اچھے بھلے اِنسانوں کو....

فینلن کاقول ہے کہ’’ میں اپنی مادرِ وطن کو اپنے خاندان سے زیادہ چاہتاہوں لیکن نسلِ انسانی کے لئے میری محبت اپنی مادرِ وطن سے بھی زیادہ شدیدہے‘‘اور اِسی طرح اہلِ علم و فن کا کہناہے کہ ’’ آدمی پیداہوتاہے اور اِنسان تہذیبی عمل سے بنتاہے، دنیاکے جن ممالک اور اِن کے معاشروں میں احساسِ محرومی یا غرورکی سطح جس قدرکم ہوگی اُن ممالک کے معاشرے اِنسانیت سے اِسی قدرقریب ہوں گے اور جن ممالک کے معاشرو ں میں یہ سب کچھ اُلٹ ہوں گے اُن ممالک کے معاشروں میں عدم توازن پیدا ہوگااور وہ ہمیشہ بگاڑ کا ہی شکاررہیں گے۔

یوں یہ واضح ہواکہ دنیا جن ممالک کے معاشروں میں مادہ پرستی کا عنصرغالب ہوگایقینااُن ممالک اور معاشروں میں موجود ایک طبقے میں غروراور دوسرے استحصالی طبقے میں احساس محرومی کا پیداہونالازمی ہوگا ایسے میں اہلِ دانش کا خیال ہے کہ جب دنیاکے مُلکوں کے معاشروں اور تہذیبوں میں ایسی کیفیات پیداہوں تو اِنہیں کنٹرول کرنے میں سیاست سے کام لیاجائے کیونکہ سیاست کا وسیع و عریض میدان ہی ایسے مُلکوں معاشروں اور تہذیبوں کی اِنسانیت کی خدمات میں اپنامثبت اور تعمیری کرداراداکرتاہے مگر اِس کے لئے شرط صرف یہ ہے کہ سیاست کے میدان میں پنچہ آزمائی کرنے والے اپنی نیک نامی اور خلوص کو ملحوظِ خاطررکھیں اور اپنے قول وکردار اورعمل سے یہ ثابت کریں کہ اِنہیں مُلکوں معاشرو ں اور تہذیبوں کو بگاڑسے بچاناہے ..اور اپنی کوششوں سے اپنی تہذیب اپنے مُلک اور اپنے معاشرے کو اُدھرلے جاناہے جہاں نہ مُلکوں اور معاشروں اور تہذیبوں کے اِنسانوں میں مادہ پرستی کا عنصرغالب ہوگا اور نہ کسی طبقے میں اِنسانوں کو بھٹکادینے والاغروروتکبرپیداہوگا اور نہ ہی کسی محروم طبقے میں احساس محرومی کا لاوابھڑکے گا۔

جبکہ یہاں یہ امرمسلمہ ہے کہ آج مادہ پرستی کی وباء دنیا کے مُلکوں معاشروں تہذیبوں اور سرحدوں کی پابندیوں سے آزادہوکر ہر اِنسان کے دماغ و دل میں کچھ اِس طرح سے پھیل چکی ہے کہ اَب اِس سے چھٹکارہ پانامشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہوگیاہے۔

بہرکیف ...!! اِس سے انکار نہیں کہ آج اچھے بھلے اِنسان بھی اِس وباء میں کچھ اِس طرح مبتلاہیں کہ جنہیں دیکھ کر اِس احساس میں شدت آجاتی ہے کہ ایسے لوگ جن کے بارے میں کبھی گمان بھی نہیں کیاجاسکتاتھاکہ یہ لوگ بھی مادہ پرستی کے حرص وہوس میں اِس طرح مبتلاہوجائیں گے کہ جب دنیاکے سامنے اِن کی حقیقت کھلے گی اور اِن کے چہرے سامنے آئیں گے تو اِن کا وقار مجروح ہوجائے گااور دنیاکے مُلکوں معاشروں اور تہذیبوں کے سامنے وہ یوں بے نقاب ہوجائیں گے کہ اَب یہ کسی نقاب کے اُوٹ میں چھپنابھی پائیں تو نہ چُھپ سکیں گے۔

ِٓ اِس میں کوئی شک نہیں کہ آج اِس پُرآشوب دورمیں اِنسان ہی اِنسان کا اصلی دُشمن بناہواہے اور اِنسانوں کے معاشروں میں موجود کچھ حیوان خصلت اِنسان نماحیوانوں نے اپنی حیوانگی سے شیطانی حربوں اورخو نخوارحیوانوں کی حیوانگی کے معیار کو بھی چکناچورکرکے رکھ دیاہے یعنی یہ کہ آج دنیاکے مُلکوں کے معاشروں اور اِن معاشروں کی تہذیبوں میں اِنسان نے اپنی حیوانگی سے خونخوارجانوں کو بھی کوسوں میل پیچھے چھوڑدیاہے الغرض یہ کہ آج کے اِس پُرآشوب... مگر مادہ پرستانہ دورمیں اِنسانوں نے اِنسانیت کا گلاگھونٹااور خود کو حیوان کے رنگ و روپ میں کچھ اِس طرح ڈھال کر پیش کیاہے کہ اِن کی حیوانگی کے سامنے حیوانگی اور درندگی بھی شرم محسوس کرنے لگی ہوگی اِس پر سونے پہ سُہاگہ یہ کہ اِنسانوں کے معاشروں اور تہذیبوں میں حیوان بن جانے والے عناصرخودکو حیوان بن کر بھی اِنسان سے افضل تصورکرتے ہیں اور معصوم اِنسانوں کے مقدس خون سے اپنے ہاتھ رنگنے کے بعد بھی مُلکوں معاشروں اور تہذیبوں میں دندناتے پھرتے ہیں اورقانونی تقاضوں اور قانونی پابندی کو اپنے پیروں تلے مسل کرحکومتی رِٹ کو چیلنج کرتے ہیں اور یہ اپنی درندگی کی بنیادپر کسی دہشت گردانہ کارروائی کے بعد وقتی طورپر خودکوقانونی گرفت سے آزادجان کر ....پھر اپنی اگلی کسی دہشت گردی اور قتل وغارت گری کی گھناونی منصوبہ بندی کے لئے پلاننگ کرتے ہیں....مگریہ بھی حقیقت ہے کہ یہ ایک نہ ایک دن قانون کی گرفت میں ضرورآئیں گے ..یہ تو قانونِ قدرت ہے کہ ناحق خونِ اِنسان بہانے والاکسی نہ کسی روز اپنے انجام کو ضرورپہنچے گا .. کسی بھی مُلک و معاشرے اور تہذیب میں موجود ایسے حیوان و شیطان صفت اِنسان کسی بھی معافی کے لائق نہیں ہیں ایسے بظاہر اِنسان نماحیوانوں کو قانون کے شکنجے میں جکڑاجائے ....اوراِنہیں نشانِ عبرت بنانے کے لئے چوراہے پرلٹکاکرپھانسی دینے سمیت ایسی سخت ترین سزا ئیں دی جائیں کہ اِن کی آنے والی نسلیں ...بھی تاقیامت اِن پر لعنت بھیجتی رہے ہیں۔

بہرحال...!!آج دنیاکی آبادی اپنے ہی پیداکردہ مسائل او رفتنوں میں دھنستی چلی جارہی ہے،یہ جانتی ہوئے بھی کہ اِس سارے عمل کی یہ خودہی ذمہ دارہے مگر افسوس ہے کہ ایسے میں کسی کو بھی اپنے کئے پرپچھتاوانہیں ہے موجودہ ماحول میں تباہی و بربادی کی کیفیات سے دوچاردنیاکی آبادی کا ایک بڑاڈھیٹ حصہ ایسابھی ہے جو اپنے ہر بُرے رویئے کا ذمہ دارخود کو تو سمجھتاہے مگر افسو س ہے کہ اِس کے باوجود بھی یہ اِس سے نکلنے کی کئی کوشش نہیں کررہاہے ایساکیوں اور کس لئے ہیں...؟؟آج شاید اِس کا جواب کسی کے پاس بھی نہیں ہے...ایسالگتاہے کہ جیسے دنیاکے بہت سے مُلکوں ، معاشروں اور بھات بھات کی تہذیبوں سے تعلق رکھنے والی بہت بڑی آبادی خود ہی اپنی تباہی اور بربادی کا ذمہ دارہے اور اِسی پچھتاؤے میں مرجاناچاہتی ہے مگر اپنی اِس کیفیت سے نکلنانہیں چاہتی ہے ایسے میں لازم ہے کہ معاشرے اور تہذیب میں موجودا چھے بھلے اِنسانوں کو اپنی کوشش کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ کوئی اچھابھلااِنسان ...کسی دوسرے اچھے بھلے اِنسان کو مادہ پرستی ، خودغرضی اور حرص وہوس کی بے راہ روی کے جہنم سے بچالے۔(ختم شُد)
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 886091 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.