وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کارمضان پیکج کااعلان

ویڈیولنک کے ذریعے سول سیکرٹریٹ لاہورمیں اعلیٰ سطح کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے پنجاب کے عوام کوریلیف کی فراہمی کے لیے اربوں روپے کے رمضان پیکج کی منظوری دے دی ہے۔صوبہ بھرمیں تین سواٹھارہ سستے بازارجبکہ دوہزارمدنی دسترخوان لگائے جائیں گے۔ان کاکہناتھا کہ پیکج کے تحت عوام کورمضان بازاروں اوراوپن مارکیٹ میں سستے آٹھے کے تھیلے فراہم کیے جائیں گے۔صرف سستے آٹے کی فراہمی پرپنجاب حکومت ساڑھے تین ارب روپے کی سبسڈی دے گی۔اوپن مارکیٹ میں آٹے کابیس کلوگرام کاتھیلا نوے روپے جبکہ رمضان بازاروں میں ایک سوتیس روپے کم قیمت پرملے گا۔رمضان المبارک کے دوران آٹا،چینی، دالیں ،گھی،سبزیاں اورپھل رعائتی نرخوں پردستیاب ہوں گے۔عوام کے لیے یہ خوشخبری ہے کہ رمضان المبارک میں بیس کلوگرام آٹا کا تھیلا اوپن مارکیٹ میں نوے روپے اوررمضان بازاروں میں ایک سوتیس روپے مارکیٹ ریٹ سے کم قیمت پرملے گا۔ اس بات کا اعلان بھی خوش آئند ہے کہ اشیائے خوردونوش بھی مارکیٹ ریٹ سے رعائتی نرخوں پردستیاب ہوں گی۔تاہم اس میں یہ نہیں بتایاگیا کہ آٹانوے روپے اورایک سوتیس روپے سستا کس وقت کے مارکیٹ ریٹ سے کم قیمت پرملے گا۔مارکیٹ کے ریٹ روزانہ یکساں نہیں رہتے۔ ان میں اتارچڑھاؤ جاری رہتا ہے۔ خاص طورپرجب رمضان المبارک قریب آرہاہو مارکیٹ میں یکسانیت رہے یہ ہوہی نہیں سکتا۔کیونکہ ہمارے ملک میں کاروباری طبقہ اس مقدس مہینہ میں صارفین کودونوں ہاتھوں سے لوٹ مارکرنا فرض سمجھتاہے۔جوں ہی رمضان المبارک قریب آنے لگتا ہے ۔ روزمرہ کے استعمال کی چیزوں اوراشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں آہستہ آہستہ اضافہ ہونا شروع ہوجاتاہے۔ رمضان المبارک شروع ہونے تک اشیائے صرف کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوچکا ہوتاہے۔ پھرجب ان قیمتوں میں رعائت دی جاتی ہے ۔تو منافع خورپہلے ہی اپناانتظام کرچکے ہوتے ہیں۔عام صارفین ریلیف ملنے کے باوجودبھی اس سے محروم رہتے ہیں بلکہ لوٹ مارکاشکاررہتے ہیں۔اب بتائیں جوچیزرمضان المبارک سے ڈیڑھ دومہینہ پہلے دس روپے فی کلوگرام دسیاب ہو۔ وہی چیزرمضان المبارک شروع ہونے کے وقت یااس سے دوچاردن پہلے پچاس روپے فی کلوگرام فروخت ہونے لگے۔ پھر حکومت عوام کودس روپے فی کلوگرام ریلیف بھی دے دے۔ اس چیزکی قیمت دس روپے فی کلوگرام کم کردے ۔ وہی چیزجورمضان المبارک سے ڈیڑھ دومہینہ پہلے دس روپے فی کلوگرام مل رہی ہو۔ اب وہی چیزرمضان المبارک شروع ہونے کے وقت یا دوچاردن پہلے حکومتی ریلیف اوررعائت کے بعد چالیس روپے فی کلوگرام فروخت ہونے لگے۔ اسے آپ ریلیف اوررعائت کہیں گے یاکچھ اور۔اس لیے شہبازشریف کی طرف سے رمضان پیکج کاجواعلان کیاگیا ہے اورعوام کوقیمتوں میں کمی کی خوشخبری سنائی گئی ہے کہ انہیں اوپن مارکیٹ اوررمضان بازاروں میں اشیائے خوردونوش عام مارکیٹ سے سستے داموں دستیاب ہوں گی۔اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ کس وقت کے عام مارکیٹ ریٹ سے کم قیمت پرملیں گی۔ جس وقت اس پیکج اورریلیف کا اعلان کیا جارہاہے اس وقت کے عام مارکیٹ ریٹ سے یاجس وقت یہ پیکج دیاجارہا ہوگا اس وقت کے عام مارکیٹ ریٹ سے۔ یہ ہم پاکستانیوں کی نمایاں خوبی ہے کہ جب بھی کوئی مقدس ایام آتے ہیں یاکوئی تہوارآتاہے توہم یہ دیکھتے ہوئے کہ عوام اب ان چیزوں کااستعمال زیادہ کریں گے ان کی قیمتیں بڑھادیتے ہیں۔دوسروں کی مجبوری سے فائدہ اٹھاناہم ضروری سمجھتے ہیں۔شہبازشریف نے یہ خوشخبری توسنائی ہے کہ رمضان المبارک میں اوپن مارکیٹ اوررمضان بازاروں میں اشیائے خوردونوش سستے داموں دستیاب ہوں گی۔ لیکن یہ نہیں بتایا کہ کون سی چیزکس قیمت پردستیاب ہوگی۔کیاہی بہترتھا کہ رمضان پیکج کااعلان کرتے وقت اورمنظوری دیتے وقت وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف یہ اعلان بھی کردیتے کہ کون سی چیزرمضان المبارک میں اوپن مارکیٹ میں اوررمضان بازاروں میں کس قیمت پردستیاب ہوگی۔عوام کوابھی سے بتادیا جاتا توبہترتھاکہ آٹا رمضان المبارک میں اوپن مارکیٹ میں اتنے روپے میں ملے گا اوررمضان بازاروں میں اتنے روپے میں دستیاب ہوگا۔ دالیں، سبزیات، پھل، گھی وغیرہ کی قیمتیں یہ ہوں گی۔ان قیمتوں کااعلان نہ صرف پرچون ریٹ میں کیاجائے بلکہ تھوک ریٹ کی قیمتوں کااعلان بھی کیاجائے۔حکومت کی طرف سے ریلیف کاجواعلان کیاجاتا ہے اوراس پرعملدرآمدکے لیے جوسختیاں کی جاتی ہیں ان کی زد میں عام طورپرپرچون فروش ہی آتے ہیں۔ان میں ایسے دکانداریاچھابڑی فروش بھی ہوتے ہیں جوتھوک مارکیٹ سے روزانہ خریدکرروزانہ فروخت کرتے ہیں۔ ان کے پاس اتناسرمایہ بھی نہیں ہوتا کہ وہ دوچاردن کاسامان ایک ساتھ خریدسکیں۔اب ایسے دکانداروں یاچھابڑی فروشوں کومجبورکیاجائے تویہ چیزیں حکومت کے اعلان کردہ ریٹس پربیچو۔یہ نہ دیکھاجائے وہ تھوک مارکیٹ سے کس قیمت پرلے آیاہے۔ ان چھوٹے کاروباری طبقہ کے ساتھ ناانصافی نہیں تواورکیاہے۔ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں اب پھریاددہانی کرارہے ہیں کہ قیمتوں میں کمی یااستحکام لانے کے لیے ضروری ہے کہ پرچون سے زیادہ تھوک ریٹ پرتوجہ دی جائے۔ کیونکہ تھوک مارکیٹ میں چیزوں کی قیمتیں کم ہوجائیں گی توپرچون مارکیٹ میں خودبخودقیمتیں کم ہوجائیں گی۔تھوک مارکیٹ میں قیمتوں میں کمی کے بعد کوئی پرچون فروش قیمتیں کم نہیں کرتا تواسے سزادی جائے یہ ناانصافی نہیں ہوگی۔تھوک مارکیٹ میں بھی قیمتوں میں اتنی کمی کی جائے کہ پرچون میں بھی قیمتوں میں کمی کی جاسکے۔اب تھوک مارکیٹ میں کسی چیز کی قیمت بیس روپے فی چالیس کلوگرام کم ہوجائے اسی چیزکی قیمت پرچون ریٹ میں ایک روپیہ فی کلوگرم بھی کم نہیں کی جاسکتی۔اب اگرپرچون فروش کومجبورکیا جائے کہ جوچیزتھوک مارکیٹ میں بیس روپے فی چالیس کلوگرام سستی مل رہی ہے وہی چیزپرچون میں ایک روپیہ فی کلوگرام سستی فروخت کرتویہ اس کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی توکیا ہوگی۔ اس طرح تواس دکانداریاچھابڑی فروش کونفع کی بجائے نقصان ہی ہوگا۔اس لیے ضروری ہے کہ پرچون کے ساتھ ساتھ تھوک مارکیٹ کی قیمتیں بھی مقررکی جائیں۔یہ قیمتیں پانچ کلوگرام، دس کلوگرام، بیس کلوگرام، چالیس کلوگرام اورسوکلوگرام کی مقررکی جائیں۔سبزی اورفروٹ منڈیوں میں بھی بولی کانظام ختم کرکے تھوک وپرچون قیمتیں مقررکی جائیں۔دس کلوگرام کاکریٹ اتنے روپے میں ملے گااورچودہ کلوگرام کاکریٹ اتنے روپے میں۔ کھلی سبزیاں اورفروٹ کے ریٹ بھی فی کلوگرام، پانچ کلوگرام، دس کلوگرام، بیس کلوگرام اورچالیس کلوگرام کی قیمتیں مقررکی جائیں۔شہبازشریف کاکہناتھا کہ سترہ ماڈل بازاربھی سستے بازاروں میں تبدیل ہوجائیں گے۔چینی رمضان بازاروں میں مارکیٹ ریٹ سے آٹھ روپے کلوکم نرخوں پردستیاب ہوگی۔انڈے اورمرغی کاگوشت مارکیٹ ریٹ کے مقابلے میں ستے داموں دستاب ہوگا۔رمضان بازاروں میں یوٹیلٹی سٹورکے سٹال بھی لگائے جائیں گے۔یہ چیزیں کس وقت کے مارکیٹ ریٹ سے کم قیمت پرملیں گی۔ جس وقت یہ اعلان کیاجارہا ہے اس وقت کے مارکیٹ ریٹ سے یااس وقت کے مارکیٹ ریٹ سے جس وقت یہ چیزیں سستے داموں فروخت کی جارہی ہوں گی۔ مزیدتفصیل ہم اس تحریرمیں پہلے ہی لکھ چکے ہیں۔جوں ہی رمضان المبارک قریب آنے لگتاہے تونہ صرف اشیائے خوردونوش اورعام استعمال کی اشیاء کی قیمتیں بتدریج بڑھناشروع ہوجاتی ہیں بلکہ اوربھی بہت سی چیزوں می قیمتوں میں اضافہ ہوناشروع ہوجاتاہے۔ہم ایک ہوٹل سے آئے روزچائے پیتے ہیں۔ کبھی دس روپے اورکبھی پندرہ روپے والی پیالی چائے پیتے ہیں۔ یہ سطورلکھتے وقت پندرہ دن بھی نہیں ہوئے جب ہم اس ہوٹل میں گئے توہم نے دس روپے والاچائے کاکپ بنانے کاکہاتوہوٹل والے نے کہا کہ اب دس روپے کاکپ نہیں ملے گا۔ہم نے کہا کہ ہم نے توکبھی اعتراض نہیں کیا کہ چائے اتنی کم کیوں ہے۔ کیونکہ اکثرگاہک یہ شکایت کرتے ہیں کہ چائے کم ڈالی گئی ہے۔ تو اس ہوٹل والے نے کہا کہ کیاکریں رمضان المبارک جوقریب آرہا ہے اس لیے میٹریل کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔چینی پہلے اس ریٹ میں لے آتے تھے اب اس ریٹ میں مل رہی ہے۔ چائے کی پتی پہلے اتنے روپے میں ملتی تھی اب اتنے روپے میں مل رہی ہے۔ اب خود بتائیں دس روپے کاکپ کیسے دیں۔ہم نے اپنے الفاظ کہ دس روپے والاکپ بنادوواپس لینے میں عافیت سمجھی۔وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا کہ محکمہ زراعت تین سو۳۵ فیئرشاپس قائم کرے گا جبکہ ۱۴۷ گرین چینل بھی کھولے جائیں گے ۔جہاں کسان براہ راست اپنی شیاء فروخت کرسکیں گے۔رمضان بازاروں میں یوٹیلٹی سٹورکے سٹال بھی لگائے جائیں گے۔انہوں نے ہدایت کی کہ ذخیرہ اندوزوں کے خلاف بلاامتیازکارروائی عمل میں لائی جائے۔یہ بھی ہماری خوبی ہے کہ ہم جب دیکھتے ہیں کہ ان اشیاء کی طلب میں اضافہ ہورہا ہے یاجب کوئی خاص دن آتے ہیں اورہم بخوبی جانتے ہوتے ہیں کہ ان چیزوں کی فروخت میں اب اضافہ ہوجائے گا۔ عوام یہ چیزیں ہرقیمت پر خریدیں گے۔ توہمیں قیمتوں میں اضافہ کرنے کااورکوئی جوازبھی نہ مل رہا ہوتوہم ان چیزوں کی مصنوعی قلت پیداکردیتے ہیں۔ اس کاسب سے بڑافائدہ یہ ہوتاہے کہ صارفین مجبوری سے ان چیزوں کی قیمتیں ازخودبڑھادیتے ہیں۔ یوں ان چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ بھی ہوجاتاہے اورکاروباری طبقات مہنگائی کرنے قیمتوں میں اضافہ کرنے کے جرم سے اپنے طورپربھی محفوظ رہ جاتے ہیں۔کیونکہ وہ گاہک کونہیں کہتے کہ جوچیزقلت سے پہلے دس روپے فی کلوگرام دستیاب تھی ۔اب وہ اس کے بارہ روپے یاپندرہ روپے دیں۔ وہ توگاہک سے کہتے ہیں کہ ان کی مطلوبہ چیزہے ہی نہیں۔ اب جس کواس چیزکی سخت ضرورت ہوتی ہے وہ خود کہتا ہے کہ بارہ، تیرہ، پندرہ روپے کلوکے لے لو ۔ یہ چیزمجھے دے دو۔ پھردکاندارکہتا ہے اچھا آپ مجبورکررہے ہیں۔ لگتا ہے تمہیں اس کی سخت ضرورت ہے چلوتمہارے لیے کوشش کرتے ہیں اورتلاش کرتے ہیں۔ امیدہے جتنی آپ کوچاہیے مل جائے گی۔پھروہ خفیہ جگہوں سے گاہک کی مطلوبہ چیزنکال کے لے آتے ہیں۔ذخیرہ اندوزی نہ صرف قانونی طورپرجرم ہے بلکہ اخلاقی ،معاشی اورمعاشرتی طورپربھی جرم ہے۔یہ ذخیرہ اندوزی بھی بڑے بڑے کاروباری حضرات کرتے ہیں۔ چھوٹے دکانداتوزیادہ خریداری بھی نہیں کرسکتے وہ ذخیرہ اندوزی کیسے کریں گے۔ قارئین کویادہوگا کہ ملک میں پٹرلیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی کے بعدضلعی انتظامیہ کی طرف سے اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں کمی کااعلان کیاگیا۔ توضلعی انتظامیہ کے اس اقدام کے خلاف دکانداروں نے احتجاج کیا۔ دکانیں بندرکھیں اورریلی بھی نکالی۔ ان دکانداروں کاکہنا تھا کہ انہیں یہ قیمتیں منظورنہیں ہیں۔اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ دکاندارجوٹرکوں کے ٹرک سٹورکیے ہوئے تھے ۔ انہیں قیمتوں میں معمولی کمی کی وجہ سے اپنے سٹورکیے گئے مال میں کروڑوں روپے کے نفع میں نقصان کااندیشہ لاحق ہوگیا۔کسی کے نفع میں کروڑوں روپے کی کمی ہوجانے کاخطرہ ہواوروہ خاموش بیٹھارہے یہ ہوہی نہیں سکتا۔ حکومتیں ذخیرہ اندوزی کے خلاف اقدامات کرتی رہتی ہے۔ تاہم پچھلے چندسالوں سے ایسے اقدامات دکھائی نہیں دے رہے۔ہم نے پچھلے کئی سالوں سے نہ توسناہے اورنہ ہی کسی اخبارمیں پڑھاہے کہ ذخیرہ اندوزوں کے خفیہ گوداموں میں چھاپے اتنامال برآمد۔ذخیرہ اندوزی روکنے کے لیے اقدامات ساری سال جاری رہنے چاہییں۔ناجائزمنافع خوری اورذخیرہ اندوزی سے عام صارفین کامعاشی استحصال ہوتاہے۔ذخیرہ اندوزی روکنے کے لیے مخبروں کی ٹیم بنائی جائے جوبڑے بڑے کاروباری طبقات کے خفیہ گوداموں کوتلاش کرکے متعلقہ افسران کوبتائیں۔ پھران پرچھاپے مارکرسٹورکیاگیا مال برآمدکرلیاجائے۔ان کاکہنا تھا کہ دالیں اوردیگراشیاء ذخیرہ کرنے والوں کی جگہ جیل ہے۔شہبازشریف نے کہا کہ تمام وزراء اورسیکرٹری صاحبان رمضان المبارک کے دوران اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کی چیکنگ کے لیے دورے کریں گے۔وزراء اورسیکرٹریوں کے اس طرح کے دوروں سے مقامی انتظامیہ پرتودباؤ رہتا ہے تاہم سابقہ تجربات یہی بتاتے ہیں کہ یہ دورے بھی بے سودہی رہتے ہیں۔اخبارات میں یہ خبریں شائع ہوچکی ہیں کہ جوں کوئی وزیریاسیکرٹری کسی شہریاقصبہ کے دورے پرآتا ہے توراتوں رات رمضان بازاریاسستابازارقائم کردیاجاتا ہے۔ جوں ہی وہ وزیریاسیکرٹری اپنادورہ کرکے واپس چلاجاتاہے توسب کچھ فناہوجاتاہے نہ رمضان بازاررہتا ہے اورنہ ہی سستابازار۔اس طرح کی فنکاریاں سیلاب کے دنوں میں بھی کی جاتی ہیں۔کہ حکام کے آنے پرریلیف کیمپ قائم ہوجاتے ہیں جبکہ ان کے چلے جانے کے ساتھ ریلیف کیمپ بھی رفوچکرہوجاتے ہیں۔ان کاکہنا تھا کہ رمضان بازاررمضان المبارک کی آمدسے ۳ روزقبل کام شروع کردیں گے۔ان کاکہنا تھا کہ عوام کورمضان المبارک کے دوران ریلیف کی فراہمی میں کوئی بہانے بازی نہیں چلے گی۔اشیائے ضروریہ، پھلوں ، سبزیوں اوردالوں کی کوالٹی پرکوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔رمضان اورسستے بازاروں میں یہ شکایات بھی پائی جاتی ہیں کہ وہاں پہلے سے ہی سستے برانڈاورغیرمعیاری اشیاء فروخت کی جاتی ہیں۔شہبازشریف کی یہ وارننگ ہی کافی نہیں۔ معیاراورمقدارکی چیکنگ کابھی روزانہ کی بنیادپرانتظام ہوناچاہیے۔جب بھی صوبائی حکومت یاضلعی انتظامیہ کی طرف سے عام صارفین کوریلیف دینے کے لیے اورناجائزمنافع خوروں اورذخیرہ اندوزوں کی حوصلہ شکنی کے اقدامات کیے جاتے ہیں توکہا جاتاہے کہ دکانداروں کوناجائزتنگ کیاجارہا ہے۔گزشتہ سال رمضان بازارشہری آبادی سے دورلگائے گئے۔اس سال ایسا نہ کیاجائے بلکہ رمضان بازاراورسستے بازارشہری آبادی کے درمیان یاایسی جگہ لگائے جائیں جہاں شہری آسانی سے آسکیں۔اشیائے ضروریہ کی قیمتوں ،ان کے معیاراورمقدارکی چیکنگ کے لیے وزراء اورسیکرٹری صاحبان اگرچہ دورے کرتے رہتے ہیں۔ جعلی رمضان بازاروں کی شکایات بھی اخبارات میں شائع ہوچکی ہیں۔ان دوروں سے صرف ایک دن کے لیے ہی سب کچھ ٹھیک ہوتاہے پھرویساکاویساہوجاتاہے۔اس لیے صوبائی دارالحکومت میں شکایات سیل قائم کرکے اس کانمبرعام کردیاجائے ۔صارفین کسی بھی شکایت کی صورت میں ان نمبروں پررابطہ کرکے شکایت درج کرائیں۔ایک خاص نمبربھی جاری کیاجائے جوبااعتمادصارفین اورصحافیوں کودیاجائے۔جس پروہ حکومت کوصورتحال سے آگاہ کرسکیں۔عوام کوریلیف کی فراہمی میں تمام شعبہ جات تعاون کریں تواس کے بہترنتائج سامنے آسکتے ہیں۔
 
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 394 Articles with 301366 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.