چاچا پنچو

چاچا پنچو ، جگت چاچا تھے، کبیرشاہ بابا کے کچے مزار اور محلے کے واحد میونسپلٹی کے نلکے کے پاس ان کی کھاٹ بچھی رہتی، شام کو سارے بچے اور کتے کے تین چار پلے، چاچا پنچو کے گرد گھیرا ڈال کر بیٹھتے، محلے میں سبیل لگانی ہو، تعزیئے کی تیاری ہو، قوالی کی محفل ہو یا شاہ صاحب کے عرس کی تیاری سب کچھ چاچا پنچو کی زیر صدارت اجلاس میں طے ہوتا،چاچا پنچو کون تھے، کہاں سے آئے تھے، ان کا خاندان کون تھا، یہ بہت کم لوگوں کو معلوم تھا، ہم نے تو انھیں سدا محلے میں اس کھٹیا پر ہی پڑے دیکھا، اچھے زمانے تھے، لوگ گھروں سے کھانا بھیج دیتے، چائے وہ ایک کیتیلی پر اینٹوں کے چولہے پر پکا لیتے، بچوں سے چاچا کی یاری تھی، یوں بھی مغرب کے بعد کوئی اور مصروفیت تو ہوتی نہیں تھی، اس لئے محلے کے بچے ادھر ہی ڈیرہ ڈالے رہتے۔ ایک دن صبح اٹھے، تو دیکھا کہ چاچا پنچو کھلی آنکھوں خاموشی سے سور رہے ہیں ، اور ان کی کھٹیا کے پاس بیٹھے کتے کے پلے منہ اٹھا اٹھا کر رو رہے ہیں۔ چاچا پنچو چلے گئے، ان کے ساتھ ہی محلے سے ان کی کھٹیا اور کتے کے پلے بھی غائب ہوگئے۔

پولاجی
فربا جسم پائجاما،آدھی آستین کا بنیان اور سر پر سفید ٹوپی، تھوڈی پر چند سفید بال ،پھولے گال اور اندر دھنسی ہوئی آنکھیں، یہ تھے پولا جی، دکان میں چند شیشے کی برنیوں میں کھٹی میٹھی گولیاں، تل کے لڈو، کیھیل کے لڈو، میٹھے چنے، پاپڑ، اور اس جیسی چند اور چیزیں لئے پولا جی صبح سویرے ہی دکان کھول لیتے، اسکول آتے اور جاتے پولا جی سے میٹھی گولیاں ، اور ایک دو پیشے کی چیزخریدنے کا معمول تھا،پولا جی بچوں سے محبت سے پیش آتے، نائی کے پیڑ سے آگے اب بھی ان کی دکان یاد آتی ہے۔

مائی آچھیں
آنکھیں تو جانے کب سے چھن گئی تھیں، مائی آچھیں مسجد کے زیر سایہ کھڑی بیٹھی صدا لگاتی رہتی، ایک کٹورا، ایک ڈنڈا لیئے سر پر دوپٹہ، میلے کپڑے، اسکول سے آتے اور جاتے ہم مائی کو چھیڑتے، اس سے گالیاں سنتے، ایک دن چند لڑکوں نے گتے کے ڈبے میں گائے کاتازہ گرم گرم گوبر بھر کر مائی کے سامنے رکھ دیا اور کہا حلوہ لائے ہیں، مائی نے گوبر میں انگلیاں ڈالیں،ناک میں گوبر کی بو محسوس ہوئی تو گوبر کا گتہ پھینک خوب گالیاں دیں۔پھر پھوٹ پھوٹ رونے لگی، مائی کی یہ تصویر اب تک آنکھوں میں گھومتی ہے، لیکن اس دن کے بعد سے مائی تو تنگ کرنا چھوڑ دیا۔

ہیڈ ماسٹر سید فیاض علی
اونچا قد،سفید پائجاما، شیروانی،اور سر پر رنگین صافہ سرمہ بھری آنکھیں،سفید نورانی ڈاڑھی، یہ تھے ہمارے پرائمری اسکول رئیس غلام محمد بھرگڑی اسکول سرے گھاٹ کے ہیڈ ماسٹرسید فیاض علی صبح اسمبلی میں تلاوت کلام پاک ہوتی، قومی ترانہ پاک سرزمیں شاد باد چیخ چیخ کر پڑھتے، کلاس میں جاتے ہوئے ایک دوسرے کو دھکے دیتے،لیکن ماسٹر فیاض علی چھڑی سے نہ مارتے، دینیات کا پریڈ ہوتا، اور ماسٹر فیاض علی کی کلاس تو وہ پڑھاتے پڑھاتے، قیامت اور حساب کتاب کا ذکر چھیڑ دیتے، پھر فرشتوں کی پوچھ گھچ اور حساب کتاب اور عذاب کا وہ نقشہ کھینچتے کہ خود بھی روتے، کلاس کے سارے بچے بھی روتے، ان کی داڑھی خشیت الہی سے آنسو سے تر ہوجاتی۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 386214 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More