جھوٹ کی عادت نہیں مجھے

اب ہم اس جامعہ میں چند ہی دن کے مہمان ہیں۔ اس کے بعد معلوم نہیں یہاں آنا نصیب ہو یا نہ ہو۔ اس کو غنیمت جانتے ہوئے ہم کچھ اعترافات کرتے چلیں۔ اس میں کلام نہیں کہ ہمارے گناہ قابل معافی نہیں مگر ہمیں امید ہے کہ ان اعترافات کے بعد ہمارے معزز اساتذہ اپنی دائمی اعلٰی ظرفی کی بناء پر ہمیں معاف فرما دیں گے اور ہمیں بھی صولت مرزا کی طرح وعدہ معاف گواہ بنا لیا جائے گا۔

ہم اعتراف کرتے ہیں کہ اپنے اساتذہ کی قابلیت کے باوجود ہم ایک لفظ نہیں سیکھ سکے۔ ہم جس طرح کالج میں آئے تھے ویسے ہی باہر جائیں گے۔ ہم سے اگر کوئی ما شیات کی تعریف ہی پوچھ لے تو ہم بالکل نہیں بتا سکتے۔ ہم نے خود کو ایسے ہی پڑھائی کی آلودگی سے بچایا جیسے کوئی ولی کامل خود کو دنیا کی لذتوں سے بچاتا ہے۔

ہمیں یہ بھی کہنا ہے کہ اس جامعہ میں ہم ایسے آتے تھے جیسے کہ لڑکا اپنی شادی سے پہلے سسرال میں جاتا ہے یعنی کہ کبھی کبھی۔ اس میں بھی شک نہیں کہ یہاں ہم آئے بھی تو کوئی مناسب سا رشتہ ڈھونڈنے تھے ورنہ پڑھائی سے تو ہمیں خدا واسےا کا بیر ہے۔تاہم بڑے مقصد کے لئے چھوٹی موٹی قربانی دینی ہی پڑتی ہے، بس یہ سوچ کر ہم نے داخلہ لے لیا۔ ہم جامعہ میں عید کے چاند کی طرح صرف امتحانات میں ہی دکھتے تھے۔ بلکہ ہمارے بے تکلف دوست تو ہمیں دیکھ کر ہی " جامعہ میں پیپر کا چاند نظر آ گیا ہے، کل پیپر ہو گا، سب اپنے اپنے مقامی وقت کے مطابق پیپر کی تیاری کریں" کا نعرہ لگا دیتے تھے۔ مگر ہمارے جانثار دوستو کا فیضان ہے کہ ہماری حاضری کتابی کیڑوں سے بھی زیادہ ہے۔ یہاں ان دوستو کا شکریہ ادا نہ کرنا زیادتی ہو گی جنھوں نے اپنی غیرحاضری لگوا کر بھی ہماری پراکسی لگوائی۔

ہم اپنے دوستوں کی خوبیاں کیا کیا بیان کریں؟ دوست وہ جو مصیبت میں کام آئے کی عملی تفسیر ہیں سب کے سب۔ پرچوں میں مدد کرنے میں سب ایک دوسرے سےسبقت حاصل کرتے ہوئے گویا کہ نقل کروانا ثواب کا کام ہو۔ ایک حل کردہ سوال دکھا رہا ہوتا تو دوسرا پرچی پھینک رہا ہوتا۔ خود ہم بھی اپنی مدد آپ پر بھی یقین رکھتے تھے۔۔کبھی فارمولا کیلکولیٹر پر لکھا ہوتا اور کبھی آستین میں سانپ پالے ہوتے۔

تاہم وقت کا کام گزرناہے اور یہ گزر گیا۔ یہ دو سال ہماری زندگی کے بہترین سالوں میں سے تھے۔ اساتذہ کیونکہ والدین کی جگہ ہوتے ہیں اور کلاس فیلوز بہن بھائیوں کے مقام پر تو آج ہم جانے سے پہلے اعتراف کر رہے ہیں۔ ہماری کلاس فیلوز تو ان میں سے اکثر واقعات سے نہ صرف واقف ہیں بلکہ کچھ کی تو چشم دید گواہ بھی ہیں۔ہمیں امید ہے کہ اساتذہ ہمیں بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاف کر دیں گے۔

ہم وعدہ کرتے ہیں کہ اس اعتراف کا کسی سے ذکر نہیں کریں گے۔ اور اپنے شاندار تعلیمی ریکارڈ کے چھوٹے قصوں سے لوگوں کو مرعوب کریں گے۔ ہمارا جی پی اے تو آپ کی مہربانی ہے مگر اب یہ ہماری شیخیوں کا ثبوت بنے گا۔اب ہم اس مادرِ علمی کویاد کیا کریں گے۔جہاں ہمیں نوکری ملی اپنے مادرِ علمی کے گن گائیں گے۔ اگر اللہ نے ہمیں کبھی استاد یعنی کہ آپ کا ناخلف جانشین بنا دیا تو ہم اپنی تمام توانائیاں آپ کے نقش قدم پر چلنے میں صرف کر دیں گے۔

ہماری نوکری کا تقاضا ہو گا کہ ہم بچوں کو وہ سب نہ کرنے دیں جو کہ ہم نے خود کیا اور ہم یہی کریں گے پورے خلوص سے۔

استاد اور شاگرد کا رشتہ' ساس بھی کبھی بہو تھی' والا معاملہ ہوتا ہے۔ساس اپنے ماضی میں جو غلطیاں کر چکی ہوتی ان سے بہو کو بچانا اس کا فرض ہوتا۔لیکن لوگ ہمیشہ ساس کی نت پر شک کرتے ہیں حالانکہ ان کی نیت نیک ہی ہوتی ہے بالکل ہماری مانند۔۔ولی را ولی می شناسد۔ چونکہ ہمیں نقل کرنے کا وسیع تجربہ ہے سو ہمارے سامنے طالب علموں کی ایک نہیں چلنی۔ہم اک بہترین ممتحن بن سکتے ہیں۔

ہمارے ارادے نہایت نیک ہیں اور تکمیل کی صورت میں ملک و ملت کی بہبود کا ذریعہ بنیں گے۔ ہماری خواہش ہے کہ ہمارے زیر نگرانی طالب علم اقبال کا شاہین بنیں جو کہ ہم بوجوہ نہیں بن سکے۔ تاہم ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے۔ اگر ہم بن جاتے تو ان بچوں کی تربیت کون کرتا؟ اب ہم سینکڑوں طالب علموں کو شاہین بنائیں گے(انسان بالکل نہیں رہنے دینا)۔ آپ کی دعائیں ہمارے ساتھ رہیں تو ہم ضرور کامیاب ہوں گے۔ اب ہم امتحانوں کی تیاری کریں۔آپ سمجھ تو گئے ہوں گے۔
ابن ریاض
About the Author: ابن ریاض Read More Articles by ابن ریاض: 35 Articles with 28975 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.