اصلاح۔۔۔۔۔ کسی کی آسان؟

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

یاسر کی یورپ سے دس سال بعد تعلیم مکمل ہونے پر واپسی ہو رہی تھی ، گھر والے بہت خوش تھے بڑی شان و شوکت سے استقبال کی تیاری کے ساتھ ایئر پورٹ روانگی ہوئی ، فلایٹ کی آمد کا بیتابی سے انتظار ہو رہا تھا ، جہاز کے لینڈ کرنے کا اعلان ہوا ، تھوڑی دیر میں مسافر جہاز سے باہر آکر ضابطے کی کاروائی کے بعد سامان کے حصول کے لئے کھڑے باہر سے نظر آنے لگے ، دس سال سے یاسر کو دیکھا نہیں تھا اس لئے اندازے لگائے جانے لگے، ہر ایک اپنے اندازے کے مطابق یاسر کے ہونے گمان ظاہر کر رہا تھا، مسافر لاوئچ سے باہر آنا شروع ہوئے ، سب کی نظریں مسافر پر اور پھر والدین پر پرتیں کہ کس کے بارے میں یاسر ہونے کا اعلان ہوتا ہے ، سب مسافر نکل گئے لیکن یاسر نظر نہ آیا ، چہروں پراداسی چھانے لگی ، جوش و خروش ٹھنڈا ہونے لگا کہ یکایک موبائل پر گھنٹی بجی دوسری طرف یاسر بات کر رہا تھا ، یاسر نے ابو سے کہا کہ ڈیڈ آپ مجھے لینے نہیں آئے ؟ ابو نے جواب دیا کہ ہم تو کتنی دیر سے تمھارا انتظار کر رہے ہیں ، کہاں ہو تم؟ڈیڈ میں رینٹ اے کار کے پاس کھڑا ہوں، رینٹ اے کار مجھے نظر آرہا ہے لیکن وہاں تم تو نظر نہیں آ رہے ، ڈیڈ میں ہاتھ ہلا رہا ہوں ، ابو نے دیکھا اور مرجھائے ہوئے چہرے کے ساتھ فون بند کر دیا اور سب تعجب سے ابو کی طرف دیکھ رہے تھے ، یاسر کی امی نے پوچھا کہاں ہے میرا لال؟ ابو نے جواب دیا وہ سامنے کھڑا تمھارا لاڈلا ، ہاتھ میں گیٹار ،نیکرپہنی ہوئی، لڑکیوں جیسے بال، پونی ڈالی ہوئی، ایک کان میں رنگ،سب نے دیکھا تو حیران رہ گئے ،جو ساتھ میں پھول ہار لائے تھے چپکے سے ڈسٹ بین کی نظر کر دیئے ، بچوں کو مذاق سوجھی ، کہنے لگے کہ یہ انکل ہیں کہ آنٹی، گھر واپسی ہوئی، والدین کی امیدوں پر پانی پھر گیا ، اپنی غلطی کا احساس ہونے لگا ، خاندان میں طرح طرح کی باتیں ہونے لگیں ،شراب و موسیقی کے دلداہ یاسر کی حرکات سے والدین اندر ہی اندر کڑھنے لگے،

یاسر کے ابو نے مسجد کے امام مولانا شاہد صاحب سے بات کی ، مولانا شاہد نے فرمایا کہ برے ماحول کا اثر ہے ، یاسر سے سختی سے پیش نہ آئیں ، نرمی سے بات کریں اور اچھے ماحول یعنی مسجد میں لانے کی کوشیش کریں ، اور لوگوں کی باتوں سے نہ گھبرائیں ، اس کے علاوہ اولاد کی اصلاح کی کچھ دعائیں و وظائف تلقین کیے، والد نے مولانا کی ہدایت کے مطابق اصلاح کی کوشیش شروع کر دی ، سب سے پہلے جمعہ کی نماز کے لیے یاسر کو تیار کیا اور ایک نیا جوڑا جمعہ کی نماز کے لئے خریدنے یاسر کو بازار لے گئے لیکن یاسر نے یہ جوڑا پہنیں سے انکار کر دیا تو مولانا کی ہدایت کے مطابق ذرا بڑی نیکرجس میں گھٹنے چھپے ہوں کے ساتھ ہی مسجد لے گئے ، مسجد کے ماحول کا اتنا اثر ہوا کہ اگلے جمعہ کو یاسر شلوار قمیص پہنے کو تیار ہو گیا، جمعہ کے بعد ابو نے یاسر کی ملاقات مولانا شاہد سے کرائی، مولانا بڑی محبت سے یاسر سے ملے ، مولانا کے اخلاق سے یاسر متاثر ہوا ، پھر ہر جمعہ کو یاسر خود ہی مولانا سے ملاقات کرتا ، اس مسجد میں یورپ سے جماعت آئی ، یاسر سے خصوصی ملاقات کی گئی ۔

مولانا کے اخلاق، تبلیغی جماعت کی محنت اور والدین کی دعاوں سے یاسر میں تبدیلی آنی شروع ہوئی اور رفتہ رفتہ یاسر پانچ وقت کا نمازی بن گیا ۔ بری عادتیں چھوٹ گئیں ، یاسر کے والدین نے مولانا بہت شکریہ ادا کیا اور خوب دعائیں دیں -

یاسر کا مولانا صاحب سے خاص تعلق ہو گیا وہ ہر بات پوچھ کر کرتا ، مولانا کی صحبت اور تبلیغی جماعت کے ساتھ وقت لگانے سے یاسر کی شخصیت میں نکھار پیدا ہو گیا اور والدین اس پر فخر کرنے لگے۔

یاسر کے علم میں یہ بات آئی کے انکے چھوٹے چچا اور پھوپی سے انکے گھر والوں کی بات چیت بند ہے ۔ یاسر ان وجوہات کی جستجو میں لگ گیا جس کی بناء پر قطع تعلق ہے ، یاسر کو پتہ چلا کہ انکے دادا کے انتقال کے بعد انکے والد بڑے ہونے کے ناطے کاروبار پر قابض ہو گئے تھے اور میراث تقسیم نہیں ہوئی تھی ، یاسر نے میراث کے مسائل مولانا سے معلوم کیے اور پھر اپنے ابو سے بڑے ادب کے ساتھ عرض کی ، پہلے تو ابو نے کوئی جواب نہیں دیا او ر خاموش رہے، یاسر بے چین ہو گیا اور دوبارہ اپنے والد محترم سے بات کی کہ میراث کی تقسیم بہت ضروری ہے ، کسی کا پیسہ کھانا بڑا گناہ ہے ، اب ابو ناراض ہو گئے اور کہا کہ بس بس اتنا بھی deep جانے کی ضرورت نہیں ہے ، اور یہ کے مولانا نے تمھارا دماغ خراب کیا ہوا ہے ، مولانا سے اتنا تعلق بھی اچھا نہیں ، یاسر یہ سن کر حیران رہ گیا۔

یاسر نے ارادہ کیا کہ مولانا سے یہ مسئلہ حل کرائے اور دل میں یہ سوچا کہ جس شخص نے مجھ جیسے کو ٹھیک کر دیا اس کے لئے یہ کیا مسئلہ ہے ، اسی خیال کے ساتھ مولانا کے پاس گیا اور ان سے مدد چاہی لیکن مولاناکا جواب سن کر یاسرکی حیرانگی میں اور اضافہ ہو گیا، مولانا نے فرمایا کہ تمھارا مسئلہ آسان تھا کہ برا ماحول تھا اور ناسمجھی تھی اور یہ مسئلہ مشکل ہے کہ دنیا اور مال سے محبت ہے اور علماء پر اعتراض ،یہ کہہ کر مولانا یاسر کے ابو کو راہ راست پر لانے کی سوچ میں گردن جھکا لی۔
Ilyas Katchi
About the Author: Ilyas Katchi Read More Articles by Ilyas Katchi: 40 Articles with 35585 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.