پردہ :عورت کی ضرورت

ایک حکا یت ہے کہ ایک بزرگ کے پاس ایک لڑکی آئی اور کہنے لگی کہ ان نوجوانوں کو سمجھائیے کہ جب لڑکیا ں گزرتی ہیں تو یہ نظریں نیچی رکھا کریں ۔ شیخ نے فرمایا : بتائیے !اگر آپ ہاتھ میں بغیر ڈھانپے گوشت لے جائیں اور کتے بھونکیں تو آپ کیا کریں گی ؟ اس نے کہا : میں کتوں کو بھگا دوں گی ۔شیخ نے کہا : پھر بھی نہ بھاگیں تو ؟ اس نے کہا: میں آخری کوشش لگا دوں گی ۔ شیخ نے کہا : اس طرح تو تم بڑی مشکل میں پڑھ جاؤ گی اس کا آسان حل یہ ہے کہ اس گوشت کو ڈھانپ کر باہر نکلو ۔ پھر یہ کتے نہیں بھونکیں گے ۔

بالکل اسی طرح جب ایک عورت بے پردہ ، نیم برہنہ ہو کر گھر سے باہر نکلے گی تو نا محرم مردوں کی نگاہوں سے نہیں بچ سکتی ۔ نامحرم مردوں کی نظروں اور ان کی ہوس سے بچنے کے لیے عورت کو خود کو ڈھانپنا ہوگا ۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا : حیا سے ہمیشہ بھلائی پیدا ہوتی ہے (صحیح بخاری حدیث :2117 ) ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا ایمان کی کچھ اوپر ستر شاخیں ہیں اور حیا ء بھی ایمان ہی کی ایک شاخ ہے ۔( صحیح مسلم : جلد اول : حدیث نمبر 155)

حضرت علی ؓ کا ارشاد ہے ۔ بے پردہ عورت اﷲ کے نزدیک کوئی عزت نہیں رکھتی۔ حضرت فاطمہ ؓ خاتون ِ جنت فرماتی ہیں ۔ عورت کی بے پردگی مرد کی بے حیائی کا ثبوت ہے ۔ اس ضمن میں حضرت امام حسن ؓ فرماتے ہیں ۔ مرد کی عزت کا اندازہ اس کی عورت کے لباس اور پردے سے لگایا جاتا ہے ۔

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا جہنم میں جانے والی دو قسمیں ایسی ہیں جو ابھی تک میں نے نہیں دیکھی ۔ ان میں سے ایک وہ لوگ جن کے پاس بیل کی دموں کی طرح کوڑے ہوں گے جن میں سے وہ لوگوں کو ( یعنی رعایا ) ماریں گے ۔دوسری قسم ان عورتوں کی جو کپڑے پہننے کے باوجود ننگی ہوتی ہیں ، مردوں کو بہکانے والیا ں ، خود بہکنے والیاں ان کے سر بختی اور اونٹوں کی کوہان کی طرح ( اونچے اونچے جوڑے لگانے کی وجہ سے ) ایک طرف جھکے ہوں گے ۔ ایسی عورتیں جنت میں نہ جائیں گی ۔ نہ جنت کی خوشبو سونگھ سکیں گی ، حالانکہ جنت کی خوشبو طویل مسافت سے آتی ہے ۔ (مسلم )
اب آئیے !ذرا اپنے معاشرے کی جانب ایک اسلامی ملک جو اسلام کی ترویج کے لیے حاصل کیا گیا ۔ یہ ارضِ وطن وہ تھی جہاں دین اسلام کے مطابق مسلمانوں کو زندگی گزارنا تھی ۔ جہاں اسلامی رسوم و رواج عام ہونا تھی ۔ وہاں آج اسلامی اور معاشرتی اقدار رو بہ زوال ہیں ۔اسلام کا نام و نشان تک اس معاشرے سے عنقا ہوتا جا رہا ہے ۔مغربیت ہمارے معاشرے میں ایسے رچ بس گئی ہے جیسے جسم میں خون۔ مغربیت اور ماڈرن ازم کا پہلا شکار ہماری خواتین ہیں ۔ کیونکہ خاتون نے ایک نسل کو پروان چڑھانا ہوتا ہے اس لیے ایک مذموم سازش کے تحت معاشرے کی خواتین کو حدف بنایا گیا اور انھیں ماڈرن ازم کے نام پر دین سے دوری کا سبق دیا گیا ۔ اس تمام کاروائی میں میڈیا نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے خصوصا پرائیویٹ چینزلز نے ۔ گورنمنٹ اور پرائیویٹ دونوں چینلز میڈیا کی آزادی کے نام پراپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے اسلام دشمن مواد کی تشہیر کر رہے ہیں ۔ا کثر و بیشتر ڈراموں میں پڑھی لکھی لڑکیاں بنا آستین کے اور بنا دوپٹہ کے دیکھائی جاتی ہیں ۔مارننگ شوز میں اینکرز یہاں تک کہ بعض چینلز میں خبریں تک پڑھنے والی خواتین مغربی لباس میں ملبوس نظر آتی ہیں ۔اس کے علاوہ فیشن شوز میں ریمپ پر واک کرتی ہوئی ماڈل خواتین چاہے وہ لباس کی نمائش کر رہی ہوں یا زیورات کی نیم برہنہ ہی نظر آئیں گی ۔بالخصوص زیورات نمائش میں برہنگی ایک نمایاں حیثیت اختیار کر چکی ہے ۔اس طرح کے لباس کی ترویج کی جا رہی ہے جو کہ مغربی معاشرے میں بھی قابلِ استعمال نہ ہوں ۔ اس طرح کے شوزنوجوانوں میں ایک ذہنی ہیجان پیداکرتے ہیں اور معاشرے میں بد عملی کا رجحان بڑھتا جارہا ہے ۔

میڈیا درحقیقت ایک ایسا ذریعہ ہے جس کے ذریعے نہ صرف کوئی بھی سوچ معاشرے میں وسیع پیمانے پر پھیلائی جا سکتی ہے بلکہ یہ تقریبا ہر ایک کی دسترس میں بھی ہے ۔ اس کے ذریعے بڑی آسانی کے ساتھ وسیع پیمانے پر لوگوں کے ذہنوں کو متاثر کیا جا سکتا ہے ۔ ہمارے ملک میں بجائے اس کے کہ میڈیا کا استعمال مثبت طریقے سے کیا جائے اس کا منفی استعمال کیا جا رہا ہے ۔ ہمارا میڈیا آزادی کے نام پر اپنی ہی ملکی اور مذہبی اقدار پر زک لگانے کی کوشش کر رہا ہے اور یہ کسی حد تک کامیاب بھی ہو چکا ہے ۔

خواتین ماڈرن ازم کی زد میں آکر اپنے جسم کو برہنگی کی حد تک بے لباسی کو ترجیح دینے لگی ہیں ۔ دوپٹہ دقیانوسیت کی نشانی بن کر رہ چکا ہے ۔بے لباسی اور کم لباسی کو تہذیب کا معیار قرار دیا جاتا ہے ۔معاشرے میں ایک عام خیال رائج پاتا جا رہا ہے کہ جو خواتین اپنے جسم کو ڈھانپتی ہیں وہ روایات کی غلام ، دقیانوسی سوچ کی حامل ہیں۔میری ایک فیشن ایبل خاتون سے اس معاملے پر بات ہوئی ان کا کہنا یہ تھا کہ شرم آنکھوں اور دل میں ہونی چاہیے لباس کا اس سے کوئی تعلق نہیں ۔ میرے لیے یہ ایک حیران کن بات تھی کہ آپ کا لباس جیسا بھی ہے لوگ آپ کو جس بھی طرح کی نظروں سے دیکھ رہے ہیں شرم آپ کے دل میں ہونا چاہیے ۔یہ خاتون ہمارے معاشرے میں موجود اس طبقہ کی نمائندہ ہے جو بین الاقوامی سطح پر ہمارے معاشرے کی نمائندگی کرتی ہیں ۔

المیہ یہ ہے کہ تعلیم کو بے پردگی کے ساتھ جو ڑ دیا گیا ہے یعنی کوئی لڑکی اگر تعلیم یافتہ ہے تولازما اسے فیشن کی دلدادہ ہو نا چاہیے ۔تعلیم کا معیار فیشن ہی کو قرار دیا جاتا ہے ۔ کوئی ایسی خاتون جو تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ مذہب اور پردے کا لحاظ رکھتی ہو ایسی لڑکی کے تعلیم یافتہ ہونے میں لوگ یقین ہی نہیں کرتے ۔ اگر کسی خاتون کو کسی ادارے میں اچھی پوسٹ چاہیے تو اسے خود کو فیشن ایبل بنانا ہوگا۔آپ کوکوئی با پردہ خاتون کسی اہم عہدے پر بہت کم فائز نظر آئے گی ۔اہم عہدہ حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلے اسے لباس میں تبدیلی لانا پڑے گی ۔

ابتدائے انسانیت میں انسان کے پاس لباس کا کوئی نہیں تھا ۔ اس وقت انسان غیر تہذہب یافتہ تھا ۔لباس کے بارے میں بے فکر تھا۔ آج انسان تہذیب یافتہ ہو کر اگر بے لباسی اور برہنگی کو تہذیب کا معیار قرار دینے لگے تو آج کے انسان اور قدیم انسان کی سوچ میں کیا فرق رہ جائے گا ؟ توجہ طلب امر یہ ہے کہ کیا انسانی سوچ کا ارتقاء اسے واپس بدتہذیبی کی جانب دھکیل رہا ہے ؟ ہماری نئی اور مغربی تہذیب کی دلدادہ نسل کو سوچے اور معاشرے میں بہتری لانے کی کوشش کرنی چاہیے ۔
 
Maemuna Sadaf
About the Author: Maemuna Sadaf Read More Articles by Maemuna Sadaf: 165 Articles with 148784 views i write what i feel .. View More