کشمیر ایک ناسور زدہ سماج

عالمِ انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے برپا ہونے والی ہر تحریک صرف اسی صورت میں کامیاب ہوتی ہے جب وہ حق پر قائم ہو اور اس کے پیرو کاروں میں اخلاقی برتری ہو ۔بد کردار قوموں اور ملتوں کی برپا کردہ تحریکیں اگر کبھی کبھار کامیابی سے ہمکنار ہو بھی جاتی ہیں تو بھی ان کی فطری عمر بہت کم ہوتی ہے ،کمیونزم کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔تحریک آزادی کشمیر موقف اور اصولوں کے اعتبار سے اگر چہ ایک مقدس اور محترم تحریک ہے مگر بحیثیت قوم ہمیں جارحین کے مقابلے میں جس بلند کردار و اخلاق کی ضرورت تھی وہ دوردور تک کہیں بھی نظر نہیں آتا ہے ۔ہم ایک سانس میں آزادی برائے اسلام کا بھی مطالبہ کرتے ہیں اور اس کے بالکل برعکس دوسرے سانس میں مراعات کی بھی ،ہم غلبہ دین کی بھی بات کرتے ہیں اور اپنے افکار و اعمال سے اس کی جڑوں پر تیشہ بھی چلاتے ہیں ،ہماری شادی ہو غم ،تجارت ہو تعلیم ،شہادت ہو یا عدالت ،اجتماعی زندگی ہو یا انفرادی ہم زندگی کے ہر موڑ پر دوہرے میعار پر قائم ہیں ۔
ستمبر 2014؁ء کے خوفناک سیلاب کے ساتھ ساتھ ہمیں اور بھی سیلابوں ،طوفانوں اور آندھیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔جن میں سب سے خوفناک سیلاب ’’کشمیر کی سرِ زمین اولیاء پر بے حیائی کا سیلاب‘‘ہے ۔ہمارا سماج بہت ہی کم وقت میں انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ اس سیلاب میں غرق ہو رہا ہے اور المیہ یہ کہ تمام تر وعظ و نصیحت کے باوجود دوردور تک اس کا اثر بہت ہی قلیل مقدار میں ظاہر ہو رہا ہے ۔ہماری نوجوان نسل جان بوجھ کر اس غلیظ سیلاب میں ڈوبنے کے لئے بے چین نظر آرہی ہے ۔یونیورسٹیوں ،کالجوں اور اسکولوں میں مخلوط نظام تعلیم نے جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام انجام دیا ہے ۔پارک کلچر نے ہماری رہی سہی کسر پوری کردی ہے ۔شادی کی تقریبات میں اختلاط ِ مرد و زن نے اب تصور معصیت کو اور بھی کمزور کردیا ہے ۔

اگرمسئلہ اتناسادہ ہوتا جتنا کہ ان چند الفاظ میں میں نے آپ کے سامنے تصویر کاچھوٹا سا رُخ پیش کرنے کی کوشش کی تو شایدہم اصلاحِ احوال کے لئے یک جٹ ہو کر معاملے کو قابل علاج تصور کر لیتے مگر بد قسمتی سے معاملہ اسے بھی گمبھیر نوعیت کا ہے ۔مستند اور مصدقہ اعداد و شمار کے مطابق ریاستِ جموں و کشمیر میں رشوت ستانی کا بازار اس قدر گرم ہے کہ ہندوستان کی دیگر ریاستوں میں پہلے نمبر جہاں بہار ہے وہی جموں و کشمیر دوسرے نمبر پر ہے ۔ریاستی اسمبلی کے فلور پر سابق وزیر خزانہ نے بہ بانگ دہل یہ دعویٰ کیا تھا کہ ہم جموں و کشمیر میں شراب پر اس لئے پابندی نہیں لگا سکتے ہیں کیونکہ یہ ریاست کابہت بڑا ذریعہ آمدنی ہے ۔اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے جس چیز کو اُم الخبائث قرار دیدیا وہ مسلم اکثریتی ریاست میں بہت بڑا ذریعہ آمدنی بنا ہوا ہے ۔اتنا ہی نہیں بلکہ جہاں ہم حرام خوری میں بری طرح ملوث ہیں وہی فضول خرچیوں میں بھی ہمارا کوئی ثانی نہیں ہے ۔ہماری شادی ہو یا غم ہم ہر دونوں مختلف اور متضاد تقاریب میں اتنا پیسہ خرچ کرتے ہیں کہ اﷲ کی پناہ ۔

کشمیر میں جہیز کی لعنت نے نوجوان لڑکیوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو شادیوں کے بندھن میں بندھنے سے روکا ہے ۔سرینگر جہاں دیہاتوں اور قصبوں کے مقابلے میں جہیز کی لعنت نے لڑکیوں اور ان کے والدین کی پر سکون زندگی کوجہنم زارمیں تبدیل کردیا ہے میں مستند ذرائع کے مطابق ہزاروں لڑکیوں کی شادی کی عمر انتظار کرتے کرتے ڈھل چکی ہیں اور وہ جیتے جی اب بے شمار ذہنی اور جسمانی امراض میں مبتلا ہو چکی ہیں ۔سماج میں اس جانب توجہ دینے اور کچھ کر گذرنے کا جذبہ رکھنے والے ہی مفقود نظر آتے ہیں ۔با اثر دینی تنظیموں کا بھی اس جانب توجہ نہ دینا اور اپنے آپ ہی سے اس کی ابتدا نہ کرنا ایک بہت بڑی وجہ قرار دی جا سکتی ہے ۔کشمیر میں شادی بیاہ کا سیزن شروع ہونے کے ساتھ بری رسومات عام ہونے سے کشمیر میں ہزاروں بیٹیاں شادی کی اصل عمر کو پار کر چکی ہیں اور ان کے والدین اپنی بیٹیوں کی شادی کیلئے ترس رہے ہیں۔شادی کے دوران سرمایہ دار کھلے عام اپنی دولت کی نمائش کر کے غریب لڑکیوں کو خون کے آنسو ں رونے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ وادی کشمیر میں آئے روز نمود و نمائش ، فضول خرچی ، بدعات ، سرمایہ داروں کی طرف سے نئے نئے اخراجات اور جہیز کی لعنت کو فروغ دینے کا اثر غریب خاندانوں کی بیٹیوں پر پڑ رہا ہے۔ شادی کے اخراجات میں بے تحاشا اضافہ اور بری رسومات عام ہو جانے سے جہاں ایک طرف وادی کشمیر میں لاکھوں بیٹیاں شادی کی اصل عمر پار کر چکی ہیں وہیں ان کے والدین اپنے بیٹیوں کی شادی کیلئے ترس رہے ہیں۔ جبکہ سماجی بدعات نے پہلے ہی وادی کشمیر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔منشیات کی وبا، نشہ آور ادویات کا استعمال ، نقب زنی ، اورقمار بازوں کی وجہ سے شریفوں اور کمزوروں کا وادی میں عزت سے رہنا مشکل ہو گیا ہے۔ادھر سیاسی لیڈران ، سرکاری انتظامیہ ، اور سماجی کارکنان ان سماجی بدعتوں کو ختم کرنے کے بارے میں زبانی جمع خرچ تو بہت کرتے ہیں تاہم عملی طور پر ان بدعتوں کو ختم کرنے کے لیے اقدامات نہیں کرتے ہیں۔ ان بدعتوں کے ساتھ ساتھ جن بری رسومات نے وادی کشمیر کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے ان میں جہیز جیسی لعنت بھی شامل ہے جس نے وادی کشمیر میں کتنے ہنستے بستے گھرانوں کو تباہ کر دیا ہے۔ جہیز کم لانے یا نہ لانے کے جرم میں کتنی معصوم بچیاں ظلم و ستم برداشت کر رہی ہیں۔

شادیوں اور منگنیوں کی اکثر تقریبات کے دوران ظاہری طور پر بڑی مقدار میں دولت کی نمائش سے غریب لڑکیوں اور لڑکوں کا نکاح روز بروز مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق وادی کشمیر میں لاکھوں کی تعداد میں ایسی بالغ لڑکیاں ہے جن کے والدین غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ دولت کی ریل پیل نہ ہونے کی وجہ سے ایسی لڑکیوں کی شادی نہیں ہو پا رہی ہے۔ منشیات کے فروغ نے ہماری نوجوان نسل کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کردیا ہے روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی 12اپریل 2015ء کو ایک دل دہلانے والی رپورٹ شائع ہوئی کہ’’ شہرخاص کے بیشتر علاقوں سے عوامی وفود کا کہنا ہے کہ ان علاقوں میں منشیات اور شراب کا دھندہ کھلے عام جاری ہے تاہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے دھندے میں ملوث افراد کو معنی خیز انداز میں چھوٹ دی جارہی ہے جس سے عوام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ شہر خاص کے اہم ترین تعلیمی مرکز اسلامیہ کالج اور زیارت مخدوم صاحب کے اردگرد کی بستیوں میں کھلے عام منشیات اور شراب کا دھندہ چلایا جارہا اور پولیس بھی اس امر سے بخوبی واقف ہے اور وقتاً فوقتاً ان علاقوں میں گرفتاریاں بھی عمل میں لائی جاتی ہیں تاہم کچھ ہی دنوں میں یہ افراد چھوٹ جاتے ہیں اور منشیات کا دھندہ پھر کیاجاتا ہے۔ رعناواری علاقہ میں رہنے والے جاوید احمد ملک نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ ملہ کھاہ کے قبرستان میں منشیات کے عادی لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہے یہاں کی کچھ بستیاں ان اشیاء کا دھندہ کھلے عام کرتے ہیں۔ متعددعلاقوں میں منشیات کا دھندہ پھل پھول رہا ہے جس سے علاقے میں سماج دشمن عناصر کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا ہے۔منشیات کی اس پھیلتے ہوئے طوفان کے خلاف شہر خاص کے ذی حس افراد نے شہر خاص میں شد ومد سے کام تو شروع کردیا ہے لیکن مقامی لوگ برملا اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ پولیس کی طرف سے اس ضمن میں کوئی خاطر خواہ کارروائی نظر نہیں آتی۔ شہر خاص کی سنسان جگہوں (ملہ کھاہ اور اسلامیہ کالج کے عقب میں ) کچھ گاڑیاں کھڑی دکھائی دیتی ہیں جن کے شیشوں پر کالی فلمیں چڑھی ہوئی ہوتی ہے۔ ان گاڑیوں میں اخلاق سوز حرکتیں ہوتی رہتی ہیں اور پولیس کی نوٹس میں لائے جانے کے باوجود بھی اس کیخلاف کوئی کارروائی نہیں ہوپائی ہے۔لوگوں کا کہنا ہے کہ شام ہوتے ہی تیز رفتار بائیکوں پر نشے میں دھت اوباش نوجوان عجیب وغریب آوزیں لگاتے پھرتے ہیں اورراہ چلتی لڑکیوں پر بھی فقرے بازی کرتے ہیں اس ضمن میں بھی وردی پوش اہلکار خاموش ہی نظر آتے ہیں‘‘۔

کشمیر میں ذہنی اور نفسیاتی مریضوں کی تعداد بڑھ کر ایک لاکھ20 ہزار ہو گئی ہے جس کے سبب خود کشی کے رجحانات میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق کشمیر میں 1987میں منشیات اور نفسیاتی امراض سے متاثر افراد کی تعداد 17 ہزار کے قریب تھی ،جو 2008 ء میں ایک لاکھ تک پہنچ گئی جب کہ 2012 میں یہ تعداد ایک لاکھ20 ہزارسے تجاوز کر گئی۔ ان متاثرہ افراد میں 15سے35 سال تک کی عمر والی 60فیصد خواتین اور 40فیصد نوجوان پائے گئے۔ وادی کشمیر کے حوالہ سے یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ چند برس قبل تک کشمیری معاشرہ منشیات کی لت سے کم و بیش ناآشنا تھا بلکہ یہاں تمبا کو کو چھوڑ کر دیگر انواع کی عمومی نشہ بازی کے بارے میں سوچنا اور بات کرنا بھی گناہ عظیم تصور کیاجاتا تھا۔ تاہم اب وہ صورتحال نہیں رہی ہے۔ کشمیر کی کل آبادی میں دو فیصد لوگ بھنگ استعمال کرتے ہیں اور 0.7 فیصد لوگ شراب نوشی میں مبتلاء ہیں۔اسی طرح24.5 فیصد لوگ سگریٹ نوشی کے عادی ہیں جبکہ 10.63 فیصد لوگ سگریٹ نوشی کے دوسرے متبادلات استعمال کرتے ہیں۔تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ افیم کی مختلف اشکال کے استعمال میں کئی سو گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ 1980 ء میں 9.5 فیصد آبادی افیم او ر اس سے وابستہ اشیاء کا نشہ کرتی تھی، لیکن 2002ء تک منشیات سے نجات حاصل کرنے والوں کی تعداد بڑھ کر 73.1 فیصد ہوگئی ہے۔ 1980ء کے دوران تک ہیروئن اور دوسری سخت نشہ آو ر چیزیں ممبئی سے آ یا کرتی تھیں، لیکن 1990ء کے بعد ریاست ہیروئن اور اس سے وابستہ اشیاء کی اسمگلنگ کا بین الاقوامی ٹرانزٹ پوائنٹ بن چکی ہے۔حال ہی میں کشمیر کے دو حصوں کے درمیان تجارت کا معاملہ منشیات کی ضبطی کی وجہ سے کئی دنوں تک رکا رہا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ سب کچھ سرکاری حکام کی ناک کے نیچے کیسے ہوتا ہے؟ بھنگ اور ایسی دوسری نشہ آور فصلیں این ڈی پی ایس ایکٹ، 1985 ء کی دفعہ 18 کے تحت ایک قابل سزا جرم ہے اور اس کے لیے مجرم کو 10 سال قید با مشقت اور ایک لاکھ روپے تک کا جرمانہ ہو سکتا ہے۔ایسی منشیات کو خریدنا اور فروخت کرنا بھی اس قانون کی دفعہ 15 کے تحت جرم ہے۔ مرکزی حکومت کے ذریعے پاس کیے گئے اس قانون کو ریاستی حکومتیں اپنی زمینی حقائق کی بنیاد پر نافذ کرتی ہیں۔ اگرچہ اس قانو ن کی دفعہ 10 ریاستی حکومت کو اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ وہ افیم اور دواؤں میں استعمال ہونے والی افیم اور بھنگ کی کھیتی کی بین الریاستی حرکت پر روک لگا سکتے اور اسے ضبط کر سکتے ہیں تاہم عملی طور ایسا کچھ ہوتا دکھائی نہیں دیتا ہے بلکہ اگر حق گوئی سے کام لیاجائے تو حکومتی سطح پر صرف کاغذے گھوڑے دوڑائے جارہے ہیں جبکہ عملی سطح پر کچھ کام نہیں ہورہا ہے جس کے نتیجہ میں ہماری نوجوان نسل اس دلدل میں پھنستی ہی چلی جارہی ہے اور اگر یہی رجحان جاری رہا تو کشمیری سماج کے مستقبل کے بارے میں کچھ وثوق کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔۔اس تباہ کن صورتحال پر اگر بھر وقت روک نہیں لگا دی گئی تویہ ایک ایسا سوال ہے جس کاجواب ارباب حل و عقد اور اہل دانش کو دینا پڑے گاوگرنہ یہی کہاجائے گا کہ ارباب اختیار کشمیریوں کی بربادی کا تماشا دیکھنے پر تلے ہوئے ہیں جو کسی صدمہ عظیم سے کم نہ ہوگا۔
altaf
About the Author: altaf Read More Articles by altaf: 116 Articles with 83629 views writer
journalist
political analyst
.. View More