غیّور مگر مجبور قبائلی عوام

 پاکستان اور افغانستان کے درمیان واقع سات ایجنسیوں پر مشتمل پہاڑی علاقہ جو ابھی تک نام سے بھی محروم ہے، FATAیعنی Federaly Administerated Tribal Areaکہلاتا ہے اور ان کے با شندوں کوعموما قبائلی عوام کے نام سے پکارا جاتا ہے۔دنیا تو درکنار پاکستان کے بھی بہت کم لوگ ان لوگوں کے رسم و رواج، روایات ،عادات و اطوار سے واقف ہیں مگر جو واقف ہیں، ان کو اچھی طرح یہ بات معلوم ہے کہ قبائلی عوام میں اﷲ تعالیٰ نے اپنی ایک صفت کوٹ کوٹ کر بھری ہو ئی ہے اور وہ صفت ہے ’’ غیور ‘‘ہو نے کی، اﷲ تعالیٰ کا ایک نام غیور ہے اور ان لوگوں میں بھی غیرت اور خودی کے جذبات اﷲ تعالیٰ نےکثرت سے پیدا کئے ہیں مگر افسوس صد افسوس کہ آج یہ غیوّر لوگ بہت مجبور بن چکے ہیں ، در بدر کی تھو کریں کھا رہے ہیں، اپنے ہی ملک میں مہاجر بن چکے ہیں، بے گھر، بے یار و مددگا ر دوسروں کی مدد کے طلبگار ہیں۔اس وقت اگر ہم ان کے مسائل کو زیرِ قلم لائیں تو ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے مگر اپنے کالم کی تنگ دامنی کا خیال رکھتے ہو ئے اختصار کے ساتھ ان کے چند مسائل او ر ان کے حل کا جائزہ اس آرزو کے ساتھ پیش کریں گے کہ شاید حکومت ان پگڑی والوں (عزّت دار) لوگوں کے مسائل کی طرف  متوجہ ہو جائے ۔

آج قبائلی عوام کا سب سے بڑا مسئلہ امن و امان کا قیام ہے۔1979میں روس نے جب افغانستان آیا تو پاکستان نے امریکہ کی مدد سے روس کے خلاف کار وائیوں کا آغاز کیا ۔قبائلی علاقہ جات اس جنگ کے لئے لاگ ایریا بن گیا، روس کو شکست ہو ئی ۔نائن الیون کے بعد جب امریکہ نے افغانستان پر لشکر کشی کی تو یہ علاقہ شدّت پسندوں اور دہشت گردوں کی محفوظ آ ما جگاہ بن گیا جس کی وجہ سے اس علاقے میں امن ،استحکام اور خو شحالی نام کی کو ئی چیز باقی نہیں رہی اس وقت پاک فوج ضربِ عضب کے نام سے قبائلی علاقہ جات میں اپریشن کر رہی ہے امید کی جاتی ہے کہ پاک فوج اپنے مشن میں کامیاب ہو جائیگی لیکن اگر قبائلی علاقہ جات کے دیگر مسائل کو حل کرنے کی کو شش نہیں کی گئی تو پاک فوج کی قربانیاں رائیگاں چلی جا ئینگی۔کیونکہ قبائلی عوام امن کے علاہ دیگر ایسے مسائل کا شکا ر ہیں جن کو حل کئے بغیر اس علاقے میں امن قائم نہیں کیا جاسکتا اور جب تک قبائلی علاقہ جات میں امن وترقی کو یقینی نہیں بنایا جاتا ، تب تک پاکستان میں بھی امن امان کی صورتِ حال کو بہتر نہیں بنایا جا سکتا۔امن و امان قائم رکھنے کے لئے قانون اور انصاف کی فراہمی اولین شرط ہے مگر افسوس کہ قبائلی علاقہ جات میں قانون ہے نہ کو ئی انصاف۔برطانیہ نے 1901میں اپنے دورِ حکومت میں ایک کالا قانون ایف سی آر (فرنٹئیر کرائم ریگو لشنز) کا نام سے رائج کیا ،جو قانون کے نام پر ایک سیاہ دھبہ ہے جس کا مقصد بر طانوی استعمار کے مفادات کا تحفظ کرنا تھا اس قانون کے نفاذ کو فاٹا میں ایک صدی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے مگر پاکستان میں کسی حکومت کو یہ توفیق نصیب نہ ہو سکی کہ اس بدنامِ زمانہ قانون کو ختم کر سکے یا کم از کم اس میں اصلاح کر سکے لہذا پہلا کام قبائلی علاقہ جات میں قانون اور انصاف کی کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔قبائلی علاقہ جات کا ایک نہایت اہم مسئلہ تعلیم ہے، ساتوں ایجنسیوں میں کو ئی یو نیورسٹی یا معیاری تعلیمی درسگاہ مو جود نہیں، جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے، کسی بھی علاقے کا سفر جب سے شروع ہوگا، تعلیم سے شروع ہو گا ،کسی بھی قوم کے افراد کو تعلیم ہی با شعور بناتا ہے اور با شعور انسان ہی حقیقی معنوں میں انسان ہے جو با شعور نہیں وہ انسان بھی نہیں، با شعور انسان ہی شر کو خیر سے جدا کر سکتا ہے اور باطل کو الگ کر کے حق کو پہچانتا ہے۔ تعلیم انسان کو ذہنی آنکھ عطا کرتی ہے جس کے ذریعے وہ غلط اور درست میں تمیز کر سکتا ہے ۔بناء بر ایں قبا ئلی علاقہ جات میں معیاری تعلیمی درسگاہوں کا قیام اشّد ضروری ہے۔بصورتِ دیگر وہاں امن کا قیام یا ترقی کا سفرکسی دیوانے کا خواب ہی ہو سکتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ قبائلی علاقہ جات میں ذریعہ مواصلات کو ترقی دینا، سڑکوں کا جال بچھانا بھی نہایت ضروری ہے تاکہ وہاں کے لوگوں کو بند بستی علاقوں میں آنا جانا آسان ہو ، اس طرح نہ صرف یہ کہ ان کو سامان کی ترسیل میں آسانی ہو گی بلکہ ملک کے دیگر باشندوں کے ساتھ روابط قائم کرنے اور ترقی کے سفر میں آگے نکلنے کی ترغیب بھی حاصل ہو گی۔

مناسب ہو گا کہ ایک ایسی کو نسل تشکیل دی جائے جس میں تمام قبائلی علاقہ جات کے نمائندے شامل ہوں اور حکومت ان کے مشورے سے فاٹا میں اصلاحات کا عمل شروع کرے، قانون و انصاف کی فراہمی ہو یا تعلیمی درسگاہوں کا قیام، آمد و رفت کا انفرا سٹرکچر ہو یا بے گھر قبائلیوں کی بحالی، حکومت فاٹا کونسل کے کندھے سے کندھا ملا کر نیک نیتی کے ساتھ ترقی کے زینے پر قدم بڑھائے۔اس طرح امید کی جا سکتی ہے کہ غیور مگر مجبور قبائلی عوام بھی مجبوری کے دلدل سے نکل کر پاکستان کے مفید اور معزز شہری بن سکیں گے۔۔
roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 282515 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More