گھسیٹا بیابانی

اپنی حیات رائیگاں میں مے ،خم و ساغر اور شباب سے جی بہلانے اور چُلّو میں اُلّوبن کر ہنہنانے والا عادی دروغ گو، چربہ ساز،سارق ،کفن دُزد متشاعر گھسیٹا بیابانی کے نہ ہونے کی ہونی سن کر ہر چہرہ کِھل اُٹھا۔جب دُکھی انسانیت کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تواِس درندے کاپیمانہ ء عمر گزشتہ شب بھر گیا اور وہ زینہء ہستی سے اُتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گیا ۔ یہ ابلیس نژاد درندہ زیرِ زمین گیا تو دھرتی کا ناقابل برداشت بوجھ بھی اُتار گیا ۔ شہرِ شب کے ایوانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور وادیء تخیل کی فضائے بسیط خس کم جہاں پاک کی مسحورکن لے سے گونج اُٹھی ۔ گھسیٹا بیابانی مسلسل نوے برس اس دھرتی پر چلتا رہا اور اہلِ در دکی چھاتی پر مونگ دلتا رہا ۔اپنے مے کدہ ء دِل میں اُمنگوں اور تمناؤں کے ساغر لیے یہ خسیس متفنی اپنے ہم سبو ساتا روہن کی جستجو میں زندگی بھر یاس و حرماں نصیبی سے نڈھال،پائمال اور خوار و زبوں رہا ،مگر بے غیرتی ،بے حسی اور بے ضمیری کی تصویر بنا یہ چکنا گھڑا ایسا تھوتھا چنا تھا جو ہمیشہ گھنا با جتا تھا ۔آخر کار وہ گھڑی آ پہنچی جب نگارِ غم و آلام ہی اس کے لیے شمع رو بن گئے ۔ اہلِ جور ،ظالم اور لٹیرے اس ابلہ کو کٹھ پُتلی بنا کر اپنے مذموم مقاصدکے لیے استعمال کرنے کے بعد اسے عفونت زدہ ٹشو پیپر کی طرح کُوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیتے تھے۔ لکھنو کے یہ بھٹیارے اور دادا گیرطویل عرصے سے اس علاقے میں ذلت اور تخریب کے غیر مختتم سلسلوں کے اسیرتھے۔ ان جہلا کی زندگی کے حالات پر صدیوں کے تحیر کی جو گرد پڑ گئی تھی اس کے باعث مظلوم انسانیت دوبِ مژگاں پر سر ِ صبح غزالِ اشک کی آہٹ محسوس کر کے تڑپ اُٹھتی تھی ۔ سو پُشت سے اس کے آبا کا تو گھاس کا ٹنے پر مدار تھا لیکن بر صغیر میں مغلوں کے زوال کے بعد چڑھتے سورج کی پرستش کرنے والے اور بہتی گنگا میں ہاتھ دھو کر اپنا اُلّو سیدھا کرنے والے یہ ابن الوقت اور عیار بھیڑئیے برطانوی استعمار کے کٹھ پُتلی بن کر اُن کے سامنے دُم ہلاتے اور حسبِ آرزواپنے غیر مُلکی آقاؤں کے کُتے گھسیٹا کرتے تھے۔ اسی گورکھ دھندے کی وجہ سے اس خاندان کو گھسیٹا خاندان کے نام سے پہچانا جاتا تھا ۔ علم نفسیات کے ماہرین کا خیال ہے کہ عرف یا پیشہ کسی بھی فرد کی شخصیت پر دور رس اثرات مرتب کرتا ہے۔ہر معاملے میں اپنی ذات کو گھسیٹ کر لانا اس شخص کا وتیرہ بن گیا تھا۔ ا س کے مشکوک نسب میں جو نام تاریخ کا عبرت ناک حوالہ بن گئے ،ان میں نعمت خان کلانونت،شیدی فو لاد کوتوال،لا ل کنور،زہرہ کنجڑن اور بسنت خان خواجہ سرا شامل ہیں۔گھسیٹا بیابانی اس بات پر نہایٹ ڈھٹائی سے اصرار کرتا تھا کہ بسنت خان خواجہ سرا اس کا پردادا تھا۔میر جعفر اور میر صادق کے ساتھ ان کے نہایت گہرے خاندانی مراسم تھے۔ ان کے بزرگ ساداتِ بارہہ کے حلقہ بگوش تھے اور حسین علی اور حسن علی کے ساتھ انھوں نے جو عہدِ وفا استوار کیا،اسی کو علاجِ گردشِ لیل و نہارسمجھا۔

اپنے وطن،اہلِ وطن اور انسانیت سے بیزاری،مظلوم اور قسمت سے محروم طبقے کی دِل آزاری اور بے بس و لاچار محنت کشوں کے ساتھ شقاوت آمیز نا انصافیاں اور غیظ وغضب اس کے رگ و پے میں سرایت کر گیا تھا۔گھسیٹا بیابانی کے بارے میں یہ بات زبان زدِ عام تھی کہ یہ نا ہنجار جس تھالی میں کھاتا اسی میں چھید کرتا،جس شاخ ِ ثمر دار پر اس کا آشیانہ ہوتا اسی کو کاٹنے کے درپئے رہتا،وہ نخلِ بلند جو خود کڑی دھوپ میں جل کر اسے آلامِ روزگار کی تمازت سے محفو ظ رکھتا ،یہ بد اندیش اسی کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں انہماک کا مظاہرہ کرتا تھا ۔بر صغیر میں 1857کے سانحہ کے بعد گھسیٹا بیابانی کے خاندان نے انگریزوں کا کُھل کر ساتھ دیااور اس غداری اور ضمیر فروشی کے بدلے مفادات ،مراعات اور زرو مال بٹورنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔اپنے انگریز آقاؤں کے سامنے دُم ہلانااور ان ظالموں کی بھونڈی نقالی کرنا اس متفنی کی سرشت بن گئی تھی۔اس نے زندگی بھر پاجامہ ،کُرتا ،شیروانی،دھوتی اور ٹوپی کو کبھی پسند نہ کیا۔اس کے بر عکس یہ لُنڈا بازار سے انگریزوں کی اُترن جس میں پتلون،قمیص ،کوٹ ،نکٹائی ،بُوٹ اور جرابیں شامل تھیں انتہائی کم قیمت پر خرید کر لاتا اور شہر کی مصروف شاہراہوں پر اپنی بے کار زندگی کے شب و روز آوارہ گردی میں بسر کرتا۔اس کی مٹر گشت کا مقصد وادیء خیال کو مستانہ وار طے کر کے خُو باں سے چھیڑچھاڑ جاری رکھنا تھا۔اپنی کور مغزی،بے بصری ،ذہنی افلاس اور علمی تہی دامنی کے باعث گھسیٹا بیابانی پرائمری تعلیم کے آگے نہ پڑھ سکا۔اس نے ہر جماعت میں ہر مضمون میں ہمیشہ صفر نمبر حاصل کیے ۔جماعت پنجم کے سالانہ امتحان میں ایک ممتحن نے گھسیٹا بیابانی کو صرف دو نمبر دے کر فیل کیا تو گھسیٹا بیابانی باؤلے کتے کی طرح غراتا ہوا اپنے استاد سے مخاطب ہوا:
’’میں کوئی دو نمبر تو ہوں نہیں کہ مجھے دو نمبر دے کر میری توہین و تذلیل کی جائے۔ہر امتحان میں صفر نمبر لینا تو میرے لیے قابلِ برداشت ہے لیکن میں کسی بھی امتحان میں دو نمبر لینا پسند نہیں کرتا ۔جب میں خو دکو صفر تسلیم کر تا ہوں تو مجھے دو نمبر کہنا میرے ساتھ ظلم ہے۔‘‘

حُسن و رومان اور جنسی جنون کا ہذیان گھسیٹا بیابانی کو لے ڈُوبا۔ہوسِ زر،جلبِ منفعت،منشیات کی لعنت اور محبت کی نفرت و حقارت اس کے گلے کا ہار بن گئی۔زندگی کے آخری ایام میں جب اس کے ہاتھوں پر رعشہ کے باعث لرزہ طاری تھا،اس کی کر گسی آنکھوں میں اتنا دم تھا کہ وہ ہر مہ جبیں حسینہ کو للچائی ہوئی ملتجیانہ نگاہوں سے دیکھتا ۔جب کوئی حسینہ اس کی طرف حقارت سے مُڑ کر دیکھتی تو اس کے منہہ میں پانی بھر آتا اوریہ جنونی مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے رفعت سلطان کا یہ شعر بلند آوازسے پڑھ کر اپنی باطنی خباثت اور ظاہری نجاست کا اظہار کرتا ہے :
اک نظر مُڑ کے دیکھنے والے
کیا یہ خیرات پھر نہیں ہو گی

ذلت ،تخریب،بے حسی،بے غیرتی ،بے ضمیری اور بے حیائی گھسیٹا بیابانی کی گُھٹی میں پڑی تھی۔ بچپن ہی سے اس کے سر میں یہ خناس سما گیا تھا کہ وہ اپنے عہد کا بڑا تخلیق کار ہے ۔ بے سرو پا یاوہ گوئی ،حاشیہ آرائی اور مہمل قافیہ پیمائی کا اسے خبط تھا ۔ علم و ادب کو تختہء مشق بناتے ہوئے اپنی جسارت ِ سار قانہ سے اس رُجحان شکن شُوم اور پیمان شکن بُوم نے وہ گُل کھلائے کہ کہ قارئینِ ادب آج تک اس کی چربہ سازیوں اور ادبی قلابازیوں پر انگشت بدندان اور سر بہ گریباں ہیں۔ اس جعل سازنے ہر صنفِ ادب میں منہہ مارا او ر سدا ا پنے منہہ میاں مٹھو بننے کی سعیء رائیگاں میں مصروف رہا مگر اہلِ ذوق نے ہمیشہ اسے خوب دھتکارا اور ادبی محفلوں میں اسے دانستہ نظر انداز کر کے اس سے چھٹکارا حاصل کر لیا ۔ اس کی تصانیف جو اس کے سہوِ قلم کا منہہ کھولتا ثبوت ہیں انھیں پشتارہ ء اغلاط قرار دے کر مسترد کر دیا گیا۔اپنی جعل سازی، سرقوں،خود نمائی کے حربوں اور چربوں سے گھسیٹا بیابانی نے ادب کو تہی دامنی ،فکری کجی ،ذہنی عسرت اور ژولیدہ خیالی کی بھینٹ چڑھا کر مفلس و قلاش کرنے کی مذموم کوششیں زندگی بھر جاری رکھیں ۔اس کی یبوست زدہ تصانیف جہاں اس کی ژولیدہ خیالی کی مظہر ہیں وہاں یہ اس کے لیے جگ ہنسائی کا باعث بھی بن گئیں۔ خرِ ایام اور اسپ ِاوہام کے سموں کی گرد میں اوجھل ان تصانیف میں زاغ و زغن ہم سفر میرے (یاد نگاری)،کھنڈرات سے حشرات تک (آثار قدیمہ) نہ کفش نہ تازیانہ (تقاریر)،شِپر کی اُڑان(شاعری)،تارِ عنکبوت(فلسفہ)، کھچا کھچ (ظرافت)،جہانِ کرگس(تاریخ)،ہستی اپنی عذاب کی سی ہے(خود نوشت)، چربی ،چربہ اور چربیلی (لسانیات)جغادری چُغد (شکاریات)،بُوم اور شُوم (ذاتی مکاتیب)،اے حرص کہیں لے چل(سفر نامے )، خِست و خجالت (رابطے)،سراب اور سیراب(تحقیق و تنقید ) ،امرود سے نمرود تک (باغبانی)، انگارہء خاکی کا ہُنگارہ ء چاکی (سدا خزاں نغمے)کثافتیں کیا کیا (انٹرویو) اور فسانہء اِبتلا(افسانے )شامل ہیں۔

گھسیٹا بیابانی تو اپنی تلخ اور متعفن یادیں چھوڑ کر منوں مٹی میں سما گیا لیکن اس خر کی پیدا کردہ آفات اور خرافات میں خرابی کی جو صورت مضمر ہے اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے بارے میں یہ تاثر عام تھا کہ اس نے کالے جادو سے اپنا منہہ کالا کر رکھا ہے اور سفلی علم کے ذریعے مُردوں سے ہم کلام ہونے میں اسے مہارت حاصل ہے۔ اس کی زندگی میں مو ت نے ہمیشہ اپنے مسموم رنگ بکھیرے ہیں یہی وجہ ہے کہ اس کے ہاں مُردوں کے سدا سے پھیرے ہیں۔اپنی ہلاکت سے چھے ماہ پہلے قاسم خان کے ہاں ایک ادبی تقریب میں وہ مو جود تھا ۔اس کرب ناک محفل میں گھسیٹابیابانی نے اپنے ایام گزشتہ کی کتاب کے اوراقِ پارینہ کی ورق گردانی کرتے ہوئے کئی مافوق الفطرت باتوں کی جانب متوجہ کرتے ہوئے کہا :
’’کل شام میرے آبا و اجداد میرے گھر آئے اور کئی صدیوں کے واقعات اور اپنی آپ بیتی مجھے سنائی۔اگرچہ ان سب کو اس جہان سے گزرے کئی صدیاں بیت چُکی ہیں لیکن وہ آج بھی حالات پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں ۔ہمارے شب و روز کے معمولات ان سے پو شیدہ نہیں بل کہ وہ تو ہمارے درمیان اب بھی موجود ہیں ۔‘‘
قاسم خان نے حیرت سے پوچھا ’’تمھارے آبا و اجداد جنھیں اس دنیا سے رخصت ہوئے صدیاں بیت چُکی ہیں کس طرح تمھیں ملنے آ جاتے ہیں؟ مرنے کے بعد ان کے جسم ملخ و مور کے جبڑوں میں ہوتے ہیں۔ اب تک تو ان کی ہڈیاں بھی خاک ہو چُکی ہو گی ۔وہ کیسے تمھیں اپنے اپنے غم کا فسانہ حرف حرف بیان کرتے ہیں؟‘‘

’’ اس کے لیے بڑی تپسیا کی ضرورت ہے ۔‘‘گھسیٹا بیابانی نے اپنی کٹی ہوئی ناک میں اُنگلی ٹھونستے ہوئے کہا ’’میری تصانیف کی باز گشت ہر زاویہ سے ہاویہ میں جا پہنچتی ہے ۔ اس دنیا کے دوزخ میں جلتے جلتے میرے نالے جب سر کھینچتے ہیں تومیرے دل اور جاں سے دھواں اُٹھتا ہے ، میرے نالے جب راہ نہیں پاتے تو اس قدر سر چڑھ جاتے ہیں کہ آفاق سے ان نالوں کی باز گشت سنائی دیتی ہے اور آسماں سے بھی اک شور سا اُٹھتا ہے ۔اس وقت جہنم میں مقیم میرے ہم زباں اور غم خوار میری خبر گیری کو یہاں آ پہنچتے ہیں ۔پھر جب ہم سب رازداں مل بیٹھتے ہیں تو خُو ب گزرتی ہے ۔اس دنیا کے جہنم میں جلنے والوں کا اگلے جہان کے دوزخ میں عذاب سہنے والوں کے ساتھ درد کا گہرا رشتہ ہے ۔اس درد کے رشتے کو نبھانے کی خاطر میرے آبا و اجداد اور میرے غم گسار میرے نام پہ ہاویہ سے یہاں کھنچے چلے آتے ہیں ۔‘‘

’’تعجب ہے کہ دائمی مفارقت دینے والے تم سے ملنے کی خاطرتمھاری ایک پُکار پر کچے دھاگے سے کھنچے چلے آتے ہیں ۔‘‘قاسم خان نے کہا’’کیا مرنے والے تم سے ملنے کے لیے خود آتے ہیں یا تم انھیں اپنے پاس بُلانے کے لیے چلہ کشی مدام کرتے ہو ؟‘‘

’’گھسیٹا بیابانی پر جو صدمے گزرتے ہیں وہ سنگلاخ چٹانوں میں شگاف ڈال دیتے ہیں اور جامد و ساکت پتھروں کو بھی موم کر دیتے ہیں۔مرغ باد نما بھی میری آہ و فغاں سے تڑپ اُٹھتا ہے اور اسے کسی سمت کا اندازہ تک نہیں ہوتا ۔‘‘گھسیٹا بیابانی نے مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے کہا ’’میرا نالہ و فریا د گریہء شبنم سے مختلف ہے ،میری آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح بر ستی ہیں تو ہر طرف جل تھل ایک ہو جاتا ہے اور دریاؤں میں طُغیانی آ جاتی ہے۔یہ سیلِ رواں جب شہر خموشاں کا رخ کرتا ہے تو قبروں میں سے مردے دہائی دیتے ہوئے باہر نکل آتے ہیں اور مجھ سے دل کھول کر باتیں کرتے ہیں ۔‘‘

’’ مُردوں کے ساتھ جب تمھاری گفتگو ہوتی ہے تو اور کون لوگ اس مکالمے میں شامل ہوتے ہیں ؟‘‘ قاسم خان نے حیرت سے کہا’’تمھارے ملاقاتی مُردوں کا پسندیدہ موضوع گفتگو کیا ہے؟‘‘

’’یہ تو بہت انوکھا اور کانٹے کی طرح پاؤں میں چُبھتا ہوا سوال ہے ،کئی سوال ایسے ہوتے ہیں جن کا جواب دینا بہت مشکل ہوتا ہے ،اس کے باوجود میں کوشش کروں گا کہ اس کا جواب دوں۔‘‘گھسیٹا بیابانی نے ٹسوے بہاتے ہوئے کہا’’جب میں مُردوں سے شرط باندھ کر سوتا ہوں تو خواب عدم سے چونک کر میرے پاس آ جاتے ہیں۔جب میں ان کے سامنے حالِ دل بیان کرتا ہوں تواس وقت قحبہ خانے میں میری چاروں بیویاں صبا،ظلو،شعاع اور تمناموجود ہوتی ہیں۔انھیں خرچی بٹورنے کے کاروبار شوق سے فرصت ہی نہیں ملتی کہ وہ میری ان سفلی مصروفیات کی طر ف توجہ دیں۔خود سوچو کہ ایک طوائف کے لیے مُردے کی کیا حیثیت ہے؟ہر طوائف زندہ ،توانا اور متمول مرد کو پسند کرتی ہے اور اسے جلد بیمار اور مفلس و قلاش کر کے موت کی دہلیز تک پہنچا دیتی ہے۔ اپنی زندگی کو رنگ ،خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعاروں سے مزین کرنے کی خاطر وہ ہر نوجوان کی زندگی کو بے رنگ کرنے میں کوئی تامل نہیں کرتی۔ کبھی کبھی رسوائے زمانہ مسخرے اور بھڑوے زاہدو لُدھڑ،رنگا،ناصفا،کرموں اور تارو بھی جب کوڑے کے ڈھیر سے مفادات کے استخواں نوچ کر فارغ ہوتے ہیں توادھر آ نکلتے ہیں۔کل شام میری دادی لال کنور مجھ سے ملنے آئی تھی۔ اس نے نیم عریاں لباس پہنا رکھا تھا اور اس کی چال کڑی کمان کے تیر کے مانند تھی۔ اس کے حسن کے جلوے دیکھ کرمیری آنکھیں کُھلی کی کُھلی رہ گئیں۔ اس ضعیف طوائف نے آنکھوں کے جھروکے سے جھانکتے ہوئے مجھے وہ کچوکے دئیے کہ اس کی باتیں سُن کر میرا پُورا جسم سُن ہو گیا لیکن اس بات پر ایک گونہ بے خودی سے سر شار ہوا کہ اس نے میری سُن گُن تو لی ہے ۔میں اس کی داستانِ حیات بڑی توجہ سے سُن رہا تھا :
لال کنور نے کہا ’’تمھاری چاروں بیویاں اگرچہ جسم فروش رذیل طوائفیں ہیں لیکن انھوں نے دولت کمانے کا جو پست اور احمقانہ معیار اپنا رکھا ہے وہ ہر پیشہ ور طوائف کے لیے باعث ننگ و عار ہے ۔میں بھی دہلی شہر کی ایک جسم فروش طوائف تھی مگر میں نے اپنے دھندے اور پھندے کو اس قدر وسعت دی کہ شہنشاہ ہند جہاں دار شاہ خود چل کر میرے کوٹھے پر آیا اور شرف ِباریابی کی درخواست کی ۔میرے حُسن کے جادو نے اسے مسحور کر دیا ، میرا رقص دیکھ کر اور میرے سُریلے گیت سُن کر وہ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا ۔ وہ دل کے ہاتھوں مجبور ہو گیا اس کے بعد اس نے مجھے ملکہء ہند بنا لیا اور مجھے امتیاز محل کا خطاب ملا ۔میری سہیلی زہرہ کنجڑن منتظر ملکہء ہند بنی اور میر اچچا زاد بھائی نعمت خان کلانونت ملتان کا صوبے دار مقرر ہوا ۔بادشاہ کو میں اُنگلیوں پر نچاتی تھی اور اس عہد کا ساراشاہی خزانہ ہمارے تصرف میں تھا۔ ہم نے بھی کوٹھے پر اپنے قحبہ خانے سجائے اور تماشائیوں کے دل موہ لیے مگر ایک فاصلہ اور حجاب رکھا ۔صرف ضرورت اور مجبوری کی خاطر کچھ حدیں عبور کیں لیکن آج کی جسم فروش رذیل طوائفوں نے تو اپنے بدن کو ہمہ وقت بے لبادہ کر کے لُٹیا ہی ڈبو دی ہے۔ ہم نے اپنے حسن کی جاذبیت اور شان دل ربائی کو بر قرار رکھا اس کے بر عکس آج کی طوائفیں اپنے ترکش کے سب تیر چلا کر تماشائیوں کو بیزار کر دیتی ہیں۔ آج کی طوائفیں میری گرد کو بھی نہیں پہنچتیں۔ ‘‘
کچھ حوصلہ پا کر گھسیٹا بیابانی نے لال کنور سے پُوچھا ’’تم نے بے بس و لاچار اور بے گناہ مسافروں سے بھری ہوئی کشتی دریائے جمنا میں ڈبو دینے کی احمقانہ تمنا کیوں کی؟‘‘
دوسروں کو دُکھ دے کر میں بہت سُکھ اور دلی خوشی محسوس کرتی تھی‘‘لال کنور نے اپنے منہہ سے بہتا ہوا خون اپنی آستین سے صاف کرتے ہوئے کہا’’لوگ مجھے آدم خور چڑیل کہتے تھے حالانکہ میں تو سادیت پسندی کے عارضے میں مبتلا تھی۔آج کون ہے جسے یہ جان لیوا روگ لاحق نہیں؟‘‘
’’لوگ کہتے ہیں کہ تم نے زہرہ کنجڑن سے مل کر دونوں ہاتھوں سے شاہی خزانہ لُوٹا۔‘‘گھسیٹا بیابانی نے کہا’’تمھاری اس لُوٹ مار اور خِست کی وجہ سے طوائفوں کو سخت خفت اور خجالت کا سامنا کر نا پڑا۔‘‘
’’اس حقیقت کو کبھی فراموش نہ کرنا کہ تاریخ کا ایک مسلسل عمل ہوا کرتا ہے ۔‘‘لال کنور نے اپنی باچھوں سے ٹپکنے والے خون کو اپنے دامن سے صاف کرتے ہوئے کہا’’میں نے اور زہرہ کنجڑن نے شاہی خزانے سے جو رقم لوٹی وہ تو اونٹ کے منہہ میں زیرے کے برابر ہے۔وہ رقم بھی اسی دھرتی میں خرچ ہوئی یاد رکھو ہماری ساری زندگی اسی دیس میں بسر ہوئی جہاں ہم نے جنم لیا تھا ،ہم نے اپنے دیس سے باہر کبھی اپنا دھندا نہیں کیا۔ اسی دیس میں رہ کر ستر سال تک ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کی ہمہ وقت بے لوث خدمت کی لیکن سر چھپانے کا اپناذاتی جھونپڑا تک نصیب نہ ہو سکا۔ اس دیس کی مٹی سے ہمیں رزق ملا اور جب موت نقارہ بجا تو اسی دھرتی کی خاک میں ہم سما گئے ۔تم نے آج کی بے عنان اور دھرتی کی رقوم کی بیرون ملک منتقلی کے جرم کا ارتکاب کرنے والی ایان کا نام نہیں سنا جس نے پانچ لاکھ ڈالر باہر لے جانے کی کوشش کی اور سمگلنگ کو روکنے پر مامور کسٹم کے عملے نے اسے حراست میں لے لیا۔ اس سے پہلے وہ اس نوعیت کے چالیس کامیاب غیر ملکی سفر کر چُکی تھی ۔ گلشنِ ہستی کی اس عندلیب کی طویل اُڑان کا اندازہ اس امر سے لگایاجا سکتا ہے کہ اس نے بائیس سال کی عمر میں اکتالیس غیر مُلکی کاروباری اور تفریحی سفر کیے۔ پندرہ مرتبہ دبئی کی سیر کے لیے گئی اور دبئی کی انتہائی مہنگی عمارت بُرج الخلیفہ میں ایک بڑا لگژری فلیٹ خریدا ۔ حیرت ہے زنداں میں بھی اس کے جنوں کی شورش نہیں گئی اور وہ حسبِ سابق فیشن اور نمود و نمائش میں مصروف ہے ۔ہماری لوٹ مار تو آج کے مقابلے میں آٹے میں نمک کی حیثیت رکھتی ہے۔آج کی حسیناؤں کی پُوری دُنیا میں شپرانہ جھپٹ پلٹ اور روباہی کو دیکھ کر ہم خود کو کنویں کی مینڈکیاں سمجھتی ہیں۔ہماری جسم فروشی ہمارے کس کام آئی، ہم الم نصیبوں نے اپنا منہہ کالا کر کے کتنا کالا دھن کمایا ہے ۔کیاپدی اور کیا پدی کا شوربا،ضمیر کے عوض ہم نے کبھی وطن اور اہلِ وطن کی عزت و ناموس کا سودا دیارِ غیر میں نہیں کیا۔مادر ِ وطن کی بدنامی کا باعث بننے والے ایسے لوگوں کے بارے میں یہ شعر میرے دلی جذبات کی ترجمانی کرتا ہے:
تہمت لگا کے ماں پہ جو دشمن سے داد لے
ایسے سخن فروش کو مر جانا چاہیے

یہ باتیں سن کر زہر ہ کنجڑن جو تر بوز کے کھوپے میں سرخ رنگ کا مشروب مااللحم اپنے حلق میں اُنڈیل رہی تھی اچانک دانت پیستے ہوئے ہرزہ سرا ہوئی’’میں نے زندگی بھر اپنا جسم اور تر بوز بیچنے کا سلسلہ جاری رکھا لیکن ضمیر کا سودا کرنے کا سوداکبھی میرے دماغ میں نہ سمایا ۔ یہیں رہ کر اپنی دھرتی کے مکینوں کی مقدور بھر خدمت مگر کبھی دساور کا رخ نہ کیا ۔ جن لوگوں کے جسم سے پسینے کے باعث عفونت اور سڑاند کے بھبھوکے اٹھتے تھے ان کی راہ میں بھی آنکھیں بچھائیں اور کبھی دیار غیر کے ان مکینوں کو لچائی نگاہوں سے نہ دیکھاجو معطرلباس پہنتے تھے اور جن کے بارے میں گمان تھاکہ ان کے پسینے سے عطر کی مہک آتی ہے ۔ ہمارے دور میں طوائف اپنا جسم تو بیچ سکتی تھی لیکن اپنی جنم بھومی کو وہ ماں سمجھتی تھی اورماں کو بیچنا مشکوک نسب کے درندوں کا وتیرہ سمجھا جاتا تھا۔ اب جو لرزہ خیز اور اعصاب شکن صورت ِ حال ہے اس کا سبب یہ ہے کہ زندگی کی قدروں کی پامالی معمول بن گیا ہے۔ ہم سے کیا ہو سکا ،ہم نے تو اپنے ہاتھوں سے اپنے پان کو چُونا اور کتھا لگایا اور اس کی گلوری کو دانتوں سے چبایا۔اب تو میری ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز دن دہاڑے عقل کے اندھے اور گانٹھ کے پُورے لوگوں کو لاکھوں کا چُو نا لگا تی ہیں ہر طرف دندناتی پھرتی ہیں۔‘‘

’’ 13 فروری1258 کوبغداد پر کوہِ ستم توڑنے والا طالع آزما ،مہم جُو اور سفاک حملہ آور ہلاکو خان آج مجھ سے ملنے آیا ‘‘ گھسیٹا بیابانی نے اپنے گدھے جیسے کان ہلاتے ہوئے اور کالی زبان چاٹتے ہوئے کہا ’’ہلاکو خان کے سفاک اور سپاٹ چہرے پر اطمینان کی جھلک موجود تھی۔لال کنور بھی ہلاکو خان کی مداح تھی،اسے دیکھ کر وہ خوشی جھوم اُٹھی۔‘‘

لال کنور نے اپنی تنی ہوئی گردن اور بنی ٹھنی ہوئی گردن مٹکاتے ہوئے کہا ’’یہ بات پتھر کی لکیر ہے کہ اپنے ضمیر کا گلا گھونٹ کر جو لوگ نو دولتیے بن جاتے ہیں وہ اس قدر حقیر اور بے توقیر ثابت ہو تے ہیں کہ ان کا سب ٹھاٹ پڑا رہ جاتا ہے اور وہ در بہ در اور خاک بہ سر ایام گزشتہ کی نوحہ خوانی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ جاہ و حشمت کے سفینے غرق ہو جاتے ہیں اور یہ کمینے بھکاری جب بھیک مانگتے ہیں تو انھیں وہ بھی نہیں ملتی۔‘‘

ہلاکوخان نے ایک کاسہ ء سر میں ما اللحم سہ آتشہ بھر رکھا تھا،وہ پلک جھپکتے میں اسے ڈکار گیا اس کے بعد اس نے اپنی آستین سے اپنے ہونٹ پُونچھے اورتلوار لہراتے ہوئے کہا ’’لال کنور نے جو کہا یہی سچ ہے کہ سیرِ جہاں کا حاصل حیرت و حسرت کے سوا کچھ بھی نہیں۔جب اس دنیا کے خرابے میں جنگ و جدال اور ہلاکت خیزیوں کے واقعات کے بارے میں مجھے معلوم ہوتا ہے تو ہاویہ میں بھی مجھے ایک گونہ سکون کا احساس ہوتا ہے کہ اس عالمِ آب و گِل میں بربادی ،تباہی اور بے رحمانہ قتل و غارت کا جو سلسلہ میں نے آٹھ سو سال پہلے شروع کیا تھا وہ اب تک پُوری قوت اور شدت کے ساتھ جاری ہے۔میرے پیروکار دنیا میں ہر جگہ موجود ہیں،یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ دنیا کی بڑی طاقتوں کے مطلق العنان حاکم میرے ہی خونخوار منشور کو عملی جامہ پہنا کر نہ صرف زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر کر کے آرزوؤں کا خوں کر رہے ہیں بل کہ بے بس و لاچار انسانیت کو خوار و زبوں کرنے میں اپنا قبیح کردار اداکررہے ہیں ۔میں ہر ظالم کی آنکھ کا تارا ہوں جب کہ میں ہر ڈرپوک کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہوں۔میرے ساتھ والہانہ محبت کرنے والوں اور قلبی وابستگی رکھنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔آج کے دور میں صر ف حکا م کے نام بدل رہے ہیں ورنہ کام سب میری طرح انجام دے رہے ہیں۔میں نے تو بغداد میں صرف دو لاکھ انسانوں کو بار ہستی سے سبکدوش کیا تھالیکن میرے پیروکاروں کی سفاکی سے آج یہ تعدا دکروڑں سے بڑ ھ گئی ہے۔ہاویہ میں مجھے اپنے ان سب پیروکاروں کا شدت سے انتظار ہے ۔جب وہ اس جہاں کے کارِ دراز سے فارغ ہو ں گے تو ہاویہ میں یہ میر ے ساتھ ہوں گے۔اکثر لوگوں کی رائے ہے کہ ہر کلب جو شقی القلب ہے اس کے قلب میں ہلاکو کی یاد چٹکیا ں لیتی ہے۔‘‘

’’ان ملاقاتیوں میں سے کسی نے کبھی تمھاری تخلیقات کے موضوع پر بھی گفتگو کی ہے ؟‘‘قاسم خان نے پُوچھا ’’مجھے تو یوں لگتا ہے کہ جسے تم عرض ِ ہنر کا نام دیتے ہو اس میں تمھیں خاک فائدہ نہیں ہوا۔‘‘
گھسیٹا بیابانی نے کہا’’ میں ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہ کر تخلیقِ ادب پر مائل ہوں ، مجھے اس بات کی پروا نہیں کہ قارئین ان تخلیقات کو پڑھ کر گھائل ہوں میرے اسلوب کے قائل ہوں یا میری راہ میں حائل ہوں۔ میری ان تمام تصانیف کا مرحومین نے بڑی توجہ سے مطالعہ کیا ہے وہ اکثر میرے ساتھ ان تصانیف اور ان کی تخلیق کے لا شعوری محرکات کے بارے میں بحث کرتے ہیں۔ میرا دیرینہ کرم فرما نظام سقہ اکثر مجھ سے ملنے آتا ہے ۔ کل را ت اس نے میرے ہاں قیام کیا۔‘‘

نظام سقہ کہنے لگا’’ آج کے دور کا ہر حاکم میری طرح مسند اقتدار پر غاصبانہ طور پر قابض ہے۔ جس طرف نگاہ دوڑائیں میرے ہم نوامصروف کار ہیں اور مجبوروں کے چام کے دام چلارہے ہیں ۔ لوگ کہتے ہیں کہ سیل زماں کے تھپیڑوں میں سقے اورماشکی تو خس و خاشاک کی طرح بہہ گئے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ محض قدریں بدل گئی ہیں ۔ میرے دور میں سقے ڈوبتے بادشاہ کو جان پر کھیل کر بچاتے ، اسے مسندِ اقتدار پر بٹھاتے تھے اور گوہر مراد پاتے تھے ۔ جب کہ قحط الرجال کے موجودہ زمانے کے سقے گرگٹ کی طرح رنگ بدل کر سامنے آتے ہیں ۔اب ہمایوں اور نظام سقہ کے بجائے ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے امور مملکت چلائے جاتے ہیں ۔ آج کانظام سقہ اگرچہ گھوٹا سکہ ہے لیکن وہ اپنے مکر کی چالوں سے اس طرح بازی لے جاتاہے کہ سب لوگ ہکابکا رہ جاتے ہیں۔ موجودہ دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی برق رفتاریوں میں زندگی کی اقدار عالیہ اور درخشاں روایا ت عنقا ہو گئی ہیں۔ جب ہم زندہ تھے تو شہر کی شاہراہوں پر پُھول کھلتے تھے مگر اب ہر سُو دُھول اُڑتی ہے۔اس زمانے میں غلے سے بھری بوریاں محتاجوں ،دردمندوں اور ضعیفوں کے گھر پہنچائی جاتی تھیں اب بوری بند لاشیں پھینک کر سفاکی کی انتہا کر دی گئی ہے۔ماضی میں سقے اور ماشکی شہر کے مصروف راستوں پر تازہ پانی چھڑک کر سڑکوں کو چمکا دیتے تھے ۔آج ان راستوں اور گزر گاہوں کو خون میں نہلا دیا گیا ہے ۔ خاک نشینوں کا خون رزقِ خاک ہو رہا ہے مگر کوئی ان کی داد رسی کرنے والا نہیں ، بیڑیاں اور ہتھ کڑیاں تو عام ہیں لیکن کہیں زنجیر عدل دکھائی نہیں دیتی۔ لبِ اظہار پر لگے جبر کے تالے کون کھولے گا؟ آج بھی اگر نظام سقے کا ایقان پید ہو جائے تو ماشکی سے شہنشاہی محض دو قدم ہے۔‘‘

’’اور کس سے ملاقات ہوئی ؟‘‘قاسم خان نے پوچھا ’’ایسا محسوس ہوتا ہے کہ رسوائے زمانہ درندوں کی بے قرار روحیں تمھیں اپنا رازداں سمجھ کر تمھاری ہم نوا بن گئی ہیں ۔تمھارا تکیہ کلام ہی اب تو مُردوں سے ملاقاتوں کا احوال بن چکا ہے۔مُردہ مُردہ پُکارتے رہنے سے مُردوں کی بد روح تمھارے اندر حلول کر گئی ہے۔تمھاری کوئی بات مُردو ں کے ذکر کے بغیر مکمل ہی نہیں ہو تی۔‘‘

یہ سُن کر گھسیٹا بیابانی ہنہناتا ہوا اوربگٹٹ دوڑتا ہوا ساتھ والے اپنے کمرے میں جا گُھسا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ بسیار خوری اور منشیات کے بے تحاشا استعمال کے باعث وہ اسہال کے عارضے میں مبتلا ہو گیا ہے ۔جب گھسیٹا بیابانی واپس آیا تو اس نے میل سے چیکٹ ایک بوسیدہ تکیہ تھام رکھا تھا ۔اس نے یہ تکیہ قاسم خان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا :
’’یہ رہا میرا تکیہ ء کلام!میری زندگی کا سفر تو اُفتاں و خیزاں جیسے تیسے کٹ ہی گیا لیکن رومانی شاعری کرتے کرتے میرا پُورا وجود کر چیوں میں بٹ گیا ہے ۔میں نے اپنے دل کی کرچیوں کو اپنے کلام میں لفظوں کے قالب میں ڈھالا ہے۔میں نے زندگی بھر جو شاعری کی ہے اور جو کلام لکھا ہے ،یہ تکیہ اس کا امین ہے۔یہی میرا تکیہ ء کلام ہے جس کو میں ہمہ وقت اپنے سر کے نیچے رکھتا ہوں۔میرا تکیہ کلام لوگوں کو بہت پسند ہے ۔میرے گھر میں جو ادبی نشست ہوتی ہے اس میں میرا یہ تکیہء کلام میرے زانو پر دھر ا رہتا ہے ۔میں اس تکیہ سے اپنا کلام نکالتاہوں اور پڑھ کر سناتا ہوں جسے سُن کر لوگ سر دُھنتے ہیں۔‘‘
’’تکیہ کلام اور سرہانے رکھنے والے تکیہ کی بات خوب رہی ۔‘‘قاسم خان نے مسکراتے ہوئے کہا’’ ماضی اور حال کے مُردوں کے ساتھ اپنے روابط کے بارے میں کچھ اور بتائیں۔‘‘

’’بہت سے لوگوں سے غیر تہذیبی، تخریبی اور تادیبی ربط رہا۔ان روابط کا حنظل جیسا ثمر ہے کہ ہر عہد کے سرقے میں میرا نشاں ملے گا اور میرے تخلیقی چاکِ دامن کو کبھی رفو نہیں کیا جا سکے گا۔ ‘‘گھسیٹا بیابانی کفن پھاڑ کر بلند آواز سے بُڑ بُڑایا۔’’ مُردوں کے ساتھ عہدِ وفا استوار کر نے کے لیے میں نے اپنی انا کو ختم کر دیا۔اپنی خودی اور انا کا گلا گھونٹنے کے بعد میں زندہ کب رہا۔اس کے بعد سب مُردے میر ے ہم نوا بن گئے۔اُلّو کی آنکھ کا سُرمہ بنا کر اپنی آنکھوں میں لگایا اس طرح اپنی کو ر چشمی کا مداوا کرنے کی سعی میں مصروف رہا۔ میں جن لوگوں سے ان کی ہلاکت کے بعد پیہم غیر معتبر ربط رکھنے میں کامیاب ہو گیا،ان میں رابن ہڈ ، چنگیز خان ، شمر ، ہٹلر، فر ہاد ، شیریں ، مجنوں،لیلیٰ ، مہینوال ، سوہنی،ڈائر،انار کلی، چراغ بالی ،پنوں ،سسی اور صاحباں شامل ہیں۔ ‘‘

’’کسی تازہ ملاقات کا احوال بیان کریں ،‘‘قاسم خان نے کہا’’مُردوں کے ساتھ تمھاری ہر ملاقات جسے تم کرامات سمجھ بیٹھے ہو مجھے تو خرافات لگتی ہے۔‘‘

’’کل شام لُدھیکا چمار مجھے ملنے آیا ۔‘‘گھسیٹا بیابانی نے اپنی خون آلود باچھیں کھول کر کہا ’’لُدھیکا چمار بھی اپنے دور کا ننگِ انسانیت درندہ تھا۔1526میں جب بابر کی فوجوں نے ابراہیم لودھی کی بُزدل فوج کو نیست و نابود کر دیا تو ابراہیم لودھی کے خاندان کے ننگِ اسلاف لُٹیرے اور مفاد پرست ساتھی مکافاتِ عمل سے بچنے کے لیے روپوش ہو گئے۔ان میں ابراہیم لودھی کی ایک داشتہ کا مشکوک نسب کا بیٹا لُدھیکا چمار بھی شامل تھا جو خود کو شکست خوردہ حاکم خاندان کا چشم و چراغ ظاہر کر کے لُوٹ مار میں مصروف رہتا تھا۔ تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلے جب سیلِ زماں کے تھپیڑوں میں بہہ گئے تواس نا ہنجار نے اپنے پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے مُردہ جانوروں کا گوشت بیچنے کا دھندا شروع کیا ۔ یہ مُوذی اس رسوائے زمانہ استحصالی گروہ میں شامل ہو گیا جوزیادہ تر مُردہ ،بیمار ،مریل اور حرام جانوروں کا گوشت بیچتا تھا۔ چلتے پھرتے ہوئے مردے جب مردہ جانوروں کا گوشت کھاتے تو خوشی سے ان کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے اور چند لمحوں کے لیے وہ غمِ جہاں کو بُھول جاتے تھے۔لُدھیکا چمار نے اپنے زمانے کے حالات کا موجودہ دور کے واقعات کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے کہا:
’’میں نے جو طرزِ فغاں ایجاد کی آج وہی ہر چمار کے لیے طرزِ ادا بن چُکی ہے۔میں نے تو بنارس میں صرف مردہ جانوروں کا گوشت زندہ انسانوں کو کِھلایا۔آج جس بے دردی سے مُردوں کا کفن زندوں کے سر تھوپا جا رہا ہے ،اُس پر سارے مُردے کفن بر دوش احتجاج کرنے پر مجبور ہیں۔ہر طرف جعل سازی ہی جعل سازی ہے ، بکرے کو دیکھ کر سگ ،تیتر کو دیکھ کر زغن ،بٹیر کو دیکھ کربُوم، گائے کو دیکھ کے خر اور دشت کو دیکھ کے گھر یاد آتا ہے۔زاغ و زغن ،کرگس اور بُوم کا گوشت اب تیتر اور بٹیر بنا کر سر عام بُھون کر کھلایا جا رہا ہے۔فربہ آوارہ کُتوں کو کاٹ کربکروں کے بھاؤ بیچا جا رہا ہے جب کہ لاغر گدھے ، معذورخچر ، ناکارہ استر اور مریل گھوڑے بڑی بے رحمی سے مارے جا رہے ہیں اور ان کا گوشت گائے کے بھاؤ فروخت ہو رہا ہے۔ بڑی بڑی ضیافتوں میں یہ گوشت بڑے مزے سے کھایا جاتا ہے ۔ محکمہ انسداداِ بے رحمی حیوانات نے عملی طور پر اب محکمہ امداد بے رحمی حیوانات کا روپ دھا ر لیا ہے۔پہلے ہی اس علاقے کو قحط الرجال کا سامنا ہے اب سر اُٹھانے والے قحطِ خراں نے عہدِ خزاں کی آمدکے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔جس برق رفتاری کے ساتھ گدھوں کی نسل کُشی کا سلسلہ چل نکلا ہے اس کے باعث اندیشہ ہے کہ کہیں ڈائنو سار کے مانند پُوری دنیا سے گدھوں کی نسل ہی معدوم نہ ہو جائے۔ رشورت خور ،سمگلر،مفت خور ،لیموں نچوڑ اورحرام خور بُزِ اخفش توگدھے کے گوشت کو اس قدر پسند کرتے ہیں کہ وہ اس پر ٹُوٹ پڑتے ہیں۔مقامی طعام خانوں میں گدھے کے گوشت اور عالمی منڈی میں گدھے کی کھال کی مانگ میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔میرا پوتازاہدو لُدھڑ منشیات اور جانوروں کی کھالوں کی سمگلنگ کرتا ہے ۔اس نے مجھے بتا یا ہے کہ حمار کے گوشت کی فروخت اور اس جانور کی کھال نے تو منشیات کے دھندے کو بھی مات دے دی ہے ۔سب کا خیال ہے کہ زندہ حمار لاکھ کا تو مردہ حمار سو الاکھ کا ، یہی وجہ ہے کہ حمار کی وجہ سے ہر چمار کی پانچوں گھی میں ہیں ۔معاشرتی زندگی میں بے حسی اوربے مہری ء عالم کا یہ حال ہے کہ ایک حلال گائے کی کھال تو صرف تین ہزار روپے میں فروخت ہوتی ہے اس کے بر عکس حرام گدھے کی کھال کا بھاؤ بیس ہزار روپے فی کھا ل ہے۔ حمار کی کھال کی بڑھتی ہوئی مانگ نے ہر چمار کو ہوس زر کے خُمار سے سر شار کر دیا ہے ۔ وطنِ عزیز میں گزشتہ دو برسوں میں جانوروں کی جو کھالیں بر آمد کی گئیں ،ان میں تین لاکھ کھالیں تو صرف حمار کی تھیں ۔زرِ مبادلہ کمانے میں حمار سب پر سبقت لے گیا ۔ کالا دھن کمانے والے اور منشیات کی سمگلنگ سے زرِ مبادلہ بٹورکر اپنی تجوریاں بھر کر جوبونے خود کو باون گزا سمجھنے لگے تھے اور اللے تللے کر کے بغلیں بجاتے تھے حمار کی کھال کے بڑھتے ہوئے کاروبار کو دیکھ کر اب بغلیں جھانکتے پھرتے ہیں اور کھالیں بر آمد کرنے کے سلسلے میں گدھوں کی تلاش میں سر گر داں ہیں ۔ اب گدھے ہیں کہ مسلسل ہنہنا کر اپنے غائب ہونے والے سینگوں کی تلاش میں سر گرداں ہیں اور داد طلب نگاہوں سے اپنی جاں بخشی کے لیے دہائی دیتے پھرتے ہیں لیکن اس صحرا میں سگاں و خراں کی فغاں پر کوئی رقیب توجہ نہیں دیتا۔ چام کے دام چلانے والے اب گدھوں کی تلاش میں خجل ہو رہے ہیں ۔ گدھا نوازی میری سرشت میں شامل رہی اسی وجہ سے لوگ مجھے لُدھیکا چمار کے بجائے بالعموم لُدھیکا حمار کے نام سے یاد کرتے تھے۔ایک شعر بھی میرے بارے میں ہے:
گدھا سمجھ کے وہ چُپ تھا میری جو شامت آئی
اُٹھا اور اُٹھ کے قدم میں نے فیل باں کے لیے

پاس بیٹھے رابن ہُڈنے اپنی مشین گن تان لی اس کے منہہ سے جھاگ بہہ رہا تھا،اس نے کہا’’میں نے اپنی عملی زندگی میں اتنی لُوٹ مار کبھی نہیں دیکھی۔زمانہ کیا بدلا اس کے ساتھ ہی زندگی کی قدریں اور روایا ت بھی تیزی سے بدلتی جا رہی ہیں۔زرو مال کی ہوس نے آج کے انسان کو انسانیت سے محروم کر دیا ہے۔ میں نے سُنا ہے کہ مُردہ جانوروں کا گوشت بیچنے والے کرگس زادوں کو آٹھ برس قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ کی سزا کا قانون موجود ہے ۔ یہ سزا تو ان درندوں کے لیے کم ہے ،پہلے ان سفہا اور اجلاف و ارذال کو مردہ سگ اور گدھے کا گوشت کھلانا چاہیے ۔میرا دور ہوتا تو میں ایسے درندوں کی کھال کھینچ لیتا اور انھیں بُھوکے شیروں کے آگے پھینک دیتایا ان پر شکاری کتے چھوڑتا۔‘‘

قاسم خان یہ سب باتیں گُم صُم مگر پُورے دھیان سے سن رہا تھا ۔اسے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ اس ابلہ کی لاف زنی سے کئی عقدے کُھل رہے ہیں۔گھسیٹا بیابانی کی بے سروپا باتیں ماضی کے واقعات کی گرہ کشائی کر رہی تھیں۔اگرچہ گھسیٹا بیابانی احساس اور شعور میں پائی جانے والی حد فاصل کی تفہیم کی استعدا د سے عاری تھااس کے باوجود اس کی گفتگوفکر و خیال کے متعدد در وا کر رہی تھی۔ماضی میں صد ہارُتیں پیہم خُوں اُگلتی رہیں اور غموں میں ڈھلتی رہیں لیکن بے حسی کا عفریت ہر طرف منڈلاتا رہا اور کوئی ٹس سے مس نہ ہوا۔اپنی چاہ کی جوت جگا کرچندے آفتاب چندے ماہتاب حسیناؤں کے نہاں خانہء دِل میں راہ بنانے کی تمنا میں عشاق کیا کیا پاپڑ بیلتے رہے۔اگرچہ دلوں میں وسوسوں کے چراغ جلتے رہے مگر عشاق حسن بے پروا کے تبسم،تکلم،ترحم ،توجہ اور ترنم کی آرزو میں ہمہ وقت مصروف رہے۔وہ مہیب سناٹوں کو بے ساز،سکوت ِ مرگ کو بے رازاور اندوہ گیں نغمات کو بے آواز سمجھ کر آشوبِ زمانہ سے غافل ہو گئے۔انھوں نے خلقِ خداکی آواز پر کان نہ دھرے اور جب انھیں ہوش آیا تو یہ جان کر چونکے کہ ان کا زمانہ تو کب کا بِیت چُکا تھا۔اب محبت کے دیپک راگ کی آگ کی تپش میں سب کچھ جل کر ر اکھ ہو چکا تھا ۔یاس و ہراس کے مسموم ماحول میں زندگی کی تمام رُتیں اس طر ح بے ثمر ہو کررہ گئیں کہ اس کے دل کے بے آب و گیاہ ویرانے میں نہ تو کبھی اُمید کا غنچہ چٹکا اور نہ ہی خوشی کا کوئی پُھول کِھلا۔چڑیوں کے کھیت چگنے کے بعد لمبی اڑانیں بھرنے کے بعد سب رکھوالے ہاتھ ملتے رہ گئے۔گھسیٹا بیابانی کی زندگی کے دیمک خوردہ شجرپر گردشِ حالات کی آری کچھ اس طرح چلی کہ وہ سب کردار جو اس خزاں رسیدہ شجر کے سایہ نشین رہے وہ رفتہ رفتہ کرادار سے عاری ہوتے چلے گئے۔

اپنی ہلاکت سے کچھ عرصہ قبل گھسیٹا بیابانی کی ہئیتِ کذائی بدل گئی ۔ اس کی سوچ اور رہن سہن میں تبدیلی آ نہیں رہی تھی بل کہ سچ مُچ تبدیلی آ چُکی تھی۔ بچپن ہی اپنے ناخواندہ ہونے کا اسے جو قلق تھا،وقت گُزرنے کے ساتھ ساتھ یہ قلق اور سِوا ہوتا چلا گیا ۔جہالت نے اسے مستقل نوعیت کی خجالت،رذالت اور احساس کم تری کی بھینٹ چڑھادیا تھا ۔ چند ماہ سے اس کا لہجہ اور انداز گفتگو بدل گیا اور وہ خود کو وسیع المطالہ فلسفی ظاہر کر کے رواقیت کا داعی بن بیٹھا ۔ قاسم خان نے مجھے بتایا کہ جب بھی اسے کوئی بات بتائی جاتی ہے وہ انگریزی زبان میں ایک جملہ بار بار دہراتا ہے ۔ ’’ It is axact, Oh axact ‘‘ اچانک اس کے مکان کے دروازے پر نصب اس کے نام کی تختی بدل گئی ۔اس پینترے باز مسخرے نے جو گرگٹ کے مانند رنگ بدلنے میں اپنی مثال آپ تھاپہلے تو اپنی ذات بدل ڈالی اور ڈُوم سے خان بن بیٹھا اس کے بعداس جاہل نے ایک لفظ پڑھے بغیر بھاری معاوضہ ادا کر کے ایک جعلی اون لائن سائبر ادارے سے فلسفے میں پی ایچ۔ڈی کی جعلی ڈگری ہتھیالی۔اب اس کندہء نا تراش کے قحبہ خانے کے دروازے پر جو لوحِ مکاں نصب تھی ،اس پر یہ حروف کندہ تھے:
’’ ڈاکٹر گھسیٹا خان بیابانی(Ph.D Philosophy USA)

قاسم خان نے بتایا کہ اسے واقفانِ حال سے معلوم ہوا کہ گھسیٹا بیابانی نے کچھ عرصہ قبل فلسفہ میں ڈاکٹر یٹ کی یہ جعلی ڈگری امریکہ کی کسی اون لائن فرضی جامعہ سے حاصل کی تھی ۔ اس سلسلے میں اسے یہاں کے ایک نام نہاد سائبر ادارے کا تعاون بھی حاصل تھا،جس نے علم و فن کی بڑی بڑی ڈگریوں کی ٹکے ٹوکری سیل لگا کر قومی کردار کی تمسیخ،تعلیم و تعلم کی تضحیک اور تحصیل علم کا تمسخر اُڑا کر پُوری ملت کو اقوام ِ عالم کی صف میں تماشا بنا دیا۔1997میں سادہ لوح لوگوں کو سفاک ظلمتوں کے سرابوں کی بھینٹ چڑھانے کے مذموم دھندے کا آغاز کرنے والے اس رسوائے زمانہ سائبر ادارے نے پانچ سو ڈالر کے عوض ایک خارش زدہ امریکی سگ ِ راہ کو تین اعشاریہ انیس سی جی پی کے ساتھ ایم ۔بی۔اے کی ڈگری جاری کر دی۔ کردار اور وقار سے یکسر عاری جرائم پیشہ لُٹیروں کے اس گروہ نے تین سو ستر ویب سائٹس کی تشکیل کے ذریعے جعلی ڈگریوں کے جس مکروہ دھندے کے ذریعے کالا دھن کمایا ،اس کے باعث ہر باضمیر انسان نے اس مکرہ اور گھناونے کاروبار میں ملوث مجرموں پر تین حرف بھیجتے ہوئے ان کا کڑا احتساب کرنے پر زور دیا ہے۔ اس جگ ہنسائی اور رسوائی میں گھسیٹا بیابانی قماش کے مسخروں نے جو قبیح کردار ادا کیاتاریخ ہر دور میں اس کو نفرت و حقارت کی نگاہ سے دیکھے گی۔ جعل سازی کی سر شتِ باطنی کے اسیر اس مفاد پرست مسخرے نے جس بھو نڈے انداز میں زندگی کے تلخ حقائق سے بے خبر لو گوں کی آنکھوں میں دُھول جھو نکی وہ اس کی خباثت،خیانت اور ذلت و تخریب کا منہہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ سو چ کر ہم ششدر رہ گئے کہ آسماں کیسے کیسے رنگ بدلتا رہتا ہے۔ گھسیٹا بیابانی جیسے جاہل جس عیاری سے کام لے کر اپنی جہالت کا انعام پانے میں کام یاب ہو جاتے ہیں وہ وقت کا ایک ایسا المیہ ہے جسے کسی نام سے تعبیر کرنا ممکن ہی نہیں۔ کارواں در کارواں بیتے لمحوں کے ہجوم میں وقت کے اس سانحہ نے آئینہ در آئینہ ایک طو فان بپا کر دیا۔ جعلی ڈگری ہتھیانے کے بعد اس جعل ساز نے مجبوروں کے چام کے دام چلائے اور اہلِ قلم کی زندگی اجیرن کر دی ۔ اب لوگوں کی زبان کون روک سکتا ہے ،یہ بات زبان زدِ عام تھی کہ کاش گھسیٹا بیابانی ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے اور عام لوگوں کو فریب دے کر مرعوب کرنے کے بعد کے بعد میٹرک بھی کر لے۔ اس لرزہ خیز اعصاب شکن المیے کے بارے میں رابن ہُڈ نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا :
’’جعل سازی اور لُوٹ مار کا سلسلہ ماضی میں بھی جاری رہتا تھا مگر قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں تو یہ معاملہ حد سے بڑھ گیاہے۔میں نے بہت لوٹ مار کی لیکن علم کے ساتھ اس قدر سفاکی نہیں کی۔علمی ،فنی اور ادبی دہشت گردی کے ایسے واقعات ماضی میں کب رونما ہوتے تھے۔ تعلیمی اسناد کی اس طرح بے توقیری کرنا تو قیامت کی نشانی ہے۔بہت ممکن ہے کہ اس عہد کے باشندوں کی شامت اعمال کسی چنگیز، نادر یا ہلاکو کی صورت میں ان پر مسلط ہو جائے۔ ‘‘

اپنی زندگی کے آخری ایام میں بھی گھسیٹا بیابانی حسینوں کی زلف گرہ گیر کا اسیر رہا تاہم مغبچوں سے وہ کترانے لگا ۔اس سے یہ تاثر ملتا تھا کہ شاید اس مے خوار رِندنے آخری عمر میں بادہ نوشی ترک کر دی ہے مگر تنہائی کے لمحوں میں وہ شراب اور شباب ہی کو انیس رنج و غم سمجھتا۔ اپنی حسرتوں پر آنسو بہاتے ہوئے وہ یہ بات بر ملا کہتا تھا :
’’میں اس افلاطونی عشق کا قائل نہیں جو سدا منزلوں اور وصل سے نا آشنا رہتا ہے اور فاصلے گھٹانے کی سکت سے محروم ہے۔میں اپنے عہد کا مہینوال،پُنوں،رانجھااور مجنوں بننا چاہتا ہوں ۔میر ا مجنونانہ عشق جسے میرے حاسد اور رقیب احمقانہ پیش دستی قرار دیتے ہیں یہی میرے لیے حاصلِ زیست ہے۔میں وادیء جنوں کے پُر پیچ راستوں کو دیوانہ وار طے کرتا رہا ہوں اور جب تک میری جان میں جان ہے حُسنِ خوباں پر سب کچھ نچھاور کرنا میرا نصب العین رہے گا ۔میری مثال اس رانجھا کی ہے جو دنیا کے سب حسینوں اور مہ جبینوں کا سانجھا ہے۔میری زندگی کا افسانہ اب اپنی تکمیل کو پہنچنے والا ہے ،اس کے بعد میری یہ کہانی بہت جلد ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی۔میری موت پر باوقار اور سنجیدہ لوگ سُکھ کا سانس لیں گے،دیوانے آنسو بہائیں گے،فرزانے ہاتھ ملتے رہ جائیں گے،ناصح میراذکر کُو بہ کُو کریں گے جب کہ زنجیرِ زُلف سے شکار کرنے والے حسین اور مہ جبین صیاد نئے صیدِ زبوں کی جستجو کریں گے۔زندگی بھر شبِ ہجراں کی ایذا نصیبیاں برداشت کرنے کے بعدمیرا سینہ و دِ ل حسرتوں سے چھا گیا ہے ۔آہ اب تو ہجوم ِ یاس میں جگر چھلنی ،روح زخم زخم اور دِل کِرچی کِرچی ہو چکا ہے۔آہ!شبِ ہجراں اب تیرا کیا ہو گا؟
تو کہاں جائے گی کچھ اپنا ٹھکانہ کر لے
ہم تو کل خواب عدم میں شب ہجراں ہو ں گے

اکثر لوگوں کا کہنا تھا کہ گھسیٹا بیابانی نے اپنے ہم زاد کواپنا تابع بنا رکھا ہے اور کئی چڑیلیں ، پچھل پیریاں جِن ،آدم خور اور بُھوت بھی اس کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ ستاروں کی گردش پر دسترس رکھنے والے ،کالے جادو کے ماہر اور سفلی علوم کے رمز آشنا گھسیٹا بیابانی کی یہ پیشین گوئی حرف بہ حرف درست نکلی۔یکم اپریل 2015کی شام گھسیٹا بیابانی کے گھر میں پُر اسرار مخلوق کی ایک دعوت تھی۔ پُر تعیش ماحول میں ہونے والی اس ضیافت میں رقص ِ مے اور ساز کی لے پر حسیناؤں نے مدہوشی کے عالم میں تھرکناشرع کر دیا۔ حسین و جمیل دو شیزاؤں کی اُٹھتی الہڑ جوانیاں اور چاندی کی گردنوں میں سونے کی گانیاں دیکھ کر سب تماشائیوں نے دِل تھام لیا ۔حسبِ معمول گھسیٹا بیابانی نے پُر اسرار مخلوق ،دائمی مفارقت دے جانے والے مجرموں اور اپنے خاندان کے مرحومین کی بہت بڑی تعدا دکو اپنے ہاں بُلا رکھا تھا ۔اس کے گھر میں ہمیشہ دیووں،بُھوتوں ،آدم خوروں ،ڈائنوں ،ڈاکوؤں، بد معاشوں،قاتلوں ،ٹھگوں،اُچکوں اور چڑیلوں کا جمگھٹا لگا رہتا تھا۔ بے شمار نکٹے ،سر کٹے ،دُم کٹے اور کان کٹے مُردے اس دعوت میں دادِ عیش دینے اور رنگ رلیاں منانے کے لیے جمع تھے۔ گھسیٹا بیابانی کے وسیع و عریض گھر کو عام لوگ آسیب زدہ خیال کرتے اور کبھی اس طرف کا رُخ نہ کرتے تھے۔ اکثر لوگوں کا کہنا تھا کہ گھسیٹا بیابانی نے اپنے گھر میں زرو مال کا جو دفینہ چھپا ر کھا ہے اس کا راز صر ف وہی جانتا ہے۔ یہ دفینہ کئی بار اس کے لواحقین اور پُر اسرار مخلوق میں فتنہ و فساد کا باعث بھی بنا لیکن گھسیٹا بیابانی نے معاملے کو سلجھا دیا۔یہاں موسیقی اور رقص کی محفلوں کاکثرت سے انعقاد ہوتا تھا ۔ساغرِ مے سے نشاط حاصل کر کے سب عیاش مے خوار اور مست حسینائیں شرم و حیا کو بارہ پتھر کر کے بندِ قبا سے بے نیاز دیوانہ وارناچتے ناچتے مد ہوشی کے عالم میں زمین پر جا گرتے۔لوگوں کا خیال تھا کہ ماضی کے سب رسوائے زمانہ کردار گھسیٹا بیابانی کے ہم نوالہ و ہم پیالہ بن گئے تھے۔ گھسیٹا بیابانی سخت علیل تھا ،اس کے بچنے کی کوئی اُمید نہ تھی۔وہ اولاد سے محروم تھا تا ہم اس کے دُور کے سب عزیز اور احباب اس کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے اس کے گھر میں موجود تھے۔ شام کے سائے ڈھل رہے تھے،رات کی تاریکی مقدر کی سیاہی کی طرح گھسیٹا بیابانی کے گھرکے در و بام پر پھیل گئی ۔اس آسیب زدہ گھر کے اُداس بام ،کُھلے دراور سیلن زدہ دیواریں لرزتی محسوس ہوتی تھیں۔گھر کا فرش دل کے مانند دھڑک رہا تھا اور کسی نا گہانی حادثے کے بارے میں متنبہ کر رہا تھا۔ہر طرف مہیب سناٹا اور جان لیوا سکوت تھا ۔گھسیٹا بیابانی کے گھر سے اچانک گولیاں چلنے کی آوازیں آنے لگیں۔کچھ پُر اسرار نقاب پوش فائرنگ کرتے ہوئے سامان کے بڑے بڑے گٹھڑ لیے سامنے کھڑی کاروں میں بیٹھ کر فرار ہو گئے۔اس کے بعد پُوری عمارت آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ عشرت کدہ ملبے کا ڈھیر بن گیا۔ نہ مکان رہا اور نہ ہی اس مکان کاکوئی مکین بچ سکا۔اس آتش زدگی کے اسباب کے بارے میں کچھ معلوم نہ ہو سکا ۔ شہر کے سب لوگ اسے بُھوتوں کی کارستانی قرار دیتے ہیں اور کوئی اس خرابے کی طر ف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔
Ghulam Ibn-e-Sultan
About the Author: Ghulam Ibn-e-Sultan Read More Articles by Ghulam Ibn-e-Sultan: 277 Articles with 610130 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.