وقت دو دھاری تلوار ہے

عزیز گرامی! آپ نے دنیا میں بہت سی چیزوں کو چھلانگ لگا تے،بھاگتے اورتیزی کے ساتھ دوڑتے دیکھا ہو گا غور کیجئے تو ان میں سے ہر چیز کبھی تو اپنی چال اور رفتار میں ’’ برق،، کی طرح سریع الحرکت ہو جاتی ہے تو کبھی دھیما پن اس کا وظیفہ اور خوراک ہو جاتی ہے اور کبھی یہ بھی دیکھا ہو گا کہ اس کی پہئے جام ہو جاتے ہیں اور وہ بالکل جامد و معطل ہو کر رہ جاتی ہے اور اسکا ٹھکانہ کباڑ کھانا بن جاتا ہے۔ لیکن وقت ایک ایسا گھوڑا اور ایسی سواری ہے جو سمندر کی لہروں کی طرح اپنی برق رفتاری کے ساتھ مسلسل گاتا قدم بڑھاتا اور بل کھاتا چلا جاتا ہے، اس میں نہ تو کوئی سستی ہے نہ کاہلی ہے اور نہ تخلف،وہ بھاگ رہاہے اور پیہم آگے کی طرف چھلانگ رہاہے نہ وہ رکنے کا ہنر جانتا ہے اور نہ ہی پیچھے مڑنے کا فن۔

اس کے نزدیک اپنے پرائے میں فرق نہیں،ہاں صرف اسے ایک ہی عمل آتا ہے اور وہ یہ کہ اگر کوئی اسے صحیح استعمال میں لے آئے تو کھوٹے تانبے کو کندن بنا دیتا ہے وہ فاضل خون کو مشک بنا دیتا ہے ،مشتِ خاک کو سونے سے زیادہ پُر کشش اور قیمتی بنا دیتا ہے۔ماضی کے ایام گواہ ہیں کہ وقت نے اپنے چاہنے والوں اپنے قدردانوں اور ٹھیک طور پر برتنے والوں کو مٹی سے سونا بنا دیااور انکو ذلت کی پستی سے نکال کر ثریہ کی بلندی پر پہو نچا دیا ہے،اور لا پرواہی کرنے والوں کو یک لخت آسمان سے زمین پر ایسا پچھاڑاکہ انکے نشاں بھی صفحۂ ہستی سے مَحو ہو گئیں۔اسی لئے ہمارے اکابرین وقت کے ایک ایک لمحہ کو ایک ایک گھڑی کو تول تول کر اور کار آمد جگہوں پرخرچ کیا کرتے تھے اور با ضابطہ نظام الاوقات بنا کر رکھ لیتے تھے اوراس طرح وہ بڑے سے معرکہ چٹکیوں میں سر کر لیتے تھے۔

علامہ ابنِ جوزی(جو اسلامی دنیا کی ایک بڑی ہستی اور ایک بڑے عالم گزے ہیں)نے ابولوفاء ابن عقیل کے بارے میں لکھا ہے کہ اﷲ کے اس ایک بندے نے اتنے فنون کے بارے میں کتابیں لکھی ہیں ان کی ایک کتاب ۸۰۰جلدوں پر مشتمل ہے اور کہا جاتاہے کہ دنیا کی لکھی جانے والی کتابوں میں سب سے بڑی کتاب ہے،خود علامہ ابنُ الجوزی نے اسلامی علوم وفنون میں سے ہر علم وفن پر کوئی نہ کوئی تصنیف چھوڑی ۔مشہور ہے کہ ان کے آخری غسل کے واسطے پانی کے لئے وہ بُرادہ کافی ہو گیا تھا جو صرف احادیث لکھتے ہوئے قلم کے تراشنے میں جمع ہو گیاتھا۔

آج ان کے تصورسے ہی ہمارے ہوش اڑ جاتے ہیں اور ناطقہ بند ہو جاتاہے اور کبھی یہ بھی وہم پیدا ہوجاتا ہے کہ شاید یہ سب افواہ اور بے بنیاد باتیں ہیں۔لیکن سچ پوچھئے وقت کی مسلسل پابندی اور اس کے حق بحانب برتاؤ سے ہی یہ فتوحات حاصل ہوئی ہیں،آپ سوچئے کہ حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے ہزار کے آس پاس کتابیں کیسے تصنیف کر ڈالیں یقینا ان کی نگاہوں میں وقت کے بے رحمی اور سنگینی رہی ہوگی کہ وہ کسی کی رعایت نہیں کرتا البتہ اپنی رعایت کرنے والوں کو عروجِ کمال پر پہو نچا دیتا ہے۔

آپ کا امتحان ہونے والاہے آپ نے سستی کی ہے یامحنت،آپ نے محض ٹائم پاس کیاہے یا کچھ سیکھ بھی ہے آپ نے دامن بھراہے یا جو تھا وہ بھی پھینک دیاہے آپ کا امتحان آ کا کچا چٹھا کھول کر رکھ دے گا۔وقت کی بے رحمی کو نظر انداز کر تے ہو ئے آپ نے کیا کیا گل کھلایا سب راز فاش ہو جائیگا اور اس وقت آپ کے پچتا نے کے علاوہ اور کوئی کام نہ ہوگا، کیونکہ ’’جب چڑیا چک گئی کھیت تب پچتاچ کاہیکا،،۔اسلئے اپنے وقت کا صحیح استعمال کیجئے اور روشن و تابناک مستقبل کا سنگِ بنیاد رکھئے۔ان شاء اﷲ آپ اپنے وقت کے وہ سب کچھ بن کر ابھریں گے جن کی امت کو اور اس دنیا کو ضرورت رہے گی۔


یہ ایک بہت ہی اہم مسئلہ جس پر اب سوچنے کا کام چھوڑ کر اس پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ چونکہ یہ ایک ’’دودھاری تلوار ہے،، جس سے بچنا محال ہے۔
تو کیا آپ اس کے لئے تیار ہیں؟؟؟۔
Mehtab Alam
About the Author: Mehtab Alam Read More Articles by Mehtab Alam: 5 Articles with 4588 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.