کشمیری……بے مثال نوجوان

عید ین کے موقعوں پر کشمیر ی اندرون ملک اور بیرون ملک سے اپنے خاندان کے ساتھ عید منانے اپنے آبائی علاقوں کا رُخ کرتے ہیں۔ جس طرح رمضان کے آخری عشرے میں بازار انسان سے بھر جاتے ہیں، اسی طرح کشمیر کی سٹرکیں اور گاؤں رونق افزا ہو جاتے ہیں۔ راولپنڈی، اسلام آباد، کراچی، لاہور، سعودی عرب، دوبئی اور یورپ سے کشمیری اپنے خاندان اور رشتہ داروں کے ساتھ عید کی خوشیاں منانے پہنچ جاتے ہیں۔ عید کے دوسرے دن سے لاہور سے اسلام آباد کے لوگ عید منانے اور کشمیر کے خوبصورت موسم اور مناظر سے لطف اندوز ہونے کے لیے سیاح راولاکوٹ اور باغ کا رُخ کرتے ہیں۔

حکومتی بدانتظامی کی حالت یہ ہوتی ہے کہ چھوٹے، چھوٹے شہروں میں ٹریفک جام ہو جاتی ہے۔ پٹرول پمپوں سے عید کے دوسرے دن پٹرول اور ڈیزل ناپید ہوجاتا ہے۔عید کی چھٹیوں کی وجہ سے ورکشاپس بند ہوتیں ہیں اور گاڑیاں خراب ہوجائے تو مرمت کا کوئی انتظام نہیں ہوتا، دور،دور تک ٹائر پنگچر لگانے کی کوئی دوکان نہیں ملتی۔ تنخواہ لینے کے لیے تو ہمارے ہاں سارے ہی محکمے موجود ہیں، ہر ضلعے میں کچھ ایسے محکمے بھی قائم ہیں، جن کا کوئی کام نہیں ہوتا۔ محکمہ سیاحت کا ضلعی نظام بھی ہر جگہ موجود ہوتا ہے لیکن ایسے مواقع پر وہ لوگ کہیں دکھائی نہیں دیتے۔چوک اور چوراہوں پر اطلاعتی بورڈ تک لگانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔نااہلیوں اور فرائض سے غفلت کی طویل داستان ہے لیکن میں آج میں ایک خوشگوار تجربہ اپنے قارئین سے شیئر کرنا چاہتا ہوں۔

گزشتہ سال عید الفطر کی چھٹیوں کے دوران مجھے راولاکوٹ، تراڑکھل اور باغ کا سفر کرنے کا موقع ملا۔بنجوسہ کے قریب میں گاڑی رش اور چڑہائی کی وجہ سے خراب ہوگئی، بمشکل رات بارہ بجے کسی دوست کے تعاون سے ٹوچین کرکے راولاکوٹ منتقل کی، اگلے روز راولپنڈی کے ایک دوست کے تعاون سے موٹر مکینک کو اس کے گھر سے بلا کر ضروری مرمت کروائی۔ جب گاڑی چلنے کے قابل ہوئی تو پڑول پمپ پر پہنچا تو پتہ چلا کہ پڑول ختم ہوچکا ہے اور عید کے چھٹیوں کے بعد ہی سپلائی آئے گی۔ مغرب کا وقت ہوچکا تھا اور دن کی روشنی بتدریج رات کے اندھیرے میں تبدیل ہو رہی تھی۔ گھر سے نکلے تین دن ہوچکے تھے اورآج کے دن بھی واپسی مشکل نظرآرہی تھی۔ گاڑی میں اتنا پڑول تھا کہ میں بیس تیس کلومیٹر سفر کرسکتا تھا۔ اس امید پر کہ راستے میں کوئی انتظام ہو جائے گا، میں نے شجاع آباد کے راستے باغ جانے والی سٹرک پر اﷲ کا نام لے کر سفر شروع کردیا۔ دوران سفر فون پر مختلف دوستوں سے رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ پٹرول تو باغ اور ارجہ میں بھی ناپیدہے۔ جوں جوں اندھیرا گہرا ہورہا تھا، میری پریشانی بھی بڑھ رہی تھی۔ شجاع آباد پل کراس کرکے میں جنگل کے درمیان میں بل کھاتی سٹرک پر کسی بھی جگہ پٹرول ختم ہونے کے اندیشے کے ساتھ سفر کررہا تھا۔ اچانک ایک موڑ پر مجھے کچھ نوجوان اندھیرے میں بیٹھے نظر آئے۔ ایک بار تو مجھے ڈر سا لگا کہ یہ کوئی اوباش لوگ نہ ہوں پھر یہ امید بھی تھی کہ ہمارے علاقے میں ایسے امراض کم ہیں، میں ان کے پاس رک گیا اور ان سے پوچھا کہ پٹرول ملنے کی کوئی امید ہے۔ ان بچوں نے خندہ پشانی سے میرا استقبال کیا اور قریبی بازار سے پٹرول دلوانے کا عندیہ دیا۔ ایک نے فون پر دوکاندار سے دراخواست کی کہ وہ دوکان کھولے اور ایک گاڑی کو پٹرول دے۔ اسی طرح دوسرے نوجوان نے کہا کہ میں تیس کلومیٹر دور سے اپنے موٹرسائیکل کی ٹنکی بھر کر پٹرول لایا ہوں، اگر آپ کو دوکان سے پٹرول نہ ملا تو میں اپنے موٹرسائیکل سے آپ کو پٹرول نکال دوں گا۔ میں خوشگوار حیرت سے ان کا شکریہ ادا کررہا تھا۔ ایک نوجوان میرے ساتھ اس دوکان تک گیا، کچھ انتظار کے بعد دوکاندار آیا اور مجھے مطلوبہ پٹرول فراہم کیا۔ میں اس کا شکریہ ادا کرکے باغ کی طرف چل پڑا، مقامی نوجوان میرے ساتھ ہی تھا۔ کہوو کے گھنے درختوں میں رات کی خاموشی اور قدرتی جڑی بوٹیوں کی خوشبو میں ایسے انسان دوست، ہمدرد نوجوانوں کی معیت میرے لیے زندگی کا ایک بہت ہی خوشگوار تجربہ تھا۔ اسی موڑ پر میں دوبارہ رُکا، ان نوجوانوں کا شکریہ ادا کیا اور اپنے سفر پر روانہ ہوگیا۔

ان فرشتہ صفت نوجوانوں سے جدا ہونے کا دل نہیں چاہ رہا تھا تاہم گھر پہنچنا تھا۔ اس خوشگوار تجربے نے یہ سبق دیا کہ ہمارے معاشرے میں خیر بڑے پیمانے پر موجود ہے۔ قرآن بھی یہی بتلاتا ہے کہ ہر انسان دنیا میں معصوم ہی پیدا ہوتا ہے اور معاشرہ اسے اچھائی یا برائی کے سبق پڑھاتا ہے۔ یہ نوجوان کتنے سلیم الفطرت، انسان دوست اور ہمدرد ہیں، جب عملی زندگی میں وہ بیروزگاری سے دوچار ہوگئے یا ان کا پالا کسی دھوکے باز سے پڑا تو وہ بھی اس راہ پر چلنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ خیر خواہی، ہمدردری اور انسان دوستی تو اﷲ تعالیٰ نے ہر انسان میں رکھی ہے لیکن ہمارے معاشرے کا چلن ان اوصاف کو فروغ دینے کے بجائے غیر انسانی رویے اختیار کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ آزادکشمیر کا معاشرہ ابھی تک ان برائیوں سے بہت حد تک پاک ہے۔ آپ رات کے کسی بھی پہر آزادکشمیر کے کسی بھی حصے میں بلاخوف و خطر سفر کرسکتے ہیں۔ مجھے گزشتہ تیس سالوں میں آزادکشمیر کے اکثر علاقوں میں رات کے وقت طویل سفر کرنے کا اتفاق ہوا ہے ۔ میں بجاطور پر اپنے لوگوں پر فخر کرسکتا ہوں کہ وہ تعاون کرنے والے اور مہمانوں کا احترام کرنے والے لوگ ہیں۔

ان نوجوانوں کا مجھ پر قرض تھا کہ ان کا شکریہ ادا کروں۔ یہ سارے کالج طالب علم تھے، کچھ مقامی کالجوں میں پڑھتے تھے اور کچھ راولپنڈی کے مختلف تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم تھے۔ آج مجھے ان محسنوں کے نام تو یاد نہیں اور نہ شکل صورت یاد ہے لیکن ان کا رویہ تاحیات مجھے یاد رہے گا اور میں ان لمحات کو زندگی کے خوشگوار ترین لمحات سے تعبیر کرتا ہوں۔ یہ شجاع آباد سے پل کے درمیانی علاقے کے رہائشی تھے ۔ مجھے ان نوجوانوں پر فخر ہے اور ان کے روئیے کا ہم سے کے لیے یہ پیغام ہے کہ جہاں اور جب ممکن ہو دوسرے انسانوں سے تعاون اور ہمدردی کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ میری دعاء ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان بچوں کو ترقی کی اعلیٰ منازل طے کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی زندگی خوشیوں سے بھرجائے۔
 
Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 105148 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More