نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹ (ناپا)!

ہمارے معاشرے میں لوگوں کی ایک کثیر تعداد دوسروں کی کردار کشی کرنا اپنا اہم فریضہ سمجھتے ہیں۔۔۔بہت کم لوگ ہیں جودوسروں کی مخفی اور ظاہری صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں سرکردہ نظر آتے ہیں ۔۔۔ صلاحیتیں اپنی ہوں یا پھر دوسروں کی انہیں گاہے بگاہے سنوارنے کی ضرورت رہتی ہے۔۔۔پیشہ ورانہ زندگی بھی اسی ڈھنگ سے چلتی ہے کہ آپکو اپنے میدان میں ہونے والی تبدیلیوں سے ہم آہنگ رہنا پڑتا ہے۔۔۔پاکستانی سنوارنے کہ لفظ سے تو بخوبی واقف ہیں مگر اس لفظ کی روحانی حیثیت سے دور دور تک کا کوئی واسطہ نہیں۔۔۔بیوٹی پارلر اور بیوٹی سیلون پاکستان میں بہترین کاروبار ہیں۔۔۔یعنی ہر فرد (بلا تفریقِ صنف) اپنے آپ کو خوبصورت دکھنا چاہتا ہے ناکہ دوسروں کو۔۔۔جس طرح معاشرہ افرادسے تشکیل پاتا ہے اسی طرح کسی بھی ملک کی ترقی بھی اسکے افراد کی ترقی سے مشروط ہے۔۔۔دنیا کہ جن ممالک نے ترقی کی انہوں نے معاشی ، معاشرتی ، قانونی ، علمی اور فنون کہ فروغ پر یکساں توجہ دی ۔۔۔یوں سمجھئے زندگی کیلئے ضروری اقدار کی اہمیت کو بھر پور طریقے سے اجاگر کیا۔۔۔جاپانی فلموں کو دیکھ کر آپ کو جاپان کی ثقافت و اقدار کا علم ہوتا ہے ۔۔۔وہ کس طرح اپنی زندگیاں گزارتے ہیں کیسے گھر بناتے ہیں۔۔۔کس طرح تعلقات نبھاتے ہیں ۔۔۔ہالی وڈ کی موویز کو دیکھ لیں وہ اپنی ثقافت کی بھر پور ترجمانی کرتے ہیں ۔۔۔ان کا معاشرہ جس ڈھب سے چلتا ہے وہ اس کی ترویج کرتے ہیں۔۔۔بالی وڈ کو دیکھ لیں ۔۔۔اپنی ثقافت اور مذہب کا بھر پو ر طریقے سے چرچا کرتے ہیں۔۔۔میڈیا وہ ذریعہ ہے جس کہ زریعے آپ کو گھر بیٹھے کسی بھی ملک کی ثقافت ، معاشرت پتہ دے دیتا ہے ۔۔۔

تہذیب و تمدن کہ اعتبار سے یونانیوں نے دنیا کو بہت کچھ دیا۔۔۔ سقراط اور ارسطوکا تعلق بھی یونان سے تھا اور اسی طرح سکندرِ اعظم کا تعلق بھی یونان کہ نواح سے تھا ۔۔۔لگتا یوں ہے کہ یونانی انسانی اقدار کی نئی جہتوں پر کام کرنا چاہتے تھے یا کیا کرتے تھے۔۔۔ تھیٹرلگانے کا خیال بھی اسی خیال سے مماثلت رکھتا ہے کہ انسان ایک کردار ہے اور دنیا تھیٹر۔۔۔اب انسان میں موجود کردار کو نکالنا یا انسان کو اس کردار سے روشناس کرانا۔۔۔یہ کام بھی یونانیوں نے سرانجام دیا۔۔۔ ہمیں پتہ یہ چلا کہ تھیٹراپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرتے ہوئے لوگوں تک کسی خاص پیغام کو پہنچانے کا سب سے پہلا ذریعہ بنا۔۔۔تھیٹر وہ جگہ تھی جہاں رسوم و رواجوں کی ترویج کو عملی طور پر دیکھایا جاتاتھا۔۔۔تھیٹر آج نئے زمانے کی ایجادات سے آراستہ و پیراستہ موجود ہے ۔۔۔مگر کس حال اور چال میں ہے ہم اس پر پھر کبھی بحث کرینگے ۔۔۔تھیٹر کوافراد میں موجود کرداروں کی تشخیص کی جگہ کہوں تو یقینا غلط نہ ہوگا۔۔۔فلم اور ڈرامہ، تھیٹر کی جدیداور تبدیل شدہ شکلیں ہیں۔۔۔دنیا میں جہاں کہیں بھی انقلاب آیا تھیٹر نے انقلاب میں قلیدی کردار اداکیا۔۔۔جہاں لوگوں میں جذبہ حب الوطنی اور آزادی سے محبت کے درس دیتے تھے۔۔۔تھیٹر کا بھی تعلق ادب کہ گھرانے سے رہا ہے۔۔۔

ہماری خوش قسمتی ہے کہ پاکستان میں بھی ایک ایسا ادارہ موجود ہے ۔۔۔جو افراد میں سے فن کی کشید کر رہا ہے ۔۔۔جو عام کو خاص بنانے میں کار فرما ہے ۔۔۔یقینا آپ لوگ اس ادارے سے بخوبی واقف ہونگے جس کا نام نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹ (ناپا) ہے۔۔۔یہ ادارہ ۲۰۰۵ میں قائم ہوا ۔۔۔ذرا غور طلب مقام ہے کہ یہ ادارہ ۲۰۰۵ میں قائم ہوا یعنی اس سے پیشتر لوگ باقاعدہ تربیت یافتہ نہیں تھے یا بین الاقوامی اداروں سے سیکھ کر آرہے تھے۔۔۔یا پھر ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ کر سیکھ رہے تھے۔۔۔اس ادارے میں اداکاری، صداکاری، ہدایت کاری، گلوکاری ، ڈرامہ نگاری اور رقص کی باقاعدہ تعلیم دی جاتی ہے ۔۔۔یہاں تجربا کار اور نامور اساتذہ جو اپنے اپنے فن کے میدان میں کار ہائے نمایاں انجام دے چکے ہیں۔۔۔اس ادارے کہ بانی و صدر بین الاقوامی شہرت کہ حامل محترم جناب ضیاء محی الدین ہیں۔۔۔جو یقینا اپنی ذات میں ایک ادارے کی حیثیت رکھتے ہیں۔۔۔آپ لندن کی اکیڈمی آف ڈرامیٹک آرٹ سے فارغ التحصیل ہیں۔۔۔

۲۵ مئی ۲۰۱۵ بروز پیر، تقریبا ۱۲۰۰ بجے دوپہر ہم نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹ (ناپا) پہنچے ۔۔۔جہاں ہماری ملاقات اس ادارے کہ بانی و صدر جناب ضیاء محی الدین صاحب سے طے تھی۔۔۔گو کہ ہماری اس ملاقات کا مقصد اردو پرہماری تحقیق کے حوالے سے تھا۔۔۔ہم سب کی ہی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ضیاء صاحب بولتے جائیں اور ہم سب سنتے جائیں۔۔۔خدا تعالٰی نے آپ کو جو خوش الحانی دی ہے اور اس پر اندازِ تکلم ۔۔۔آپ جب بات کرتے ہیں تو ایک ایک لفظ کا صحیح معنوں میں حق اداکرتے ہیں۔۔۔بہت مختصر سی اس ملاقات میں آپ نے اردو کی زبوں حالی کا ذمہ دار اربابِ اختیار کو ٹہرایا۔۔۔ان کا کہنا تھا کہ ہم جس سطح پر اردو کی خدمت کر سکتے ہیں ۔۔۔ہم کر رہے ہیں۔۔۔ان کا کہنا تھا کہ اپنے لوگوں کی اردو گوش گزار کر کہ بہت دکھ ہوتا ہے۔۔۔چاہے وہ ہمارے خبریں پڑھنے والے بول رہے ہوں یا پھر ڈرامے میں بطور ڈائلاگ استعمال ہور ہے ہیں ۔۔۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کے ادارے (ناپا) میں اس بات کا بھر پور خیال رکھا جاتا ہے کہ لفظوں کا استعمال انکے صحیح تلفظ کہ ساتھ کیا جائے ۔۔۔

میں اس امید کہ ساتھ وہاں سے روانہ ہوا کہ ناپا میں تعلیم حاصل کرنے والے طالبعلم اپنے پیشے سے اپنے فن سے محبت کرنا بھی سیکھ کر نکلینگے۔۔۔اور اس پیشے کہ تقدس کو بحال کرائینگے۔۔۔یقینا خوش نصیب ہیں وہ طالبِ علم جنہیں ضیا ء محی الدین صاحب جیسے استاد ملے اور ان صحبت میں وقت گزارتے ہیں ۔۔۔جنہوں نے اپنی زندگی اس پیشے سے وابستہ گزاردی اور آج بھی اس پیشے کو اور بہتر سے بہتر کرنے پر کمر کسے ہوئے ہیں۔۔۔اس ادارے کی شاخیں دوسرے صوبوں کہ بڑے بڑے شہروں میں قائم ہونی چاہئے۔۔۔تاکہ ہمارے ڈرامے اور تھیٹر سے آنے والی نسلوں کو ادب کا درس مل سکے۔۔۔اور ایک اچھا معاشرہ تشکیل پائے۔۔۔پاکستان کی ترقی اور خوشحالی میں اپنا کردار نبھائے۔۔۔امید ہے کہ ناپا پر ایک تفصیلی مضمون آپ لوگوں کی خدمت میں جلد پیش کرونگا۔۔۔
Sh. Khalid Zahid
About the Author: Sh. Khalid Zahid Read More Articles by Sh. Khalid Zahid: 526 Articles with 405889 views Take good care of others who live near you specially... View More