شہدا کے مراتب

شیخ الحدیث مولانا عثمان لدھیانوی
دین اسلام کے دیگر احکامات کی طرح جہادو قتال کے سلسلہ میں بھی اسلام کی تعلیمات نہایت جامع، واضح اور امن و سلامتی کی علامت ہیں۔ لیکن فی زمانہ دشمنان دین کی جانب سے جہاد و قتال کے حوالے سے بہت سارا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے اور بہت سے متجددین حضرات جہاد کو عملاً معطل کرنے کے درپے ہیں، حالانکہ قرآن و حدیث کی نصوص میں جہاد کو بہت زیادہ اہمیت سے نوازا گیا ہے۔ ہمیں جہاد کی اقسام اور شہید کے مراتب کو ضرور سمجھنا چاہیے۔

نسائی شریف میں حضرت سوید بن مقرن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: “جو شخص ظلم سے مدافعت کرتے ہوئے مارا جائے وہ شہید ہے۔”اب آپ خود سوچیں کہ جولوگ مختلف محازوں پر مدافعت کرتے ہوئے مارے جارہے ہیں وہ شہید ہیں یا نہیں؟جہاد صرف جان یا مال کانہیں ہوتا بلکہ جنسی جہاد آج کے وقت کی ضرورت ہے۔آپ نوٹ فرمائیں کہ اگر ایک شخص کو بھوک ہی نہیں تو اسے کھانا کھلانے کا کیا فائدہ۔جولوگ شام اور افغانستان میں لڑ رہے ہیں وہ روٹی پانی سے بے نیاز ہیں انہیں انسان ہونے کے ناطے جنسی اضطراب مضطرب کرتاہے۔اب اس کے خلاف پروپیگنڈہ کرنا سراسر زیادتی ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم بھی اپنی عزت و ناموس کو اسلام کی خاطر قربان کریں اور اپنی عزت و ناموس کے ساتھ ان مجاہدین اسلام کی مدد کریں۔چونکہ جب یہ مجاہدین شہید ہونگے تو ہمیں بھی اجر ملے گا۔شہادت کا بڑا مرتبہ ہے ہم بھی اس طرح شہیدوں کی مدد کر کے ان کے رتبے میں شریک ہوسکتے ہیں۔

ترمذی شریف میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: “شہید چار قسم کے ہیں، ایک وہ شخص جس کا ایمان نہایت عمدہ اور پختہ تھا، اس کا دُشمن سے مقابلہ ہوا، اس نے اللہ کے وعدوں کی تصدیق کرتے ہوئے دادِ شجاعت دی یہاں تک کہ قتل ہوگیا، یہ شخص اتنے بلند مرتبے میں ہوگا کہ قیامت کے روز لوگ اس کی طرف یوں نظر اُٹھاکر دیکھیں گے، یہ فرماتے ہوئے آپ نے سر اُوپر اُٹھایا یہاں تک کہ آپ کی ٹوپی سر سے گرگئی، (راوی کہتے ہیں کہ: مجھے معلوم نہیں کہ اس سے حضرت عمر کی ٹوپی مراد ہے یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی)۔ فرمایا: دُوسرا وہ موٴمن آدمی جس کا ایمان نہایت پختہ تھا، دُشمن سے اس کا مقابلہ ہوا مگر حوصلہ کم تھا، اس لئے مقابلے کے وقت اسے ایسا محسوس ہوا گویا خاردار جھاڑی کے کانٹے اس کے جسم میں چبھ گئے ہوں، (اگر کوئی شخص اپنی ناموس کو اسلام پر قربان کردے تو کیا اس سے زیادہ پختہ ایمان کسی اور کا ہوسکتاہے) تاہم کسی نامعلوم جانب سے تیر آکر اس کے جسم میں پیوست ہوگیا، اور وہ شہید ہوگیا، یہ دُوسرے مرتبے میں ہوگا۔ تیسرے وہ موٴمن آدمی جس نے اچھے اعمال کے ساتھ کچھ بُرے اعمال کی آمیزش بھی کر رکھی تھی، دُشمن سے اس کا مقابلہ ہوا اور اس نے ایمان و یقین کے ساتھ خوب ڈَٹ کر مقابلہ کیا، حتیٰ کہ قتل ہوگیا، یہ تیسرے درجے میں ہوگا۔ چوتھے وہ موٴمن آدمی جس نے اپنے نفس پر (گناہوں سے) زیادتی کی تھی (یعنی نیکیاں کم اور گناہ زیادہ تھے) دُشمن سے اس کا مقابلہ ہوا اور اس نے خوب جم کر مقابلہ کیا یہاں تک کہ قتل ہوگیا، یہ چوتھے درجے میں ہوگا۔”

اسلام میں شہادت فی سبیل اللہ کو وہ مقام حاصل ہے کہ (نبوّت و صدیقیت کے بعد) کوئی بڑے سے بڑا عمل بھی اس کی گرد کو نہیں پاسکتا۔ اسلام کے مثالی دور میں اسلام اور مسلمانوں کو جو ترقی نصیب ہوئی وہ ان شہداء کی جاں نثاری و جانبازی کا فیض تھا، جنھوں نے اللہ رَبّ العزّت کی خوشنودی اور کلمہٴ اِسلام کی سربلندی کے لئے اپنے خون سے اسلام کے سدا بہار چمن کو سیراب کیا۔ شہادت سے ایک ایسی پائیدار زندگی نصیب ہوتی ہے، جس کا نقشِ دوام جریدہٴ عالم پر ثبت رہتا ہے، جسے صدیوں کا گرد و غبار بھی نہیں دُھندلا سکتا، اور جس کے نتائج و ثمرات انسانی معاشرے میں رہتی دُنیا تک قائم و دائم رہتے ہیں۔ کتاب اللہ کی آیات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں شہادت اور شہید کے اس قدر فضائل بیان ہوئے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے اور شک و شبہ کی ادنیٰ گنجائش باقی نہیں رہتی۔
شیخ الحدیث مولانا عثمان لدھیانوی
About the Author: شیخ الحدیث مولانا عثمان لدھیانوی Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.