خیبرپختونخواہ کے بلدیاتی انتخابات

پروفیسرمظہر۔۔۔۔۔سرگوشیاں
یوں توبوستانِ سیاست کے سبھی ’’باغباں‘‘ہمہ وقت سہانے سپنوں کی دوکانداری ہی چمکاتے رہتے ہیں لیکن ایک باغباں نے توخوابوں کا ایسا الف لیلوی گلستاں سجایاکہ قعرِ مذلت میں گھری قوم نے سمجھا، یہ تووہی مسیحاہے جوکوہِ الم کی تسخیرکے لیے آسمانوں سے اتراہے ۔تب دامانِ الفت وا ہوئے اوروطنِ عزیز کی فضائیں لبیک لبیک کی صداؤں سے گونج اُٹھیں۔ لکھاریوں کے قلم متحرک ہوئے اور مدح سرائی کے سارے ریکارڈٹوٹ گئے۔ اُس ’’مسیحا‘‘کی باتوں پریقین کایہ عالم کہ ایک مدح سرانے تویہاں تک لکھ دیا’’نوازشریف اورزرداری توکیاقومیں جب عزم اورولولے کے ساتھ اُٹھیں تونمرود وفرعون بھی ہارگئے ۔روااور نارواکی تفریق سے بے نیازمحترم لکھاری نے محترم میاں نوازشریف اورمحترم آصف زرداری کااستعارہ باندھابھی توکِس سے ۔۔۔۔ نمرود وفرعون سے۔ آجکل وہی لکھاری ایک نیوزچینل پربیٹھ کرقوم کو’’درسِ بیداری‘‘ دیتے ہوئے متواتر فرماتے رہتے ہیں کہ کپتان کوتو سیاست کی الف بے بھی نہیں آتی (پیپلزپارٹی کے پچھلے دَورِحکومت میں یہی لکھاری محترم آصف زرداری کے بارے میں کہاکرتے تھے کہ جوشخص ’’کونسلر‘‘بننے کی اہلیت نہیں رکھتا ، اُسے ہم نے صدرِ مملکت بنادیا۔ محترم لکھاری کے ’’کالمی درویش ‘‘زرداری حکومت کے خاتمے اورمِڈ ٹرم الیکشن کی تاریخ پہ تاریخ دیتے رہے لیکن پیپلز پارٹی نے اپنی مدت پوری کی اورآصف زرداری صاحب نے بھی)۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کپتان صاحب اب بھی ملک وقوم کااثاثہ ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ وہ انتھک ہیں اورچمن زارِ دہرمیں وہی کامران ٹھہرتاہے جوانتھک اورراہِ عمل پہ گامزن ہو۔ خالقِ کائینات کافرمان ہے ’’اﷲ تعالیٰ کسی قوم کے حال کونہیں بدلتاجب تک وہ خوداپنے آپ کونہیں بدلتی‘‘۔ کپتان صاحب کی انتھک سعی کسی شک وشبے سے بالاتر لیکن یہ تبھی بارآور ہوسکتی ہے جب وہ اپنالہجہ درست اوراندازِ سخن بدل لیں،ضِد، ہٹ دھرمی اورنرگسیت کو جھٹک دیں لیکن عریاں حقیقت یہی ہے کہ خاں صاحب کی فطرت جس سانچے میں ڈھل چکی ہے ، اُس کومدِنظر رکھتے ہوئے وثوق سے کہاجا سکتاہے کہ ایساہونا ممکن نہیں۔ کپتان صاحب کی ساری تگ ودَوکا محورومرکز اقتدارکی سب سے اونچی ’’مسند‘‘ہے اور یہ اسی ہوسِ اقتدارکا شاخسانہ ہے کہ خاں صاحب کے دیوانوں ،پروانوں ،مستانوں کے خوابوں کا گلستاں اُجڑ کے رہ گیااور اب حالت یہ کہ
بَر مزارِ ما غریباں نَے چراغے نَے گُلے
نے پَرِ پروانہ سوزد نے سراید بلبلے

بتقاضۂ عقل ،خاں صاحب کوچاہیے تویہ تھاکہ جوکچھ ملااُسی پرقناعت کرتے ہوئے اپنی تمامتر توانائیاں خیبرپختونخوا کوماڈل صوبہ بنانے میں صرف کردیتے لیکن اُنہوں نے احتجاج کاراستہ اپنایاجو اُن کے لیے بہترثابت ہوا نہ تحریکِ انصاف کے لیے اورنہ ہی ملک وقوم کے لیے ۔آج اُن کی حکومت ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہے اورپارٹی میں واضح انتشار ۔30 مئی کوہونے والے بلدیاتی انتخابات نے جونہاں تھاوہ بھی عیاں کر دیا۔ خیبرپختونخواکے بلدیاتی انتخابات کواِس لحاظ سے خونی کہاجا سکتاہے کہ یہ اب تک سترہ افرادکی جانیں لے چکے ہیں۔ 19 اضلاع میں تشددکے 100 سے زائد واقعات ہوئے ،پورے صوبے میں ہر جگہ انارکی ہی انارکی دکھائی دی اورشایدہی کوئی پولنگ سٹیشن ایسابچا ہوجہاں پُرتشدد واقعات نہ ہوئے ہوں ۔اکثر پولنگ سٹیشنوں پر وقفے وقفے سے پولنگ رکتی رہی ،چارسدہ میں اُمیدوار قتل ہوا ،ڈیرہ اسماعیل خاں میں بیلٹ بکس جلائے گئے ،زنخے عورتیں بن کرووٹ ڈالتے رہے ،پولیس ٹھپے لگاتی رہی اورووٹر سرِعام مہریں لگاکر ووٹ کاتقدس پامال کرتے رہے ۔ تحریکِ انصاف کے ایک وزیرباتدبیر توبیلٹ بکس ہی اٹھاکر بھاگ گئے ،ہتھکڑی تواُس وزیرکو لگنی چاہیے تھی لیکن لگ گئی انتہائی دیانتدار اور مرنجاں مرنج میاں افتخارحسین کو۔یہ سب کچھ الیکٹرانک میڈیاکے کیمروں نے محفوظ کرلیا۔ تحریکِ انصاف کی اتحادی جماعت اسلامی سمیت سبھی سیاسی جماعتوں نے اِن انتخابات کوبدترین دھاندلی کاشاہکار قراردیا۔ آصف زرداری صاحب نے کہا’’قوم نے دھاندلی دیکھ لی ،عمران خاں کے خلاف ایکشن لیاجائے ‘‘۔ الطاف حسین نے کہا’’الیکشن کمیشن انتخابات کالعدم قراردے کرنئے انتخاب کروائے‘‘۔ نوازلیگ نے کہا’’ نئے پاکستان کاخواب دکھانے والے کے پی کے میں عملی طورپر ناکام رہے اورملکی تاریخ کی بدترین دھاندلی دیکھنے میں آئی‘‘۔ فیئراینڈ فری الیکشن نیٹ ورک (فافن) کی رپورٹ ہے کہ ’’بلدیاتی انتخابات میں 26 فیصد دھاندلی ہوئی ۔ عام انتخابات کی نسبت زیادہ لوگ ووٹ ڈالنے نکلے لیکن بے قاعدگیوں ،ناقص انتظامات ،پرتشدد واقعات اوردھاندلی کی وجہ سے ٹَرن آؤٹ بہت کم رہا ۔ لیکن خیبرپختونخوا کے وزیرِاعلیٰ پرویزخٹک نے کہاکہ بلدیاتی الیکشن میں حلقہ چھوٹاہوتا ہے اِس لیے جس کازور چلتاہے ،وہ کرگزرتا ہے ۔گویا پرویزخٹک صاحب یہ کہناچاہتے ہیں کہ محتشم ہی کامیاب وکامران ،باقی سب بیکار۔

خیبرپختونخواکے بلدیاتی انتخابات اِس لحاظ سے منفردتھے کہ یہ ’’نئے خیبرپختونخوا‘‘ کے بلندبانگ دعووں کی گونج میں کروائے جارہے تھے لیکن 30 مئی کوسارا پول کھُل گیااور لوگ یہ کہنے پرمجبور ہوگئے کہ
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دِل کا
جو چیرا تو اِک قطرۂ خون نکلا

دھاندلیوں اور الیکشن کمیشن کے مقررکردہ ضابطۂ اخلاق کی سنگین خلاف ورزیوں کے باوجودبھی محترم عمران خاں پریس کانفرنس میں اپنی حکومت کی ستائش میں مصروف رہے۔ وہ پُرجوش اندازمیں یہ کہہ رہے تھے کہ بلدیاتی انتخابات اُن کی حکومت کابہت بڑاکارنامہ ہے (حالانکہ یہ بلدیاتی انتخابات سپریم کورٹ کے حکم پرکروائے گئے) ۔ اُنہوں نے یہ بھی فرمایاکہ مسلم لیگ کی حکومت نے چھ ،چھ باریاں لینے کے باوجود ایک مرتبہ بھی بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے ۔حقیقت یہ ہے کہ نوازلیگ نے اپنی حکومت کے اِن ادوارمیں تین مرتبہ بلدیاتی انتخابات کروائے لیکن یہ نہ توخونی تھے اورنہ ہی دھاندلی زدہ۔ اگرانتخاب اسی کانام ہے جس کانظارہ قوم نے خیبرپختونخوا میں کیا توایسے انتخاب سے مفرہی بہتر۔ محترم خاں صاحب اوروزیرِاعلیٰ پرویزخٹک صاحب یک زبان ہیں کہ جس کوکوئی اعتراض ہے وہ الیکشن کمیشن میں جائے۔ حیرت ہے کہ گزشتہ دو سال سے غیرجانبدار تجزیہ نگاروں کے حلق یہی کہتے کہتے خشک ہوگئے کہ اعتراضات کافورم صرف الیکشن کمیشن ہے لیکن پوری تحریکِ انصاف اِس پرکان دھرنے کوتیار نہیں تھی لیکن آج وہ خودبھی یہی کہہ رہے ہیں۔ کیااُس وقت تحریکِ انصاف غلط تھی یااب؟۔
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 864 Articles with 557734 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More