نقل میں عقل

از سحرش فاطمہ

آج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ لوگوں کو ٹی وی پہ جب کچھ دیکھنا ہوتا ہی ہے اور دیکھ کر پھر مزے سے تنقید بھی کرتے ہیں کہ جی یہ ہوگیا اس میں یہ بھی تھا نہین اس میں یہ چیز غلط دکھا دی،اب ہم بتائیں کیا ہوگیا؟

ٹی وی پہ اشتہار آتے ہیں بھئی ان کے بغیر تو ڈرامے بھی ادھورہے ہیں ارے وہ والے نہیں یہ جو ہر ایک گھنٹے بعد ایک لڑکا اور لڑکی آکر خبریں سناتے ہیں ناں وہ بھی کسی ڈرامے سے کم تھوڑی نہ ہوتے ہیں۔
اچھا چھوڑیں ہم اشتہار کی بات کررہے تھے، کہ جی کوئی دھماکے دار خبر دینی ہو توکپ توڑ دیتے ہیں اور کیا خبر ہوتی ہے کہ جی ٹوٹھ پیسٹ کی قیمت کم ہوگئی ہے اب جو کپ توڑا اس کا نقصان کون اٹھائے گا؟؟
پھر یہ تو چلو اشتہار تھا ،اب تو ان اشتہارات کی نقل ہوتی ہے،او اکثر دوسروں کی نقل کرکے بنائی جاتی ہیں ہو بہو، کیا آپ کو ڈسپرین والا اشتہار یا د ہے؟ سر درد سر درد سر درد سر درد سن کر ہی لوگوں کو سر درد ہوجائے لیکن جب اس کی نقل بنائی گئی ویسے یہ بھی نقل تھی بہرحال اس کی جو نقل بنائی اس میں لڑکے نے گولی کھانے کے بجائے اس لڑکی کو ہی گولی ماردی․․․کام ہی مکا دو۔

اچھا ہمارے ہاں نقل کا رواج خاصہ عام ہے آپ اسے کھانے والا آم نہ سمجھیں ،یہ نقل کا رواج بڑے ہی زور وشور سے بہت شان و شوکت سے نہیں نہیں امتحانات کی بھی بات نہیں ہورہی،ویسے ہی کہا ہے کہ جیسے کیسی کا اسٹائل چرا لینا ہاں ہاں چرانا نہیں بھئی کاپی بات تو ایک ہی ہوئی ناں اب ہم اس پہ کہیں گے کہ کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی ہی چال بھول گیا،کوا بھی تو کائیں کائیں کرکے شور مچاتا ہے نقل کرکے بھی پکڑا تو پھر بھی جاتا ہے۔ یہ چیزیں دوستوں میں بہت ہوتی ہیں،لڑکیوں میں ہو تو اسے جلاپا یعنی جیلسی کا نام دیا جاتا ہے اور لڑکے کریں تو واہ استاد چھا گئے ہو دوست دیکھ میرے جیسا ہی لگ رہاہے آخر میرا دوست ہے اس لائن کا استعمال کیا جاتا ہے،سمجھ نہیں آتا کہ انہیں جلن یعنی تیزابیت یعنی ایسیڈیٹی کیوں نہیں ہوتی؟میرے خیال سے ہوتی ہوگی پر بتاتے نہیں ہونگے۔

لڑکیوں کے لیے ایک لفظ ا ستعمال ہوتا ہے ـروتی مینا،اب بھلاں بتاؤ مینا بھی روتی ہے کیا؟ ہاں یہ لڑکیاں جنہیں صنف نازک کہا جاتا ہے جو جذباتی بھی ہوتی ہیں دل پہ بات لے لیتی ہیں اور رودیتی ہیں بیچاری تو انہیں مینا تو نہ کہیں،مینا تو پرندہ ہے وہ خود نہ رودے یہ جان کر؟

اچھا یاد آیا ،ہم بات کررہے تھے نقل کی تو اس میں طوطا شاہ ہاں جی ہمارے اپنے طوطے میاں وہ والے نہیں جو ہاتھ سے اڑ جاتے اصلی والا طوطا․․اچھا خیر تو ہم ان کی بات کریں گے یہ وہ پرندہ ہے جو اپنی آواز سے ہماری نقل کرسکتا ہے پر ہے بدتمیز کہیں کا لڑکیوں کو دیکھ کر خوب بولتا ہے لڑکوں کو نہیں․․․ چلیں اب اگر ہم مزید بات کریں تو اس میں بندر کا نام بھی آتا ہے اور کہتے ہیں کہ انسان پہلے بندر تھا اس تھیوری کو اسلا م پوری طرح سے ریجیکٹ کرتا ہے لیکن بندر بھی نقل کرتا ہے-
Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1024648 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.