حاصل زیست

رات بہت ہو چکی تھی۔ڈاکٹر آفاق اپنے بنگلے کی کھڑکی میں کھڑا سگریٹ کے کش لے رہا تھا۔ نہ جانے اتنی رات گئے وہ کھڑکی میں کھڑا کیا سوچ رہا تھا۔ اچانک دور کھیتوں میں ایک لالٹین ٹمٹماتی ہوئی نظر آئی۔ لالٹین کی روشنی میں چلنَے والے کی صرف ٹانگیں نظر آ رہی تھیں جو کسی عورت کی معلوم ہو رہی تھیں۔
آفاق سوچنے لگا کہ رات کے دو بجے یہ عورت کتنی بہادری سے چلی آرہی ہے۔پھر ڈاکٹر ہونے کے باوجود ایک احمقانہ سوال اس کے دل میں آیا۔ اگر وہ کوئی چڑیل ہوئی تو۔۔۔۔اس سے آگے وہ کچھ نہ سوچ سکا۔

ابھی وہ پلٹنے ہی والا تھا کہ عورت نے لالٹیں اوپر کی۔ شائد وہ اپنی منزل کو دیکھ رہی تھی۔اس روشنی میں آفاق نے دیکھا تو اس کی نظریں اس کے چہرے ہر جم گئیں۔

وہ ایک خوبصورت اور پریشان حال لڑکی تھی۔ وہ اس کی پریشانی کو حیرت سے دیکھنے لگا کہ آخر اتنی رات گئے کیوں آرہی ہے۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس نےبنگلے کے گیٹ پر پہنچ کر چوکیدار کو آواز دی۔

چوکیدار اس کی آواز پر چونک پڑا۔ شائد وہ سو رہا تھا۔

ڈاکٹر صاحب ہیں؟

اس کی گبھرائی ہوئی آواز آئی۔

مگر تم کون ہو؟ اور ڈاکٹر صاحب سے اتنی رات گئے کیا کام ہے؟

مجھے صرف اتنا بتادو کہ ڈاکٹر صاحب ہیں کہ نہیں؟ عورت بولی۔

چوکیدار نے کہا۔

ڈاکٹر صاحب سو رہے ہیں۔ وہ اس وقت نہیں مل سکتے جاؤ اپنا کام کرو۔

وہ بوجھل قدموں سے مڑی۔

اس اثناء میں ڈاکٹر آفاق دروازے تک پہنچ چکا تھا۔

ٹہرو

اس آواز پر عورت رک گئی۔ اور آفاق کو دیکھنے لگی۔ اس کی آنکھ سے آنسو جاری تھے۔

"کیا بات ہے؟

ڈاکٹر نے آہستہ سے پوچھا۔

میرے بچے کی طبیعت بہت خراب ہے چل کر دیکھ لو۔ اس کی آواز میں مامتا کی تڑپ تھی۔

آفاق سے نہ رہا گیا۔

اچھا ٹہرو میں ابھی اپنا بیگ لے کر آتا ہوں۔

تھوڑی دیر میں وہ بیگ لے کر آ گیا اور بولا چلو

پھر چوکیدار کو تاکید کی کہ دھیان سے بیٹھنا میں ابھی آتا ہوں۔

عورت لالٹین ہاتھ میں لئے ہوئے آگے چل رہی تھی آفاق پیچھے پیچھے چل رہا تھا لیکن آفاق نے دیکھا کہ اس عورت کے قدم اتنے عزم اور پختگی سے اٹھ رہے تھے۔ جیسے ایک فوجی ہاتھ میں بندوق لئے چل رہا ہو۔
وہ اس کی بہادری پر حیران تھا کہ اگر اتنی رات گئے کسی مرد کو بیجھتے تو شائد وہ بھی جانے سے انکار کر دیتا۔کیونکہ ایک تو اندھیرا اور دوسرے چاروں طرف کھیت اور جھاڑیاں تھیں اور جہاں ہر طرح کا خطرہ تھا۔ لیکن یہ عورت کسی انجام کی پرواہ کئے بغیر چل رہی تھی۔

تقریبا ڈیڑھ میل چلنے کے بعد عورت ایک گلی میں مڑ گئی دو تین مکان چھوڑ کر ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں داخل ہو گئی۔ ڈاکٹر بھی اس کے پیچھے ہیچھے اندر چلا آیا۔

لالٹین کی روشنی میں اس کی نظر ایک چھوٹے سے بچے پر پڑی شائد ڈیڑھ دو سال کا ہوگا۔ اس کا چہرہ بالکل زرد تھا اور سانس تیزی سے چل رہا تھا۔ عورت کے آنے پہلے شائد وہ جھونپڑی میں اکیلا تھا۔ کیونکہ عورت اور بچے کے سوا جھونپڑی میں کوئی نہ تھا۔

آفاق نے بچے کو دیکھا پھر اسکے انجیکشن لگایا اور چند گولیاں دے کر عورت کو کچھ ہدایات دیں پھر رک رک کر پوچھا۔

اس کا باپ کہاں ہے؟

باپ کا نام سن کر عورت رونے لگی۔ پھر بولی

شادی کے ایک سال بعد اچانک اس پر دل کا دورہ پڑا، میں ایک ڈاکٹر کے پاس گئی لیکن اس نے چلنے سے انکار کر دیا جب میں واپس آئی تو وہ بے سدھ پڑا تھا۔ اور پاؤں بالکل ٹھنڈے تھے۔

آفاق کو اس ڈاکٹر پر بہت غصہ آیا۔ وہ اس ڈاکٹر کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ کتنا کم ظرف اور ذلیل ڈاکٹر تھا۔
اچانک اس کانوں میں صندوق کی کھڑکھڑاہٹ سنائی دی۔ عورت شائد اس میں کچھ ڈھونڈ رہی تھی۔ پھر وہ چند نوٹ لے کر آئی اور بولی۔

اس وقت تو میرے پاس یہی ہیں۔ اگر کم ہوں تو میں باقی بعد میں دے دوں گی۔ نہیں مجھے یہ نہیں چاہئیں۔ آفاق نے کہا۔

عورت بولی۔ ڈاکٹر صاحب تمہیں یہ پیسے لینے ہی ہونگے۔

آفاق نے کہا، میں نے ایک نیک کام کیا ہے۔کسی کی جان بچائی۔ اس کا تصور ہی میرے لئے بہت بڑی خوشی ہے۔ یہ تم اپنے پاس رکھو۔ اپنے بچے کو اس کی غذا کھلانا۔ اچھا اب میں جا رہا ہوں صبح اس بچے کو میرے پاس دیکھانے آ جانا۔ وہ جھونپڑی سے نکلا اور اپنے راستے پر ہو لیا۔

راستے بھر وہ یہ ہی سوچ رہا تھا کہ خدا جانے اس نے یہ روپے کہاں سے حاصل کئے تھے؟ اگر میں لے لیتا تو وہ اپنی بہت سی ضرورتوں سے محروم ہوجاتی۔ میں نے پیسے نہ لے کر اس پر نہیں بلکہ اپنے آپ پر بہت احسان کیا ہے۔ میں ایک ضرورت مند کے کام آیا۔

جب وہ گھر پہنچا تو صبح کے پانچ بج رہے تھے۔ اس نے نہا کر نماز پڑھی اتنے میں نوکر نے میز پر ناشتہ چن دیا اور آفاق بہت ہی مسرور ہو کر ناشتہ کرنے لگا۔