ماہ شعبان کے فضائل

کچھ عرصہ بعدرمضان المبارک کی آمد ہو گی ،چشمِ تصور میں ایک بار پھر آنکھیں ان مناظر سے ٹھنڈی ہونے کو بے تاب ہیں کہ پانچوں نمازوں کے وقت موٴذن کی پکار پر لبیک کہنے والے جوق درجوق خانہء خدا کی طرف لپکے چلے آتے ہیں،جہاں ایک طرف ہر نماز سے پہلے اور نماز کے بعدمساجد میں خلق خدا کی ایک بہت بڑی تعداد قرآن حکیم کی تلاوت سے لطف اندوز ہوتی نظر آتی ہے، تودوسری طرف بہت سے افراد نوافل کی ادائیگی میں مشغول نظر آتے ہیں،اور اس کے ساتھ ساتھ ذکر واذکار سے اپنے سینوں کو منور کرنے والے اور اپنے ربِّ عزَّوجلَّ کے حضور الحاح وزاری کے ساتھ سسکتے ہوئے مناجات میں مشغول افراد کی تعداد بھی بہت بڑی ہوتی ہے۔

اس برکتوں والے ماہِ مبارک کے آنے سے قبل ”شعبان المعظم“میں ہی سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے استقبال کے لیے کمر بستہ ہو جاتے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادات میں اضافہ ہو جاتا،نہ صرف خود بلکہ اس فکر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو بھی شریک فرماتے تھے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”رمضان المبارک “کے ساتھ اُنس پیدا کرنے کے لیے ”شعبان المعظم“ کی پندرہویں رات اور اس دن کے روزے کی ترغیب دی ہے اوراس بارے میں صرف زبانی ترغیب پر ہی اکتفاء نہیں فرمایا؛ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عملی طور پر خود اس میدان میں سب سے آگے نظرآتے ہیں ؛چنانچہ اس ماہ کے شروع ہوتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادات میں غیر معمولی تبدیلی نظر آتی جس کا اندازہ ام الموٴمنین ،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس ارشاد سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے، آپ فرماتی ہیں:(ما رأیتہ في شھرٍ أکثر صیاماً منہ في شعبان) کہ”میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان کے علاوہ کسی اور مہینے میں کثرت سے (نفلی)روزے رکھتے نہیں دیکھا“(صحیح مسلم ،رقم الحدیث: ۲۷۷۷)،حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ”شعبان المعظم “میں بکثرت روزہ رکھنے کی وجہ سے اس مہینے میں روزہ رکھنے کو علامہ نووی رحمہ اللہ نے مسنون قرار دیا ہے،فرماتے ہیں ”ومن المسنون صوم شعبان“(المجموع شرح المہذب:۶/۳۸۶)۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا شعبان شھری و رمضان شھر اللہ (شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اللہ کا مہینہ ہے) مزید فرمایا کہ جو شعبان میں اچھی تیاری کرے گا اسکا رمضان اچھا گزرے گا اور وہ ماہ رمضان کی برکتوں اور سعادتوں سے لطف اندوز اور بہرہ مند ہوگا۔ شعبان المعظم کا پورا ماہ بابرکت و باسعادت اور حرمت و تعظیم والا مہینہ ہے لیکن اس مہینہ کو بطور خاص کچھ فضیلتیں، امتیازات اور شرف عطا کئے گئے، یہ مہینہ ’’شہر التوبہ‘‘ بھی کہلاتا ہے اس لئے کہ توبہ کی قبولیت اس ماہ میں بڑھ جاتی ہے۔ اس ماہ میں مسلمانوں پر برکتوں کا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ اس لئے یہ ماہ اس کا حقدار ہے کہ دیگر مہینوں سے بڑھ کر اس میں اللہ کی اطاعت و عبادت اختیار کی جائے۔ بزرگانِ دین نے فرمایا ہے کہ جو لوگ اپنی جان کو اس مہینہ میں ریاضت و محنت پر تیار کر لیں گے وہ ماہ رمضان المبارک کی جملہ برکتوں اور سعادتوں کو کامیابی کے ساتھ حاصل کریں گے۔ اس بناء پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماہ رمضان کے بعد سال کے 12 مہینوں میں سب سے زیادہ روزے اس ماہ رکھتے تھے۔ اس ماہ کی ایک خاص امتیازی خصوصیت 15 شعبان المعظم کی رات ہے۔ اس رات کو اللہ نے ’’لیلۃ مبارکہ‘‘ ’’برکت والی رات‘‘ کہا ہے۔ علماء، مشائخ، آئمہ، مفسرین کی اکثریت کا نقطہ نظر یہ ہے کہ شب قدر کے بعد سال کے 12 مہینوں میں سب سے زیادہ افضل شب برات ہے۔ ارشاد فرمایا فِیھَا یُفرَقُ کُلُّ اَمرٍ حَکِیمٍ۔
’’اس (رات) میں ہر حکمت والے کام کا (جدا جدا) فیصلہ کر دیا جاتا ہے‘‘۔ یعنی تمام حکمت والے، فیصلہ کن، نافذ العمل ہونے والے امور کی تنفیذ کا فیصلہ اس رات کیا جاتا ہے۔ حضرت عطاء بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’جب 15 شعبان کی رات آتی ہے تو اللہ تعالیٰ ملک الموت کو اگلے سال کے لئے موت وحیات کے امور نفاذ و اجراء کے لئے سپرد فرما دیتے ہیں‘‘۔ بعض اذہان میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس رات تقدیریں، رزق، موت و حیات کے فیصلے لکھے جاتے ہیں تو لوح محفوظ پر جو سب کچھ پہلے ہی لکھا جا چکا ہے اس کا معنی کیا ہے؟

دونوں باتوں میں مطابقت یہ ہے کہ اللہ کے علم میں تو سب کچھ پہلے سے ہی آ گیا ہے اور سب کچھ پہلے ہی سے آ جانا یہی اس کی لوح محفوظ ہے۔ اس کی لوح، اسکا علم ہے۔ اس رات لکھے جانے کا مطلب یہ ہے کہ ان امور کو نافذ کرنے کے لئے فرشتوں کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’کہ کچھ لوگ ایسے ہیں کہ 15 شعبان المعظم کی رات بھی اپنے ظلم میں مصروف ہوتے ہیں یا ظلم و ستم ڈھانے کے لئے منصوبے بنا رہے ہوتے ہیں حالانکہ ان کا نام مرنے والوں کی فہرست میں آ چکا ہوتا ہے‘‘۔

الغرض افراد ایسے منصوبہ جات میں مصروف ہوتے ہیں جن کے نتائج سالوں بعد ظاہر ہوتے ہیں حالانکہ اس اگلے سال میں ان کی موت لکھ دی جاتی ہے۔ یعنی ہر امر الہٰی نفاذ کے لئے سپرد کر دیا جاتا ہے۔ اس کی مثال آپ بجٹ کی لے لیں کہ بجٹ کی منظوری تو یکبار ہو جاتی ہے مگر اسکا نفاذ پورے سال میں مختلف اوقات میں ہوتا رہتا ہے۔ اس طرح اللہ کے ہاں بھی ہمارا بجٹ پیدائش سے موت تک ہماری پیدائش سے پہلے ہی تیار ہوتا ہے اور یہ سب کچھ علم الہٰی میں آچکا ہوتا ہے اور یہی لوح محفوظ پر لکھا جانا کہلاتا ہے۔ پھر ہر سال کے حساب سے یہ احکامات نفاذ کے لئے اس 15 شعبان المعظم کی رات جاری کر دیئے جاتے ہیں۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’پانچ راتیں ہیں کہ جس نے وہ پانچ راتیں جاگ کر محنت کر لی اس کے لئے جنت واجب ہوگئی۔ ان پانچ راتوں میں سے ایک رات 15 شعبان المعظم کی رات ہے‘‘۔

مراد یہ ہے کہ اس رات توبہ، مغفرت کی قبولیت اتنی زیادہ ہے کہ اگر کوئی ان راتوں کو جاگ کر کثرت کے ساتھ گریہ و زاری کرے، صدق و اخلاص نیت کے ساتھ اللہ کے حضور اپنے سارے گناہوں کی توبہ کرلے، طلب مغفرت کرلے اور آئندہ اصلاح کرلے تو پچھلے گناہ اگرچہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں مٹا دیئے جاتے ہیں اور جنت کا مستحق بنا دیا جاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’پانچ راتیں ایسی ہیں ان میں دعا رد نہیں ہوتی، ان راتوں میں سے ایک رات 15 شعبان المعظم کی رات ہے‘‘۔

اس رات آتشبازی کے مظاہرے اور پٹاخوں کا استعمال حرام ہے۔ یہ رات برات اس لئے کہلاتی ہے کہ یہ دوزخ سے رہائی پانے کی رات ہے کہ جو اس رات اللہ کے حضور روئے گا،گریہ و زاری کرے گا اسے رہائی مل جائے گی۔ اس آتش بازی کے رواج کو سختی سے بند کریں، اپنے علاقوں میں عوام الناس کو اس بات کا شعور دیں کہ یہ حرام کام ہے اس کے کرنے والا گناہ کا ارتکاب کرتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ ’’اس رات اللہ تعالیٰ غروب آفتاب کے بعد اپنی شان کے لائق آسمان دنیا پر آ جاتا ہے اور فجر تک آسمان دنیا پر بندوں کے قریب رہتا ہے اور ساری رات نداء دیتا ہے کہ ہے کوئی مجھ سے مغفرت مانگنے والا کہ میں اسے معاف کردوں، ہے کوئی مجھ سے رزق مانگنے والا کہ میں اسے رزق دے دوں، ہے کوئی مجھ سے سوال کرنے والا کہ میں اس کے سوال پورے کردوں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس رات اللہ تعالیٰ چند لوگوں کے سوا ہر مانگنے والے کو عطا کرتا ہے اور بخشش فرماتا ہے۔ چند لوگ اس رات کی دعا سے بھی اور لیلۃ القدر میں بھی نہیں بخشے جاتے۔ وہ درج ذیل افراد ہیں۔
1. مشرک، جب تک شرک نہ چھوڑ دے۔
2. دل میں بغض و عداوت رکھنے والا، گویا جب تک دل کو بغض و عداوت سے پاک نہ کرلے اس کی دعا قبول نہیں ہوتی۔
3. قاتل
4. خونی رشتوں کو کاٹنے والا، قطع تعلق کرنے والا یہ بات بھی قابل غور رہے کہ ہم دور دراز تو صدقہ و خیرات کرتے ہیں مگر خونی رشتوں کا لحاظ نہیں رکھتے حالانکہ جو جتنا قریبی رشتہ دار ہے اس کا حق بھی زیادہ ہے اور پڑوسی سے بھی مقدم قریبی رشتہ دار کا حق ہے۔
5. تکبر کرنے والا
6. شرابی
7. والدین کا نافرمان
8. چغل خور، غیبت کرنے والا، یہ برائی بھی عام ہے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہورہی ہے کہ جب اللہ خود نداء دے رہا ہو اس کے باوجود درج بالا افراد کی بخشش نہ ہو تو سال کے بقیہ مہینوں میں ان کی بخشش کس طرح ممکن ہے۔

شب برأت کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس شب میں اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے بے شمارلوگوں کی بخشش فرمادیتا ہے اسی حوالے سے چند احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں۔
-1 حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہافرماتی ہیں کہ ایک رات میں نے حضوراکرمﷺ کواپنے پاس نہ پایا تو میں آپ کی تلاش میں نکلی میں نے دیکھاکہ آپﷺ جنت البقیع میں تشریف فرما ہیں آپ نے فرمایا کیا تمہیں یہ خوف ہے کہ اللہ تعالیٰ اوراس کارسولﷺ تمہارے ساتھ زیادتی کریں گے میں نے عرض کی یارسول اللہﷺ مجھے یہ خیال ہوا کہ شاید آپ کسی دوسری اہلیہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں آقا ومولیٰﷺ نے فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب آسمان دنیا پر(اپنی شان کے مطابق) جلوہ گرہوتا ہے اورقبیلہ بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے(ترمذی‘جلد1صفحہ156‘ابن ماجہ‘ صفحہ100‘مسند احمد‘جلد 6‘صفحہ238 مشکوۃ جلد1‘صفحہ277مصنف ابن ابی شیبہ‘ جلد 1صفحہ237 شعب الایمان للبیہقی‘ جلد3صفحہ379)

شارحین فرماتے ہیں کہ یہ حدیث پاک اتنی زیادہ اسناد سے مروی ہے کہ درجہ صحت کوپہنچ گئی۔

-2حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آقامولیٰﷺ نے فرمایا’’شعبان کی پندرہویں شب میں اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر(اپنی شان کے مطابق) جلوہ گرہوتا ہے اوراس شب میں ہرکسی کی مغفرت فرمادیتا ہے سوائے مشرک اوربغض رکھنے والے کے‘‘(شعب الایمان للبیہقی‘جلد3صفحہ380)

-3 حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ کاارشاد ہے اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب میں اپنے رحم وکرم سے تمام مخلوق کوبخش دیتا ہے سوائے مشرک اورکینہ رکھنے والے کے‘‘۔
ابن ماجہ صفحہ101‘شعب الایمان‘جلد3صفحہ382‘مشکوۃ‘جلد1صفحہ277)

-4حضرت ابوہریرہ ‘حضرت معاذ بن جبل‘ حضرت ابوثعلبتہ اورحضرت عوف بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے بھی ایساہی مضمون مروی ہے(مجمع الزوائد‘جلد8 صفحہ65)

-5 حضرت عبداللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ آقاومولیٰﷺ نے فرمایا’’شعبان کی پندرہویں رات میں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے دو اشخاص کے سوا سب مسلمانوں کی مغفرت فرمادیتا ہے ایک کینہ پرور اوردوسرا کسی کوناحق قتل کرنے والا‘‘
(مسنداحمد‘جلد2صفحہ176‘مشکوۃ‘جلد1صفحہ278)

-6امام بیہقی نے شعب الایمان(جلد نمبر3صفحہ 384 )میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک طویل روایت بیان کی ہے جس میں مغفرت سے محروم رہنے والوں میں ان لوگوں کابھی ذکر ہے: رشتے ناتے توڑنے والا‘بطورتکبرازارٹخنوں سے نیچے رکھنے والا‘ماں باپ کانافرمان ‘شراب نوشی کرنے والے۔

-7غنیتہ الطالبین‘صفحہ449 پرحضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی طویل حدیث میںان لوگوں کابھی ذکر ہے جادوگر‘کاہن ‘سودخور اوربدلہ کار‘یہ وہ لوگ ہیں کہ اپنے اپنے گناہوں سے توبہ کئے بغیر ان کی مغفرت نہیں ہوتی‘ پس ایسے لوگوں کوچاہئے کہ اپنے اپنے گناہوں سے جلد ازجلد سچی توبہ کرلیں تاکہ یہ بھی شب برأت کی رحمتوں اوربخشش ومغفرت کے حق دارہوجائیں۔
’’ارشادباری تعالیٰ ہوا: اے ایمان والو! اللہ کی طرف ایسی توبہ کروجوآگے کونصیحت ہوجائے‘‘(التحریم8کنزالایمان)

یعنی توبہ ایسی ہونی چاہئے جس کااثر توبہ کرنے والے کے اعمال میں ظاہر ہو اوراس کی زندگی گناہوں سے پاک اورعبادتوں سے معمورہوجائے‘ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بارگاہ رسالت میں عرض کی۔یارسول اللہﷺ توبتہ النصوح کسے کہتے ہیں ارشاد ہوا بندہ اپنے گناہ پرسخت نادم اورشرمسارہو‘پھربارگاہ الہٰی میں گڑگڑاکر مغفرت مانگے اورگناہوں سے بچنے کاپختہ عزم کرے تو جس طرح دودھ دوبارہ تھنوں میں داخل نہیں ہوسکتا اسی طرح اس بندے سے یہ گناہ کبھی سرزدنہ ہوگا۔

شب برأت میں سرکاردوعالمﷺ نے خود بھی شب بیداری کی اوردوسروں کوبھی شب بیداری کی تلقین فرمائی آپﷺ کافرمان عالیشان اوپرمذکورہوا کہ جب شعبان کی پندرہویں رات ہوتوشب بیداری کرو اوردن کوروزہ رکھو‘اس فرمان جلیل کی تعمیل میں اکابر علماء اہلسنّت اورعوام اہلسنّت کاہمیشہ یہ معمول رہا ہے کہ اس رات میں شب بیداری کااہتمام کرتے چلے آئے ہیں۔

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’تابعین میں سے جلیل القدر حضرات مثلاً حضرت خالدبن معدان‘حضرت مکحول‘حضرت لقمان بن عامر اورحضرت اسحٰق بن راہویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم مسجد میں جمع ہوکر شعبان کی پندرہویں شب میں شب بیداری کرتے تھے اوررات بھر مسجد میں عبادات میں مصروف رہتے تھے‘‘۔
(ماثبت من السنہ‘صفحہ202‘لطائف المعارف‘ صفحہ144)

علامہ ابن الحاج مالکی رحمتہ اللہ علیہ شب برأت کے متعلق رقمطرازہیں’’اورکوئی شک نہیں کہ یہ رات بڑی بابرکت اوراللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑی عظمت والی ہے‘ ہمارے اسلاف رضی اللہ تعالیٰ عنہم اس کی بہت تعظیم کرتے اوراس کے آنے سے قبل اس کے لئے تیاری کرتے تھے ۔پھرجب یہ رات آتی تووہ خوش وجذبہ سے اس کااستقبال کرتے اور مستعدی کے ساتھ اس رات میں عبادت کیا کرتے تھے کیونکہ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ہمارے اسلاف شعائر اللہ کابہت احترام کیاکرتے تھے(المدخل‘جلد1صفحہ392)

مذکورہ بالاحوالوں سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اس مقدس رات میں مسجد میں جمع ہوکرعبادات میں مشغول رہنا اوراس رات شب بیداری کااہتمام کرنا تابعین کرام کاطریقہ رہا ہے‘شیخ عبدالحق محدث دہلوی قدس سرہ فرماتے ہیں اب جوشخص شعبان کی پندرہویں رات میں شب بیداری کرے تویہ فعل احادیث کی مطابقت میں بالکل مستحب ہے‘رسول کریمﷺ کایہ عمل بھی احادیث سے ثابت ہے کہ شب برأت میں آپ مسلمانوں کی دعائے مغفرت کے لئے قبرستان تشریف لے گئے تھے(ماثبت من السنہ صفحہ205)

آقاومولیٰ ﷺ نے زیارت قبورکی ایک بڑی حکمت یہ بیان فرمائی ہے کہ اس سے موت یادآتی ہے اورآخرت کی فکر پیدا ہوتی ہے(زیارت قبورکے دلائل وفوائد سے متعلق تفصیلی گفتگوفقیر کی کتاب’’مزارات اولیاء اورتوسل‘‘ میں ملاحظہ فرمائیں۔شب برأت میں زیارت قبور کاواضح مقصد یہی ہے کہ اس مبارک شب میں ہم اپنی موت کویاد رکھیں تاکہ گناہوں سے سچی توبہ کرنے میں آسانی ہو‘ یہی شب بیداری کااصل مقصد ہے۔

اس سلسلے میں حضرت حسن بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاایمان افروز واقعہ بھی ملاحظہ فرمائیں منقول ہے کہ جب آپ شب برأت میں گھر سے باہرتشریف لائے توآپ کاچہرہ یوں دکھائی دیتا تھاجس طرح کسی کوقبر میں دفن کرنے کے بعد باہر نکالاگیا ہو۔آپ سے اس کاسبب پوچھاگیاتوآپ نے فرمایاخدا کی قسم میری مثال ایسی ہے جیسے کسی کی کشتی سمندر میں ٹوٹ چکی ہو اور وہ ڈوب رہا ہو اوربچنے کی کوئی امید نہ ہو‘پوچھاگیا آپ کی ایسی حالت کیوں ہے؟ فرمایا میرے گناہ یقینی ہیں‘ لیکن اپنی نیکیوں کے متعلق میں نہیں جانتا کہ وہ مجھ سے قبول کی جائیں گی یا پھرردکردی جائیں گی۔(غنیتہ الطالبین‘ صفحہ250)

اللہ اکبر نیک ومتقی لوگوں کایہ حال ہے جوہررات شب بیداری کرتے ہیں اورتمام دن اطاعت الہٰی میں گزارتے ہیں جب کہ اس کے برعکس بعض لوگ ایسے کم نصیب ہیں جواس مقدس رات میں فکر آخرت اورعبادت ودعا میں مشغول ہونے کی بجائے مزید لہو ولعب میں مبتلاہوجاتی ہیں آتش بازی پٹاخے اوردیگرناجائز امورمیں مبتلاہوکر وہ اس مبارک رات کاتقدس پامال کرتے ہیں‘حالانکہ آتش بازی اورپٹاخے نہ صرف ان لوگوں اوران کے بچوں کی جان کیلئے خطرہ ہیں بلکہ اردگرد کے لوگوں کی جان کیلئے بھی خطرے کاباعث بنتے ہیں‘ایسے لوگ’’مال برباد اورگناہ لازم‘‘کامصداق ہیں۔

ہمیں چاہئے کہ ایسے گناہ کے کاموں سے خود بھی بچیں اوردوسروں کوبھی بچائیں اوربچوں کوسمجھائیں کہ ایسے لغو کاموں سے اللہ تعالیٰ اورا س کے پیارے حبیبﷺ ناراض ہوتے ہیں‘ مجددبرحق اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں‘آتشبازی جس طرح شادیوں اورشب برأت میں رائج ہے‘ بے شک حرام اورپورا جرم ہے کہ اس میں مال کاضیاع ہے‘ قرآن مجید میں ایسے لوگوں کوشیطان کے بھائی فرمایا گیا‘ارشا ہوا’’اورفضول نہ اڑابے شک(مال)اڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہیں‘‘(بنی اسرائیل)

Ainee Tahir
About the Author: Ainee Tahir Read More Articles by Ainee Tahir: 4 Articles with 4917 views Ye Meri Umar, Mere Maah-o Saal De Uss Ko,
Mere Khuda Mere Dukh Se Nikaal De Uss Ko …!
.. View More