امیر معاویہ ؓ ،بنو امیہ اور تاریخ کا ظلم

22رجب حضرت امیرمعاویہ بن ابی سفیان الأموی ؓکا یوم وفات ہے ، ہمارے یہاں بعض حلقے اس دن کو بطور ’’یوم ِامیر معاویہؓ ‘‘ مناتے ہیں ،جو ایک مستحسن اقدام ہے ، لیکن اس طرح کے ایام صرف سڑکوں پر منانے سے امت نئی مشکلات کا شکار ہوجائیگی ، کیونکہ ان کی طرح کی بزرگ اور مقدس ہستیوں کے ایام اسلامی معاشرے میں جہاں بھی منائے جاتے ہیں ،وہاں عوام الناس کو گوں ناگوں مسائل کا سامناکرناپڑتاہے ، ہونایہ چاہیۓ کہ 22رجب اور اس کے مانند دیگر تاریخی ایام کو مقررہ تاریخ سے کچھ دن قبل ،بعد اور عین اس دن سیمینارز ،کانفرنسز اور مقالات ومضامین کے عنوان بناکر ، ان پرعدل وانصاف کی نگاہوں کے عین مطابق تحقیقی ،تدقیقی ،سیر حاصل بحث اور گفت وشنید کی جائے، پھر ان بحوث ودراسات کا نچوڑ اور نتائج مرتب کئے جائیں ، ان شخصیات کی سیرتوں ،کرداروں ،میدانوں اور متعلقہ موضوعات میں ان کی بلند وبالا تاریخی دورسے اپنے مستقبل کے اہداف کے تعین میں روشنی حاصل کی جائے ، ان سے استفادہ کیاجائے ، افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ ہم اپنے سے کئی گنا بڑے حضرات کے درمیان محاکمے کرتے ہیں ، ان کی سیرت وحیاتِ طیبہ کو ایک امتحانی پیپر کے طورپر چیک کرتے ہیں ،پھر ان کو اعلی ، اوسط ، ادنی ، اور فیل کے خانوں میں درج کرتے ہیں ،یہ نہیں سوچتے کہ کیا ہم اس لائق ہیں کہ ان کے ممتحن بن بیٹھیں ،مگر بزعم خویش ہم خودبخود ان کے پرچوں کیلئے امتحانی کمیٹی کا رکن بن جاتے ہیں ،پھر صد افسوس اس پرکہ چیف ایگزامیز (ممتحن اعلی ) یعنی ہم سے بڑاکوئی محقق اگر ہمیں ہمارے دیئے ہوئے نمبر ات پر کوستاہے ، کہ پرچے آپ نے صحیح چیک نہیں کئے ،لہذا نمبر بھی غلط لگادیئے ، یا پھر آپ ان پرچوں کی چیکنگ کی صلاحیت واستعداد نہیں رکھتے ، اس لئے آپ کواس عمل سے سبکدوش کیاجاتاہے ،توہم ان کے نہ صرف اس فیصلے بلکہ ان کے عہدے اور منصب کو بھی چیلنج کرنا شروع کردیتے ہیں اور اپنے فیصلوں پر ہٹ دھرمی اور ضد پر اڑجاتے ہیں ۔

یہی کچھ سیدنا امیر معاویہ ؓ ،خلافتِ امویہ اور ان کے قبیلے بنو امیہ کے ساتھ ہمارے یہاں ہورہاہے ، منانے والوں کو صحیح منانے کا طریقہ آنا چاہئیے، سید مودودی ،ڈاکٹر رضوان ندوی اور ان کے اس تاریخی سہو میں شریک اہل سلف مؤرخین میں سے اکثر یا تو خود مستند نہیں ہیں ،یاپھر اپنے سابقین کی چکنی چوپڑی باتوں سے متأثر ہیں ، خوارج اور باطنیہ میں سے اول الذکرتو عقل کے پیدل ہیں ، ان کے بارے میں کچھ نہ کہنا کہنے سے بہترہے ، کیونکہ وہ ’’دلیل اور ذلیل ‘‘ میں نقطے کے فرق کے منکر ہیں ، پس ظاہر پر ہی جاتے ہیں ، ثانی الذکر کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ہر نص اور ہرواقعہ میں باطن پے جاتے ہیں ،اس کے رموز کی تلاش میں سرگرداں پھرتے ہیں ،بال کی کھال اتارنے کی کوششوں میں صدیوں سے لگے رہتے ہیں ، پہلے والے بصیرت نہیں مانتے ، دوسرے والے بصارت نہیں مانتے ،لیکن دونوں فرقوں کی تحقیق اگر اخلاقی اقدار کے مطابق ہو ، توہم سمجھتے ہیں ،یہ اختلاف رحمت کے زمرے میں آجائے گا، اﷲ کرے ان سب کے اکابر یکجا ہوجائیں ، باہم مل بیٹھ کر علم الکلام کے اس طرح مباحث کو امام غزالی کی کتاب ’’اِلجام العوام عن علم الکلام ‘‘ کے تناظر میں حل کریں ، تو امید کی جاسکتی ہے کہ اتحاد واتفاق کی کچھ کرنیں اور راہیں نظرآجائیں ۔

امیر معاویہ کا تب وحی ہیں، ام المؤمنین حضرت ام حبیبہؓ کے بھائی ہونے کے ناتے امت کے ماموں ہیں ،عمرۃ القضاء کے موقع پرفتح مکہ سے قبل مشرف باسلام ہوئے ہیں ،ان کے والد ماجد حضرت ابو سفیان ؓ نہ صرف ایک صحابی بلکہ جلیل القدر اسلامی کمانڈر ہیں ،جنگ یر موک میں ان کے اور ان کی بیگم حضرت ہند ؓ جو حضرت امیر معاویہ کی والدہ محترمہ ہیں کے کار نامے سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہیں ، ان کے بھائی حضرت یزید ؓ بن ابی سفیان ؓ اسلامی جیوش کے عظیم سپہ سالار کے طور پر معروف ومشہور ہیں ، ان کے دست راست حضرت مروان بن الحکم ؓ بھی ایک عظیم صحابی اور امیر الامراء ہیں ،حضرت عمر ؓ اور حضرت عثمان ؓ دونوں کے یہاں امیر معاویہ ؓ امیرشام اور معتمد خاص رہے ہیں ،حضرت سیدنا علی بن ابی طالب ؓ کے ساتھ ان کا اختلاف قصاص عثمان ؓ پر تھا، خلافت یا امارت پر نہیں تھا، کاش یہ اختلاف نہ ہوتا، لیکن اس اختلاف کی بنیادیں مشیٔت ایزدی سے اس وقت پڑچکی تھیں جب مجوس اور نصاری یعنی اہل فارس ، اور اہل روم کی جنگ ابتدائے اسلام میں ہوئی تھی ، نصاری چونکہ اہل کتاب تھے، اس لئے سورۂ روم کی ابتدائی آیات رومیوں کے فی الحال مغلوب ہونے اور بعد میں غالب آنے کے متعلق ہیں ،مسلمانوں کی ہمدردیاں اہل کتاب کے ساتھ تھیں ، مشرکین اور بت پرست مجوسیوں کے حامی تھے،انہوں نے اہل عرب اور اہل اسلام کو دشمن کے دوست قرار دیاتھا، اسی لئے اسلام کو روکنے میں مجوسیوں نے خطرناک جنگیں صحابہ ؓ سے لڑیں ، جن میں آخر کار وہ شکست کھاگئے ، تو انہوں نے ابن سبا جیسے یہودیوں سے ملکر سازشوں کے تانے بانے بُنے ، حضرت عمر فاروق ؓ کو ابولؤلؤہ مجوسی کے ذریعے شہید کروایا، حضرت عثمان غنی ؓ کے خلاف شورشیں برپاکیں ، حضرت علی مرتضیؓ اور حضرت امیر معاویہؓ کے درمیان اختلافات پیداکئے ، جن کے نتیجے میں جنگ جمل اور جنگ صفین کے واقعات رونماہوئے ، پھر ان جنگوں کو انتہائی مبالغہ آرائی ، اور دروغ گوئی کے آمیزے کے ساتھ بیان کرنے لگے ، نوبت یہاں تک پہنچائی کہ حضرت حسن بن علی بن ابی طالب ؓ نے جب آپ ﷺ کی پیش گوئی کے مطابق مصالحانہ کردار اداکرتے ہوئے اختیارات حضرت امیر معاویہ کے سپرد کئے ، تو ان شورشیوں نے ان کے اس فیصلے کو دل سے تسلیم نہیں کیا، بعد میں حضرت امام حسین ؓ کے واقعے میں اہل عراق کا ہاتھ نظرآتاہے ، یزید ،بن زیاد اور حجاج بن یوسف کی حرکتیں بھی نظر آتی ہیں ،لیکن بحیثیت مجموعی اگر امیر معاویہ کے کردار اور ان کی خلافت کا دور دیکھا جائے ، نیز بنو امیہ کی خلافت کو اگر دیگر خلافتوں کے مقابلے میں نظر انصاف سے پر کھا جائے ، تومعلوم ہوگایہ دور متعدد جہتوں سے اتنا زریں ہے کہ ان پر مثبت انداز میں نئی تحقیق کی شدید ضرورت ہے ۔مثلا ً حضرت معاویہ ؓ کی سیاسی بصیرت کی وجہ سے عالم اسلام متحدومنظم ہوا، رقبہ وجغرافیائے اسلام میں بے تحاشاا ضافہ ہوا،قرآن ِکریم میں نقطوں اور حرکات کا عمل ہوا،نئی دفتری زبان فارسی ورومی کے بجائے پورے عالم اسلام میں عربی قرار پائی ، خلافت ان ہی کے دور میں دنیاکے سپر پاور کے طورپر پہنچانی جانے لگی ،امن ،استقرار ،سلامتی ، خوشحالی اور استحکام کا پھر یر ا لہرانے لگا، حضرت امیر معاویہ ؓ کے علاوہ مروان بن الحکم ،عبدالملک بن مروان ، ولید بن عبد الملک ھشام بن عبدالملک جیسے عظیم خلفاء،سلاطین اورحکمراں مسلمانوں کو نصیب ہوئے ،محمد بن قاسم ،طارق بن زیاد،یوسف بن تاشفین اورقتیبہ بن مسلم جیسے عمائدین ِجہاد میسر آئے، جن کے ادوار میں موجودہ ہند، موجودہ چین ، موجودہ روس ، موجودہ فرانس ،اسپین ویرتگال تک کے کچھ حصے زیر نگینِ اسلام ہوئے، افریقہ کا تومسلم حصہ پوراکا پورا اسی دور میں یا صرف مصرحضر ت عمروبن العاصؓ کے دور میں مشرف باسلام ہوا ، جامع مسجد اموی ،مسجد نبویﷺ ،جامع قرطبہ ،قبۃ الصخرہ کی تعمیرات ان کی شاہ کار ہیں ، برید(ڈاک)،دفتری نظام اور باقاعدہ پولیس وسیکورٹی فورسز کا کریڈٹ بھی انہیں کو جاتاہے ،بحری بیڑے اور سمندری فوج بھی حضرت معاویہ ؓ کا ہی کارنامہ ہے ،اندلس میں سینکڑوں سال تک ایک مستقل اور مثالی اسلامی خلافت کاسہرا بھی امویوں کے سرہے ۔ جس کے متعلق علامہ اقبال مرحوم فرماتے ہیں:
ہسپانیہ تو خون ِمسلماں کا امیں ہے ـ۔مانند ِحرم پاک ہے تو میری نظر میں ـ
پوشیدہ تری خاک میں سجدوں کے نشاں ہیں ۔ خاموش اذانیں ہیں تیری بادِ سحر میں
 
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 805941 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More