لاہور تا ملتان کا سفر اور اذیتوں کی لمبی داستان

زندگی میں بہت کم بذریعہ جی ٹی روڈ لاہور تا ملتان سفر کرنے کااتفاق ہوا ۔ سنتے ضرور تھے کہ جی ٹی روڈ کو اعلی معیار کی حامل موٹروے بنا دیا گیاہے۔گزشتہ بھتیجے کی بارات کے ساتھ ملتان جانے کا اتفاق ہوا تو جہاں یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ موٹروے پولیس نے اپنی خوش اخلاقی اور فرض شناسی کی بدولت خدمت کا اعلی معیار قائم کررکھا ہے۔ راہنمائی بورڈ بھی قابل رشک ہے ۔وہاں جی ٹی روڈ کی خستہ حالی دیکھ کر سخت اذیت ہوئی ۔ 370کلو میٹر پر مشتمل اس نام نہاد موٹروے کا شاید ہی کوئی حصہ سلامت ہو وگرنہ ہر جگہ ٹوٹ پھوٹ اور خستہ حالی دکھائی دی۔اس اعتبار سے اسے موٹروے کہنا بھی موٹروے کی توہین ہے۔ دوران سفر اچھل کود کی صورت میں جو تکلیف اٹھانی پڑی وہ تو الگ داستان ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ نقصان ٹائرپھٹنے اور انجن کی خرابی کی صورت میں ٹرانسپورٹروں کو برداشت کرنا پڑتا ہے ۔ جب بھی پینے کے لیے گلاس اٹھایا تو جھٹکوں کی وجہ سے آدھے سے زیادہ پانی دامن پر گرگیا۔جی ٹی روڈ کے دس دس کلومیٹر کے حصے پر نہ جانے کب سے کام شروع ہے اور کب تک مکمل ہوگاکوئی پتہ نہیں ۔ یہ وہ شاہراہ ہے جس پر روزانہ لاکھوں گاڑیاں گزرتی ہیں یہاں گزرنے والوں کو جو تکلیف اذیت اورتکلیف اٹھانی پڑتی ہے اس کا الفاظ ذکر ممکن نہیں ہے ۔اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ نصف سے زیادہ جی ٹی روڈانتہائی خراب حالت میں ہے۔ پھرہر پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر ٹول پلازہ موجود ہے جہاں ہر گزرنے والی چھوٹی بڑی گاڑی سے بھتہ وصول کیا جاتا ہے۔ ہم جس کوچ میں سفر کررہے تھے اسے لاہور سے ملتان تک 1200 روپے ٹول پلازہ کو ادا کرنے پڑے جبکہ جی ٹی روڈ پر روزانہ گزرنے والی گاڑیوں کی تعداد 10لاکھ سے کم نہیں ہوگی۔ اس طرح صرف 24گھنٹوں میں9 کروڑ روپے جبکہ مہینے بعد یہی رقم 3 ار ب36 روپے بنتی ہے ایک سال میں 37 ارب سے تجاوز کرجاتی ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک بار جی ٹی روڈ کو تعمیر کرنے والا ادارہ مناسب دیکھ بھال اور دوبارہ تعمیر کرنا ہی بھول گیا ہے ۔ بھاری ٹریلر اور کینٹینروں کی آمد و رفت کی بنا پر دونوں سڑک کا مخصوص حصہ بیٹھ گیا ہے اور سڑک کی سطح ناہموار ہوچکی ہے۔

اسی طرح جی ٹی روڈ کے درمیان میں جوپندرہ سے بیس فٹ جگہ( گرین بلٹ) خالی چھوڑی گئی تھی اس پر پہلے سبز گھاس ٗ پھولوں کے پودے اور خوش نما جھاڑیاں لگائی گئی تھیں وہ گرین بلٹ بھی عدم توجہ کے باعث کھنڈر کا روپ دھار چکی ہے۔ اگر یہی درمیانی جگہ بے روزگار نوجوانوں کو مفت پٹے پر نرسرسیاں بنانے کے لیے دے دی جائے تو اس سے نہ صرف ماحول کی خوشگواری میں اضافہ ہوگا بلکہ پھول اور پودے برآمد کرکے بھاری زرمبادلہ بھی کمایا جاسکتا ہے ۔ نرسرسیوں کی افزائش کا یہی کام ریلوے ٹریک کے دونوں جانب خالی پڑی ہوئی وسیع و عریض اراضی پر بھی انجام دیاجاسکتا ہے نہ جانے انتظامی اداروں اور حکمرانوں کی توجہ اس جانب مبذول کیوں نہیں ہوتی ۔پھر راستے میں پھو ل نگر ٗ پتوکی ٗ رینالہ خورد خورد ٗ اوکاڑہ ٗ ساہیوال ٗ چیچہ وطنی ٗ کسووال ٗ کچا کھو ہ ٗ میاں چنوں ٗ خانیوال حتی کہ جتنے بھی چھوٹے بڑے شہرآئے سب کوڑا کرکٹ ٗ غلالت کے ڈھیر اور بے ترتیب ٹریفک میں لتھڑے دکھائی دیئے ۔ اس کے باوجود کہ بائی پاس شہر سے باہر بنائے گئے ہیں لیکن انتظامی نااہلی کی بنا پر بے ترتیب انسانی آبادی نے بائی پاس کو بھی گھیر لیا ہے ۔ ہر ڈویژن ٗ ضلع ٗ تحصیل اور سب تحصیل میں درجنوں انتظامی افسران کی فوج ظفر موج تو موجود ہے لیکن کوئی ایک بھی اپنے شہر کو صاف رکھنے ٗ خوبصورت بنانے ٗ ٹریفک کے الجھاؤ کو ختم کرنے میں دلچسپی نہیں لیتا ۔ گندگی ٗ ماحولیاتی آلودگی اورتجاوزات نے ہر شہرکو گھیر رکھا ہے ۔ اگرزیر اعظم وزیر مواصلات اور وزیر اعلی کسی کو بتائے بغیر لاہور تا ملتان جی ٹی روڈ سفر کریں تو اس کی بدترین حالت دیکھ کر اپنا سر پکڑ لیں۔ ہم صبح چھ بجے لاہور سے نکلے اور رات کے پچھلے پہرچار بجے اس حالت میں واپس پہنچے کہ چلنے پھرنے سے بھی قاصر تھے ۔ایک بات نے یقینا مجھے متاثر کیا اور بات یہ ہے کہ موٹر وے پولیس کی گاڑیاں رات کے آخری پہر تک بھی مستعد ٗ متحرک دکھائی دیں ۔یہی وجہ ہے کہ چوروں ڈاکووں اور لیٹروں کے خوف سے بے نیاز لوگ سائیکل موٹرسائیکلوں اور گاڑیوں پر رواں دواں تھے ۔ انہیں اس طرح خوف بغیر رات کے کسی بھی پہر سفر کرتے ہوئے دیکھ کر یہ محسوس نہیں ہوتا تھا کہ کیا یہ وہی پاکستان ہے جہاں دن اور رات لیٹروں کا راج شروع ہوجاتا ہے جہاں سیکورٹی کے بغیر کچھ بھی نہیں کیاجاسکتا ۔ جن لوگوں نے جی ٹی روڈ پر پٹرول پمپ ٗ روایتی ہوٹل ٗ ٹک شاپس ٗ مسجد ٗ بیت الخلا بنا ئے وہ بہت فائدے مندہیں ۔چاندنی رات میں خستہ حال جی ٹی روڈ پر چلنے والی کوچزکے تکلیف دہ سفر نے پریشان تو کیے رکھا ۔ لیکن نیندکتنی ہی بار ہمیں اپنی آغوش میں لیتی رہی -

جب کوچز کے تمام مسافر سو رہے ایک مستعد ڈرائیور ہم سب کے زندگی کو حادثات سے بچاتا ہو ا نہ جانے کس طرح کوچ چلارہا تھا یہ بھی بتاتا چلوں کہ وہ گزشتہ 24گھنٹوں سے ڈرائیونگ سیٹ پر تھا ۔ نہ جانے اس نے کیسے اپنی نیند پر قابو پائے رکھا وگرنہ نیند تو سولی پر بھی آ جاتی ہے۔ ٹرانسپورٹر اور انتظامی اداروں کو یہ بات بطور خاص ملحوظ خاطر رکھنی چاہیئے کہ کسی بھی گاڑی کے ڈرائیور سے آٹھ گھنٹے سے زائد ڈیوٹی نہ لی جائے حادثات کی بنیادی وجہ یہی غیر معمولی ڈیوٹی کے اوقات کار ہیں۔ رات بارہ بجے جب ہماری کوچ اوکاڑہ سے آگے کچھ فاصلے بنے ہوئے ایک دیہاتی نماہوٹل پر رکھی تو وہاں چارپائیوں پر بیٹھ کر بہت سارے مرد وزن کو بے خوف کھانا کھاتے دیکھا جبکہ اردگرد کا ماحول رات کے اندھیرے میں ڈوبا تھا۔وہ سفر جو موٹروے پر صرف تین گھنٹے میں ہوسکتا تھا وہی سفر بدترین ٹوٹی پھوٹی جی ٹی روڈ پر 8گھنٹے میں اس طرح ختم ہو ا کہ جسم کا کوئی حصہ درد سے محفوظ نہیں تھا کچھ باراتیوں کے پاؤں سوجھ گئے کسی کو بلڈ پریشر تو کسی کو شوگر نے پریشان کردیاطویل ترین اور بدترین سفر نے ہر شخص کو تکلیف میں مبتلا کررکھا تھا۔خدا کا شکر ادا کیا کہ ہمیں تو صرف ایک ہی بار ملتان جانا پڑا لیکن اس دولھے پر کیا گزرے گی جس کو پوری زندگی ملتان کے چکر لگانے پڑیں گے۔ بدترین ماحول ٗ جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیروں ٗٹریفک کے الجھاؤ کی بنا پر ملتان شہر بھی انتظامیہ کی نااہلی کا اظہار بنا ہوا تھا ۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 652770 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.