عذرا قریشی: سابق چیف لائبریرین آغا خان یونی ورسٹی سے ایک گفتگو

لائبریری سائنس کے حلقہ میں معروف اور محترک طبیعت کی مالک عذرا قریشی آغاخان یونی ورسٹی ہیلتھ سائنسز کی لائبریری میں ۱۹۸۲ء سے چیف لائبریرین تھیں۔آپ کا ریٹائرمنٹ ۲۰۰۹ء میں ہوا۔ لیکن اس کے باوجود اپنی فیلڈ میں مختلف قسم کی مصروفیات جاری رکھی ہوئی ہیں۔آپ پاکستان لائبریری اینڈ انفارمیشن سائنس جرنل اور ادب و کتب خانہ کے ایڈیٹوریل بورڈ میں شامل ہیں۔اس کے ساتھ ہی ببلیوگرافیکل ورکنگ گروپ کے تحت اسکول آف لائبریرین شپ میں درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔

انڈیا کے ایک شہر میں پیدا ہوئیں۔انکی تاریخ پیدائش ۲نومبر ہے۔ انھو ں نے اپنا بچپن تھائی لینڈ میں گزارا کیوں کہ ان کے والد ۱۹۵۴ء میں اقوام متحدہ کےایک ادارے اسکیپ سے منسلک ہو گئے اور ۱۹۸۰ء تک وہیں رہے۔ عذرا قریشی نے قرآن اور اردو کی ابتدائی تعلیم گھر میں والدہ سے حاصل کی۔ چونکہ گھر کے اطراف میں تھائی، انگریزی، چینی اور دیگر مختلف زبانیں بولی جاتی تھیں لہذا والدین نے اردو اور قرآنی تعلیم پر شروع سے ہی زور دیا تاکہ ان کی اولاد اپنی زبان اور تہذیب سے ناواقف نہ رہ جائیں۔ میٹرک کراچی بورڈ سے ۱۹۶۴ء میں اور انٹرمیڈیٹ ۱۹۶۶ء میں کیا۔بی اے ۱۹۶۸ء میں گورنمنٹ کالج برائے خواتین فیریئر روڈ سے اور ایم۔ ایل۔ ایس ۱۹۷۲ء میں کراچی یونی ورسٹی سے کیا۔

عذرا قریشی کو کتابیں،اخبارات اور رسائل پڑھنے کا شوق والدین کی طرف سے ورثہ میں ملا۔یہی وجہ ہے کہ معلومات میں اضافہ کرنے کے لئے آج بھی پابندی سے مطالعہ،ٹی وی اور نیٹ کا استعمال رہتا ہے۔ان کے ریٹائرمنٹ سے چند سال پہلے ان سے انٹرویو کے لئے ایک ملاقات کی ۔

سوال:آپ نے کیرئیر بنانے کے لئے لائبریری سائنس کا انتخاب ہی کیوں کیا؟
جواب:لائبریری سائنس میں آنے کا معاملہ حادثاتی طور پر رونما ہوا لیکن میں اس سے بہت مطمئن اور خوش ہوں۔ والدین نے چاہا کہ میں ڈاکٹر بنوں۔مجھے سوشل سائنس کے مضامین پڑھنے میں مزہ آتا تھا لہذا میری طبیعت بایولوجی کی طرف مائل نہ ہوئی چھ ماہ پڑھنے کے بعد میں نے اپنا تبادلہ آرٹس میں کروایامیرے والدین اس بات سے کافی ناخوش ہوئے۔میرے ریاضی، طبیعات اور کیمیا میں امتیازی نمبر تھے ۔میرا خیال تھا کہ میں ایک اچھی انجینئر یا ریاضی کی استاد بن سکتی ہوں۔ بہرحال جب میں بی اے کر کے کالج سے نکلی تو میرے والدین زیادہ خوش نہ ہوئے اور مجھے کسی اسکول میں پڑھانے کا مشورہ دیا۔ وہ مجھ سے زیادہ بہتر کارکردگی کی توقع رکھتے تھے۔میں بھی کچھ اور پڑھنا اور کرناچاہتی تھی۔ اکنامکس پڑھنے کی وجہ سے بنک میں کام کرنے کا ارادہ ہوا۔ کمپیوٹر کے چھوٹے چھوٹے کورسز کئے۔ بنکاک سے آئی ایم بی میں تربیت لی۔آخرکار میرے والد نے میری رہنمائی کی کہ خواتین کی لئے درس وتدریس یا صحت کا شعبہ موزوں ہوتا ہے۔اتفاق سے والد کے ایک ساتھی کی بیگم امریکن اسکول بنکاک میں لائبریری کی انچارچ تھیں۔ انھیں لائبریری میں کچھ کام کروانے کے لئے والنٹئیرز کی ضرورت تھی مجھے ان کے پاس بھیجا گیا۔ دو مہینے میں کتابیں سسٹم کے تحت ترتیب دینا تھیں ۔ پیسے بھی اچھے ملنے کا امکان تھا لہذا یہیں سے میں لائبریری سے منسلک ہوئی لائبریرین بننے کے شوق کی وجہ سے ۱۹۷۲ء میں کراچی یونی ورسٹی میں داخلہ لیا اور یوں اس لمبے سفر کا آغاز کیا۔

سوال: کس ادارے سے اور کب ملازمت کا آغاز کیا اور کن کن اداروں سے منسلک رہیں ؟
جواب: بحیثیت لائبریرین سب سے پہلے ۱۹۷۳ء میں کراچی یونی ورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف میرین بایولوجی میں کچھ ماہ کام کیا۔اسکے بعد امریکن سینٹر میں ۱۹۷۴ء سے ۱۹۷۹ تک خدمات انجام دیں۔مجھے یونی ورسٹی آف یوٹاہ سے کورس کروایا گیا۔اور میریٹوریٹس سروس ایواڈ ملا۔۱۹۷۹ء میں عبدالعزیز یونی ورسٹی جدہ میں لڑکیوں کے میڈیکل کالج کی لائبریری میں ملازمت ملی۔یہاں ۱۹۷۹ ء سے ۱۹۸۱ء تک کام کیا۔ یہ میری زندگی کا تاریخی اور بہترین تجربہ رہا۔اس اثنا میں میرے والد ریٹائر ہو کر ۱۹۸۰ء میں تھائی لینڈ سے پاکستان واپس آگئے تھے ۔۱۹۸۲ء میں پاکستان آکر مجھے آغاخان یونی ورسٹی نے اپنی میڈیکل لائبریری بنانے کے لئے میرا تقرر کرلیا۔اب یہ ہی میری منزل مقصود ہے۔

سوال: آپ نے اپنی لائبریری کی ترقی میں کیا کردار ادا کیا؟
جواب: میں نے ان بیس سالوں میں آغاخان یونی ورسٹی میں جو کیا وہ تو آپ کے سامنے ہے لیکن میں یہاں اپنے بزرگ ساتھی معین الدین خاں کا ذکر کروں گی جن کے ساتھ میں نے مئی ۱۹۸۲ء سے اکتوبر ۱۹۸۲ء تک کام کیا۔ اسی دوران مجھے اندازہ ہوا کہ یہ زندگی کا اہم موقع ہے جو چند خوش نصیبوں کو ملتا ہے اور یہاں ان کے ساتھ کام کر کے مجھے بہت خوشی اور اطمینان حاصل ہوا۔ معین صاحب ایک غیر معمولی لائبریرین ہیں۔آج آغاخان یونی ورسٹی نہ صرف پاکستان بلکہ گلف کے علاقے میں بھی اپنا فعال کردار ادا کر رہی ہے۔اور بے شمار پایہ کے لائبریرین امریکہ اور انگلینڈ میں بھی ہمیں اچھی طرح جانتے ہیں۔

مجھے اپنی لائبریری کے ساتھ ساتھ اپنے علم میں اضافہ کرنے اور تربیت حاصل کرنے کے مواقع ملتے رہے۔۱۹۸۳ء میں مجھے کیس ویسٹرن یونی ورسٹی بھیجا گیا۔۱۹۸۵ء میں جاپان میں پانچویں انٹرنیشنل میڈیکل لائبریرین کانفرنس میں اپنا پیپر پیش کرنے کا موقع ملا۔۱۹۸۹ء میں مجھے یوسیڈ ایڈکا اسکالرشپ ملا لہذا میں نے دوسری ماسٹرز کی ڈگری کینٹ یونی ورسٹی اوہایو سے ۱۹۹۰ ءمیں حاصل کی۔

سوال: آپ وہ کون سے اقدامات کریں گی جس کی وجہ سے قارئین زیادہ سے زیادہ لائبریری مواد کو استعمال کرسکیں؟
جواب: میری لائبریری تو بہت زیادہ استعمال ہوتی ہے۔جب قاری کو خندہ پیشانی سے اچھی خدمات دی جائیں ۔لائبریری اسٹاف کارویہ اچھا ہواور پڑھنے کے لئے آرام دہ اور خوشگوار ماحول فراہم کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ لوگ لائبریری کی طرف راغب نہ ہوں۔جب آپ ہر وقت اپنے قاری کی مدد کے لئے مستعد اور کوشاں رہیں گے تو اللہ تعالیٰ خود بخود وہ وسائل فراہم کردیتا ہے جو لائبریری اور قاری کے لئے ضروری ہیں۔ لائبریری اسکول اور ہسپتال کی طرح بنیادی ضرورت ہے۔

سوال: اس ادارے کی ملازمت کے علاوہ لائبریری سائنس کے میدان میں کیا آپ کی دوسری مصروفیات بھی ہیں؟
جواب: جی ہاں میری بہت سی دلچسپیاں اور مصروفیات اس کے علاوہ بھی ہیں۔ میں اپنے ساتھیوں کو اپنے اچھے تجربات سےمستفید کرنا چاہتی ہوں۔ لہذا باہر سے جو سیکھ کر آتی ہوں اسے ان سب تک پہنچانا چاہتی ہوں۔تاکہ کم ازکم میڈیکل اداروں کی حد تک تو اچھے کتب خانوں کا جال بچھ جائے۔ ہم نے ایک گروپ میڈیکل لائبریرینز کا بنایا ہے جس کا مقصد باہم ایک دوسرے کی مدد کرنا اور اپنے اپنے اداروں میں کتب خانوں کی بہتری اور مسلسل اپنی تعلیم وتر بیت ہے۔ اس کو ہم نے میڈیکل لائبریری ایسوسی ایشن پاکستان کا نام دیا ہے۔میں اس کی صدر ہوں۔

سوال: لائبریری کو جدید ٹیکنالوجی کے مطابق فروغ دینے کے لئے آپ کیا مشورہ دینا چاہیں گی؟
جواب: جدید ٹیکنالوجی کو فروغ دیئے بغیر اب گزارہ نہیں یا تو آپ وقت کے ساتھ چلیں یا پھر لا علم بیٹھے رہیں۔ میرے لئے بیکاری اور لاعلمی دونوں ہی بہت تکلیف دہ ہیں۔کمپیوٹر ہر شعبہ کی کارکردگی میں حیرت انگیز تبدیلی لائے ہیں۔ اور لائبریری میں تو اس کے استعمال نے چار چاند لگا دیئے ہیں۔ کام کو آسان اور تیز کر دیا ہے۔جس سے لائبریری کی اہمیت اجاگر ہوئی ہے اس وجہ سے قاری نے اس طرف مدد کے لئے رجوع کیا ہے۔اب یہ ہم پر ہے کہ ہم اس موقع سے کتنا فائدہ پہنچاتے ہیں اور بہترین کارکردگی اور نمایاں خدمات انجام دے کر کتنی اپنی عظمت کرواتے ہیں۔

سوال: مجموعی طور پر آپ پاکستان میں کتب خانوں کے معیار سے کس حد تک مطمئن ہیں؟
جواب: قطعی مطمئن نہیں۔ پاکستان میں کتب خانے برائے نام ہیں لیکن یہ حالات بہت حد تک خود ساختہ ہیں۔بقول ہمارے صدر پرویز مشرف کےاگر ہم اپنا قبلہ درست کرلیں اور لگن، ایمانداری اور محنت سے کام لیں تو پانچ سال کے اندر یقینی طور پر ہم ہر شعبہ میں ترقی کر سکتے ہیں۔ کتب خانے معاشرے اور تعلیم کی ترقی کا حصہ ہیں ۔جب معاشرے کی ترقی ہوگی ، تعلیم عام ہوگی تو کتب خانے اور انکی کارکردگی بھی معیاری ہوتی جائے گی۔ لوگ کپڑوں، فیشن اور دوسری چیزوں سے زیادہ علم اور کتابوں کو ترجیح دینے لگیں گے۔

عذرا قریشی آجکل جو مضامین تحریر کر رہی ہیں ان میں زیادہ تر سفر نامے ہیں ۔ان کے مضامین رسائل میں شائع ہو رہے ہیں ۔ان کا اردہ ہے کہ ان سفر ناموں کو یکجا کرکے ایک کتاب کی شکل دی جائے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انکی خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچائے، آمین۔