ذی قار

حجاز ونجد کے عرب قبائل اور ایران کا معاملہ ایسا ہی ہے، جیسے ہمارے یہاں کے پختون قبائل اور ہندوستان ، ہندوستان ایک بہت بڑا اور وسیع وعریض جغرافیے اورتہذیب وتمدن کا ملک ہے ، بڑے بڑے لشکر ،قلعے اور عہد قدیم سے آج تک عظیم الشان بادشاہوں اور چھاؤنیوں پر مشتمل یہ سرزمین ان سب کچھ کے باوجود پاک افغان بارڈر پر آرپار بسنے والے قبائل کے سامنے ہمیشہ بے بس رہاہے ، غزنوی ،ابدالی ، درانی ، خلجی ، سوری کی تواریخ اور کشمیر میں سدوزئی قبیلے کی آبادکاری یہی بتاتی ہیں ، کچھ ایسی ہی صورت حال فارس وعرب کی ہے ،قرآن کریم کی سورہ روم کی شان نزول جس فارسی رومی جنگ کے متعلق ہے ، اس میں بھی جنگ کے دونوں فریقین نے عرب کے قبائل کو ساتھ دینے کی درخواستیں کی تھیں ، فارس نے اپنے طورپر اورروم نے اپنے طور پر ،مگر عرب قبائل نے غیر جانب داری کا فیصلہ کیا تھا، روم نے اس جنگ میں میدانِ ’’ أذرعات‘‘میں شکست کھائی تھی ، پھر بھی روم کو عربوں پر اتنا غصہ نہیں آیا ،جتنے اہل فارس اُن پرسیخ پاہوئے تھے ، کیونکہ وہ ایک دور دراز یورپی ملک اٹلی کے رہنے والےتھے ، شام جس میں فلسطین ،اردن ، سوریااور لبنان واسرائیل واقع ہیں، میں وہ قابضین تھے، اصلاً تویہ عربوں کے علاقے تھے ، بالکل ایساہی جیسے ہندوستان پر انگریز قابض تھا، حکومت انگریز کی تھی ، مگر عوام ہندوستانی تھے ، فارس چونکہ قریب ترین اور پڑوسی ملک تھا ، عرب علاقے اہواز اور عراق ویمن میں اس کا ہمیشہ کچھ نہ کچھ عمل دخل رہتاتھا، نیز ایرانی شہزادے تخت شاہی کے استحقاق کیلئے عرب قبائل کے یہاں حرب وضرب کے فنون سیکھنے کیلئے جاتے تھے ،باہمی تجارت بھی تھی، تہذیب وثقافت میں بھی قربت تھی، زبان وادب میں بھی بمقابلہ رومیوں کی نسبتیں زیادہ تھیں ، عرب کے ‘‘ مناذرہ ’’ اور ایران کے ساسانی سرکاری تقریبات میں ایک دوسرے کو مدعو کرتے تھے، اور سب سے بڑھ کر فارس میں مجوسیت ، آتش پرستی ،نجوم پرستی اور ثنویت کا عقیدہ تھا ، تو عرب بھی مشرک تھے ، سمندر میں بھی خلیج عرب ، بحرعُمان اور بحر عرب میں بھی گویا ایک قسم کا مشارکہ تھا، پھر ایرانی روم کو شکست دے کر کچھ زیادہ ہی گھمنڈ میں آگئے تھے، اس لئے ایرانی بادشاہ نےعربوں کے قبائلی برائے نام بادشاہ نعمان بن منذر کے خلاف وقتاً فوقتاً بہانے ڈھونڈنے شروع کردیئے ، مثلاً (الف ) تم نےرومیوں کے خلاف جنگ میں ہمارا ساتھ کیوں نہیں دیا، (ب) مجھے ایک عمدہ اور بے مثال عربی گھوڑا بھیجیں ، (ج) تمھاری صاحبزادی کے حسن کے چرچے ہیں ، وہ ہماری ازدواجیت میں دیدیں ۔

یادرہے عراق ایران سرحدپر العبّادی ، عرب قبیلہ نعمان بن منذر کا مخالف تھا،جن کے سردار کو بن منذر نے ایک بغاوت میں قتل کردیاتھا، آج کے عراقی وزیر اعظم ڈاکٹر حیدرالعبادی بھی اسی قبیلے کے چشم وچراٖغ ہیں، اس زمانے کے العبادی قبیلے کے کچھ لوگ مثلا زید بن عدی العبادی ،اور عمرو بن عدی العبادی کسری کو نعمان بن منذر اور ان کے تائید کنندہ قبائل جیسے بنوبکر ،بنو شیبان اور بنو ذہل وغیرہ کے خلاف اُکساتے بھی رہتے تھے ، بہرحال جب نعمان نے بیٹی دینے سے انکار کردیا ، تو شاہ ایران خسروپرویز بن ہر مز نے ان قبائل اور ان کے بادشاہ نعمان کے خلاف جنگ کی تیاریاں شروع کردیں ۔۔نعمان نے اپنے بال بچوں، تقریباً 800 زرہوں وگھوڑوں اور مال متاع کوبنی بکر وشیبان کے پاس رکھوایا، اور تحفے تحائف لے کر اپنی قوم کو جنگ کے مصائب سے بچانے کیلئے عذر معذرت کرنے کسری پرویز کے پاس پہنچ گیا، جس پر اس نے حماقت کرکے پہلے اسے قید کردیا ،پھر قتل بھی کردیا اور اعلان جنگ کرتے ہوئے بلاد عرب کی طرف بڑھنے لگا ، ادھر بنوشیبان کے پاس ابوبکر صدیقؓ آپ ﷺ کا پیغام لےکر آگئے تھے اور یہ درخواست کی تھی، کہ ہمیں مکے سے آپ کی طرف ہجرت کرنی ہے ، ہمارا ساتھ دو ، انہوں نے کہا کہ ہم اہل فارس کے ساتھ جنگ کرنے جارہے ہیں ، اس سے فارغ ہوجائیں ، اور اندازہ ہوجائے کہ ہوتا کیا ہے ، تو پھر آپ کے معاملے پر غور کرینگے ، بہر کیف خسروپرویز نے بھی اپنے حلیف عرب قبائل کو ساتھ دینے کیلئے مدعو کیا، اور بنوشیبان ،بنوبکر ، اور بنو طے نے بھی تمام عرب علاقوں اور قبیلوں میں اپنے آدمی بھیجے ، چنانچہ دونوں طرف موجودہ کو فہ شہر،نجف اور کربلا جو پہلے ایک بے آب وبیاہ ریگستان تھے، کے قریب بنوبکر اور بنو شیبان نے میدان‘‘ ذی قار’’ میں پڑاؤ ڈال دیئے ، جہاں تک ایرانی عساکر بھی آکر مجتمع ہوگئیں تھیں، عرب قبائل نے اپنے لئے پانی کا بندوبست پہلے سے بڑی مقدار میں تقریباً ایک ماہ کیلئے کردیاتھا، صفیں آمنے سامنے ہوگئیں،ایرانی لشکر میں سے ایک ‘‘ سورما’’ نے آگے بڑھ کر مبارزت کیلئے نعرہ لگایا، ایک دیہاتی عرب اس کے مقابلے میں کودا اور ایک ہی وار میں اس کو ماردیا، جس پر نہ صرف کمانڈروں کو بلکہ خود شہنشاہ خسروپرویز کو ناز تھا، پھر کیا تھا،طبل و بگل بجائے گئے اور گھمسان کی جنگ شروع ہوئی ، شام کو اندھیرا چھاجانے تک دونوں لشکروں سے ہزاروں لڑاکا جوان مارے گئے ، ہزاروں زخمی ہوئے ، اور اگلے دن طلوع ِآفتاب پر دوبارہ میدان سجانے کے اعلانات ہوئے ، تو عربوں نے دشمن کے لشکر میں حلیف عرب قبائل سے راتوں رات رابطہ کیا، کہ تم ہمارا ساتھ دو ، ہمارا پلہ بھاری ہے ، ان کو بھی پتہ چل گیاتھاکہ قبائل کاجنگی وزن زیادہ ہے ،انہوں نے کہاکہ کل عین جنگ میں ہم بھاگنا شروع کردینگے ،تو فارسیوں کا لشکر حواس باختہ ہوکر تتر بتر ہوجائے گا ، چنانچہ اگلے دن منصوبے کے مطابق ایرانیوں کے حلیف عرب قبائل نے فرار کا راستہ اختیار کیا، تو لشکر فارس میں ایسی مردنی چھاگئی کہ عرب قبائل اگلے دودن تک اُن کا پیچھا کر تے ہوئےدن رات صرف انکی گردن زدنی میں لگے رہے ، خسروپرویز بھاگ گیا، اور دیگر تمام بڑے کمانڈر مارے گئے ، لاشوں کے ڈھیر لگ گئے ، زخمی بھی تیمارداری نہ ہونے کی وجہ سے موت کے گھاٹ اتر گئے ، چہاردانگ عالم میں فارسیوں کی شکست اور عرب قبائل کی فتح کی خبریں گونجنے لگیں ، 609عیسوی کی یہ تاریخی جنگ ’’ذی قار ‘‘ سے مشہور ومعروف ہے ، اس کے کچھ ہی سالوں بعد قرآن کریم کی پیشین گوئی کے مطابق روم نے حملہ کرکے ایران کی رہی سہی طاقت بھی تہس نہس کردی۔
اتفاق سےروم کی یہ فتح اور بدر کے مقام پر مسلمانوں کی فتح تقریباً ایک ہی دن کے واقعات ہیں۔تفصیل کے لئے مسلسل ذی قار اور مسلسل زیر سالم دیکھیئے۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 814111 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More