتے ہوئے بجٹ میں ان کاحصہ رکھتی تاکہ معیار تعلیم مزید بلند ہو۔
Aqeel Khan
About the Author: Aqeel Khan Read More Articles by Aqeel Khan: 283 Articles with 210796 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.