اردو دوسری سرکاری زبان

بہت دنوں سے، میری مرادہے برسوں سے تماشا دکھانے کے لیے ڈگڈگی بجائی جا رہی تھی خدا خدا کر کے ڈگڈگی کا شور ختم ہوا اور تماشہ شروع ہوا۔ اردو کو صوبہ اتر پردیش میں دوسری سرکاری زبان تسلیم کر لی گئی ہے جسے اب ذیل کے کاموں میں استعمال کیا جاناہے:
۱۔ اردو میں عرضیوں اور درخواستوں کووصول کیا جائے اور ان کے جوابات اردو میں دیے جائیں۔
۲۔ اردو میں لکھے دستاویز،رجسٹرار آفسوں میں قبول کیے جائیں۔
۳۔ اہم سرکاری احکامات اور’پریپتروں‘ کو اوردو میں بھی جاری کیا جائے۔
۴۔ عوامی مفادکے سرکاری احکامات و سرکلروں کو اردو میں بھی جاری کیا جائے۔
۵۔ اہم سرکاری اشتہاروں کو اردو میں بھی جاری کیا جائے۔
۶۔ گزٹ کو اردو میں بھی شائع کیا جائے۔
۷۔ اہم پٹے بھی اردو میں دکھائے جائیں۔

ان احکامات کے تحت اردو والے اپنی درخواستیں اور دستاویز سیدھے اردو میں داخل کر سکتے ہیں۔اردو واکے دستاویز ہم پہلے بھی داخل کرتے تھے لیکن ساتھ میں ہندی میں بھی ٹائپ کرا کر لگانا پڑتا تھا۔

ایک حقیقت ہے جس نے کہاوت کی شکل اختیار کر لی ہے وہ یہ کہ ’جب تک بچہ روتا نہیں ہے، ماں اُسے دودھ نہیں دیتی‘ جب کہ دودھ پینا بچہ کا حق ہے جواُسے رونے سے پہلے ملنا چاہئے۔ ہماری سرکاریں، چاہے جس پارٹی کی ہوں،اس حقیقت سے اتنی متاثر ہیں کہ بغیر رلائے کسی کا جائز حق نہیں دیتی ہیں۔اپنا حق لینے کے لیے ملازمین کوہڑتال کرنی پڑتی ہے۔عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا ہے ۔مرکزی حکومت نے اگرمہنگائی الاؤنس بڑھا دیا ہے تو معاہدے کے تحت صوبائی حکومتوں کو بھی بڑھا دینا چاہئے، لیکن ہوتا یہ ہے کہ جب تک ملازمین ہڑتال نہ کریں، دو چار دِن سرکاری کاموں کا نقصان نہ ہو حکومت تب تک نہییں جاگتی۔

یہی حال بینک کے ملازمین کا بھی ہے۔وہاں بھی جائز حقوق ہڑتال ہی دلاتے ہیں۔روڈویز بسوں کی ہڑتال کے سلسلہ میں ایک صاحب نے لکھا ’بسوں کی ہڑتال کا یہ حال ہے کہ کب ہڑتال ہو جائے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔دوڑتا بھاگتا میں بس اسٹیشن پہنچا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ بس کھڑی ہے۔ میں لپکا اور بس پر چڑھنے کے لیے ایک پیر رکھ کر دوسرا پیررکھنے کے لیے اُٹھا یاہی تھا کہ بس ہڑتال کا اعلان ہو گیا‘۔

حکومت کے سینکڑوں محکمے ہیں،اور ہر محکمے میں سینکڑوں عہدے ہیں اور ہر عہدے کی الگ الگ یونئین ہیں۔کوئی نہ کوئی یونئین لکھنؤں میں اپنے جائز حقوق کے لیے’دھرنا پردرشن‘ کے لیے پڑی رہتی ہے۔بس صرف ایک محکمہ پولیس ہے جو دھرنا پردرشن سے پاک ہے۔

سالوں کی بے پناہ مشقت اور بڑے دھرنا پردرشن کے بعدکئی سال پہلے اردو کو دوسری زبان کا درجہ ملا مگر اردو دشمنوں کے دھرنا پردرشن پر معاملہ لٹکا اور سُپریم کورٹ تک گیا۔سُپریم کورٹ کے حکم پر صوبائی حکومت نے تاریخ ۲۱؍اپریل۲۰۱۵؁ء کواردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دے دیا۔ صوبائی حکومت نے تو سُپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل کی ہے۔اور احکام جاری کر کے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ہماری حکومت اردو کی ہمدرد ہے۔
شکریہ آپ کے اس لطف و کرم کا اے دوست!
دانت جب گر چکے تب بھیجے ہیں بادام مجھے
شوقؔ بہرائچی

جوحضرات اردو جانتے تھے وہ کچہری و دفتروں میں زندگی بھر ہندی لکھتے لکھتے اردو لکھنا ہی بھول گئے اور ستم ظریفی یہ کہ ساتھ ہی ساتھ دنیا سے بھی رخصت ہو گئے۔دارالعلوم کے طلبہ کو چھوڑ کر عام طور سے نئی پودھ جو سرکاری یا غیر سرکاری اسکولوں میں پڑھتی ہے، اردو سے نا آشنا ہے ۔

اب نئے اردو پڑھنے لکھنے والے کہاں سے آئیں گے؟’دانت گرنے کے بعد بادام کا ہم کیا کریں ؟‘۔نئے دانت اُگنے کا انتظار ہم کر سکتے ہیں اگرسرکاری یا غیر سرکاری اسکولوں میں اردو پڑھائی جانے لگے لیکن پڑھایا جانا تو دور کی بات ہے ’پی․سی․ایس‘․اور’ وکالت‘ کے امتحانوں سے اردوکا پرچہ ختم کر دیا گیا ہاں بی․یو․ایم․ایس․میں ابھی اردو باقی ہے ا س پر بھی نظرکرم گڑی ہو گی۔

یہ بات اپنی جگہ پر بالکل صحیح ہے محترم ملائم سنگھ جی اور ان کی پارٹی، کچھ الزامات کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی،دیگر پارٹیوں کی بہ نسبت، قدرے بہتر ہمدردی رکھتی ہے کیونک وہ سمجھتے ہیں کہ مسلم ووٹر ان سے جڑا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے۔پانچ سال حکومت کے انعام کے طور پراتنی مہربانی آپ کر دیں کہ اردو کو اسکول سے جوڑ دیں۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو اردو کا حال جیسا پہلے تھا آگے بھی ویسا ہی رہے گا۔

بہر حال حکومتیں آتی جاتی ہیں۔ہر پارٹی سبز باغ دکھاتی ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ اس بار کون سی پارٹی اردو کو اسکولوں تک لے جانے کی پہل کرتی ہے۔
Shamim Iqbal Khan
About the Author: Shamim Iqbal Khan Read More Articles by Shamim Iqbal Khan: 72 Articles with 66963 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.