معلوم نہ تھا کہ وہ بے چارے تو محبت کے پیاسے تھے!

برسوں پہلے جب میں چھوٹا بچہ تھا، ہمارے گھر کے قریب ایک کراۓ کا مکان تھا. اس مکان کا مالک شہر سے باہر مقیم تھا. وہ مکان تھوڑا عرصہ آباد ہوتا اور عرصہ دراز تک خالی رہتا تھا کیونکہ اس مکان میں بہت کیڑے مکوڑے بستے تھے جن کی وجہ سے لوگ زیادہ عرصہ قیام نہیں کرتے تھے. مالک مکان سے جب شکایت کی جاتی تو وہ pesticides اور دیگر زہریلی ادویات کے استعمال کا مشورہ دے دیتا تھا. لوگ ہر بار ان مہنگی ترین ادویات کے استعمال سے بےشمار کیڑے مار تو دیتے تھے مگر کچھ مہینے بعد وہ کیڑے پھر اتنی ہی تعداد میں نظر آنے لگتے تھے. نجانے کتنے لوگ ان ادویات کے کتنے کنٹینر ان کیڑوں کے خلاف استعمال کر چکے تھے مگر کیڑوں نے اب تک ستانا ختم نہ کیا تھا.

برسوں گزر گۓ، وہ مکان خالی رہا اور اس میں کیڑے بستے رہے. پھر ایک بزرگ نے اس گھر کو کراۓ پر لے لیا. مقامی لوگوں نے اسے کیڑوں کے بارے میں آگاہ کیا اور کیڑےمار ادویات کا سارا قصہ بھی سنا ڈالا. مگر اس کے باوجود بزرگ مکان سے راضی ہوگیا اور مسکرا کر کہنے لگا، "کوئ بات نہیں، میں کیڑوں سے دوستی کر لونگا." لوگوں نے اسے مذاق سمجھا اور اہمیت دیۓ بغیر ہنس کر چلے گۓ.

ایک دو دن بعد بزرگ دس کلو گندم اپنی سائیکل پر لاد کر گھر لایا. کچھ لوگوں نے وجہ پوچھی تو بزرگ نے کہا "میں نے اس دن بتایا تو تھا کہ مجھے یہاں سکون سے رہنا ہے تو کیڑوں سے دوستی کرنا پڑے گی." لوگ یہ سن کر حیران ہوۓ مگر اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتے، بزرگ نے انھیں اندر بلا لیا تاکہ وہ اس عمل کی وضاحت خود اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں.

اس بزرگ نے برکت کے لۓ گندم پر قرآن کی کچھ آیات پڑھیں اور کیڑوں کے تمام ٹھکانوں کے اوپر گندم کی کثیر مقدار رکھ دی اور کچھ گندم سوراخوں کے اندر ڈال دی حتی کہ دس کلو گندم مکمل طور پر کیڑوں کے ٹھکانوں میں بانٹ دی.

وہ بزرگ اس مکان میں تقریبا سات سال تک مقیم رہا اور اس کے بعد اس کا انتقال ہوگیا. اس سات سال کے دورانیۓ میں اس بزرگ نے دوبارہ وہ کیڑے باہر پھرتے نہ دیکھے جبکہ علاقے کے لوگ اس واقعے کے چشم دید گواہ بھی رہے. بزرگ کی وفات کے بعد بھی وہاں کسی کیڑے کا نام و نشان نہ تھا جیسے ان کیڑوں نے یہ تہیہ کر لیا ہو کہ وہ دوبارہ اس گھر میں بسنے والے انسانوں کو کبھی نہیں ستائیں گے.

یہ دنیا میں اللہ تعالی کی قائم کردہ فطرت کی عکاسی کرنے والا وہ واقع ہے جو میرے گھر کے بالکل قریب ہی پیش آیا. کتنے پیسے ان ادویات پر لوگ خرچ کر چکے تھے جن کا مقصد کیڑوں کا خاتمہ کرنا تھا. قدرت سے ہمیشہ تھپڑ ہی کھانے پڑے! کیا کمال رکھا تھا اللہ نے اس بزرگ کے دل میں! کہ کچھ رقم خرچ کر کے اس نے ان کیڑوں کے رزق کا ہی انتظام کر دیا اور اس کی برکت سے انھیں باہر نکلنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئ! ہم دیکھتے ہیں کہ اس دنیا میں انسان اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا عادی ہے. مگر حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا کی ہر مخلوق محبت کی بھوکی ہے. انہیں پیار دو، محبت دو، ان کے ساتھ احسان کرو ان سے بھی اس کا سلہ پاؤ. اس دنیا کو جنت بنا دینے کا اصول ہم جانتے ہیں. پھر نجانے کیوں ہم مرتے اور مارتے ہیں. معلوم نہ تھا کہ جگہ جگہ وہ ہمیں کیوں ستاتے تھے؟ معلوم نہ تھا کہ وہ بے چارے تو محبت کے پیاسے تھے!
M. Irfan
About the Author: M. Irfan Read More Articles by M. Irfan: 17 Articles with 25673 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.