میں یہ کس کے نام لکھوں جو الم گزر رہے ہیں

 کل13 مئی کو صبح سویرے اٹھے تو ایک دل دہلا دینے والی خبر سننے میں آئی خبر یہ تھی کی کراچی میں صفورہ چورنگی کے قریب اسماعیلی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کی ایک بس پر دہشت گردوں کا حملہ ہوا ہے یہ لوگ جماعت خانہ جا رہی تھی اس دہشت گردی میں کثیر جانی نقصان ہوا ۔ اسماعیلی کمیونٹی انتہائی پر امن کمیونٹی ہے اور دنیا میں کاروباری طور پر بہت معروف ہے اور بانی پاکستان قائد اعظم کا تعلق بھی اسی کمیونٹی سے بتایا جاتا ہے اس کمیونٹی کی تعمیر و ترقی پاکستان میں کوشش نا قابل فراموش ہیں۔اس بار اس پر امن کمیونٹی کو دہشت گردوں کی طرف سے نشانہ بنایا گیا ہے۔

پاکستان میں ویسے تو کوئی بھی محفوظ نہیں ہے آج ہمارا وطن پاکستان ہر طرف سے بد امنی کا گہوارہ بنا ہوا ہے آئے دن کوئی نا کوئی واقعہ رو نما ہوتا رہتا ہے اور ان واقعات کے ہونے پر ہم لوگ صرف باتیں ہی کرتے رہتے ہیں مگر اس کے بارے میں کوئی عملی اقدام نہیں کر تے ہیں اور ہماری یہی عملی حکمتِ عملی کو فقدان ہی ہے جس کی وجہ سے ہم اپنے آپ کو لہو میں نہلانے میں مصروف ہیں کیوں کی کسی بھی معاشرہ کے امن کے خراب کرنے والے حالات کے پیدا ہونے میں ایک عرصہ لگتا ہے پھر ہی ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں اسی لئے کسی شاعر نے کہا تھا۔
زمانہ کرتا ہے برسوں آبیاری اس کی
حادثہ ایک دم نہی ہوتا

ہمارے سامنے سانحہ صفورہ چورنگی جیسے واقعات کے رونما ہونے کی آبیاری ہوتی ہے مگر ہم ان کے روکنے کے لئے کچھ نہیں کرتے اور جب وہ سانحہ ہو جاتا ہے تو صرف ہماری زبان چلتی ہے۔ بنی کریم ﷺ نے مومن کے بارے میں فرمایا کہ مومن ایک سوراخ سے دو بار ڈسہ نہیں جاتا ہم کیسے مومن ہونے کے دعوی دار ہیں کہ ہر روز ہم دہشت گردی کے سوراخ سے ڈسے جاتے ہیں مگر ہم پھر بھی ہوش کے ناخون نہیں لیتے ہیں۔ کب تک ہم دہشت گردی کے سانپ کے گزر جانے کے بعد اس کی لکیر پیٹتے رہیں گے۔

آخر کب تک ہمارا خون بہایا جاتا رہے گا ۔ دنیا میں جو اقوام کامیاب ہیں وہ ہیں کہ جو اپنی ایک غلطی سے سیکھتی ہیں اور پھر ایسے اقدامات کرتے ہیں جن کی وجہ سے وہ ایسے واقعات سے محفوظ رہتے ہیں موجودہ امریکہ جو کہ دنیا میں ترقی کا ایک نشان ہے اس کی تعمیر و ترقی میں جن لوگوں نے بنیادی کردار ادا کیا ان میں سے ایک ابراھیم لنکن تھے ابراھم لنکن کی زندگی کے بارے میں بہت سی کتب تحریر کی گئی ہیں انہیں کتب میں سے ایک پر اثر کتابA Lincoln Reader ہے اس کتاب کو پال ایم اینجل نے تحریر کیا تھا یہ کتاب ابراھیم لنکن کی پیدائش سے لیکر آخری سانس تک جامع روداد ہے ۔ یہ کتاب سو ا چھے سو صدصفحات پر مشتمل ہے اس کتاب میں ابراھم لنکن کی وفات سے چند دن قبل کا ایک واوقعہ درج ہے ۔ ابراھیم لنکن نے اپنی وفات سے چند دن قبل خواب میں دیکھا کہ ’’ ا ن پر گولی چلائی گئی اور اس کی نعش ایک تابوت میں رکھ دی گئی اور لوگ بین کر رہے ہیں۔

پال اینجل کے مطابق خواب سے بیدار ہو کر اس نے اپنے سارے بڑے عہدیداروں کا ایک اجلاس بلایا۔ دن رات ایک کر کے آنے والی نسلوں کے لئے پالیسیاں بنائیں۔ انہیں سینٹ اور کانگریس سے پاس کروایا اور خود دنیا سے خاموشی سے چلا گیا اور یوں وہ امریکہ کی اور دنیا کی توریخ میں امر ہو گیا ۔

اکیسویں صدی میں نائن الیون ہوا امریکہ سے بڑے پیمانے پر کام کیا ۔ ائرپورٹوں، بندرگاہوں ،بسوں، کے اڈوں پر بھی اترنے والوں مسافروں کی سکینگ کی اور فون ریکارڈ کئے عوامی شعور ابھارنے کے لئے کلاسز جاری کئیں امریکہ نے دنیا بھر میں بڑے مظالم ڈھائے مگر اپنے آپ کو محفوظ کرلیا ۔ برطانیہ میں سیو ن سیون ہوا اس کے بعد برطانیہ نے اپنی پالیسیاں مربوط کیں اور یوں مزید حملوں کااندیشہ ختم ہو کر رہ گیا ۔ سپن میں دہشت گردی ہوئی انہوں نے اپنی پالیسیاں بنائیں اور اپنی آنے والی نسلوں کو ان واقعات سے محفوظ کرلیا ہے ۔

پاکستان کرۂ ارض کا ایسا ملک ہے جس نے دہشت گردی کے ہونے والے پہ درپہ واقعات سے سبق نا سیکھا کوئی بھی سانحہ صفورہ چورنگی جیسا واقعہ ہوتا ہے تو ہم خواب سے بیدار ہوتے ہیں ہاتھ پاؤں مارتے ہیں مگر پھر ہم سو جاتے ہیں آخر کب تک ہم نیند میں رہیں گے ؟آخر کب تک۔

اکتوبر 2001 سے اب تک ہم دہشت گردی کا شکار ملکوں میں پہلے نمبر پر ہیں50 ہزار سے زائد جانوں کو شعلوں میں راکھ کروا چکے ہیں۔ کبھی داتا دربار لاہور میں حادثہ ہوتا ہے ۔کبھی کراچی میں شعیوں کبھی کوئٹہ میں ہزارہ برا دری کبھی لاہور میں احمدیوں کبھی پشاور میں عیسائیوں کو جانوں کی قربانی دینا پڑتی ہے اسی دہشت گردی کی لعنت کی وجہ سے ہم کھربوں ڈالر معیشت کا نقصان اٹھا چکے ہیں لاکھوں لوگ اپاہجوں کی زندگی گزار رہے ہیں ہمارے سکول ،ہماری عبادت گاہیں، شاپنگ پلازے آگ میں جل چکے ہیں آخر کب ہم جاگیں گے کب ہم میں کوئی ابراھم لنکن جیسی پالیسیاں بنانے والا پیدا ہو گا کب ہمارے بچے بے فکر سکولوں میں جائیں گے کب ہم تمام مذاہب و مسالک کے لوگ بے فکری سے اپنی مذہبی عبادت گاہوں میں جائیں گے ۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہو گا جب ہم لوگ نفرتوں کو درمیان سے نکال کر پر امن فضا بنانے کے لئے دن رات ایک کردیں گے۔ جب تک ہم اپنے اندر سے دہشت گردی کے ذہنی مریضوں کو ختم نہ کرسکے جب تک ہماری زبانیں میں مسلمان تو کافر کی گردان گردانتی رہیں گی ایسے واقعات ہوتے رہے گے ۔ کیوں کہ واجب القتل قرار دینے والے کافر کے فتوی دینے والے لوگ بھی ہمیں میں سے ہیں اور ہمارے گلی محلوں میں ہمارے شہروں میں ہی رہتے ہیں جن کے فتوں کی وجہ سے ہی قتل و غارت گری اور جلاؤ گراؤ کا بازار گرم ہے ۔
میں یہ کس کے نام لکھوں جو الم گزر رہے ہیں
میرے شہر جل رہے ہیں میرے لوگ مر رہے ہیں
کوئی اور تو نہیں ہے پس خنجر آزمائی
ہمیں قتل ہو رہے ہیں ہمیں قتل کر رہے ہیں

بانی پاکستان کیسا پاکستان چاہتے تھے ایسا پاکستان جہاں تمام مذاہب و مسلک کے لوگ امن کے ساتھ رہیں قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی ۱۱ اگست ۱۹۴۸ کی تقریر میں فرمایا تھا کہ۔
’’یہاں ایک فرقہ یا دوسری فرقہ میں تمیز نا ہو گی ہم اس بنیادی اصول کے تحت کام شروع کر رہیں کے کہ ہم ایک ریاست کے باشندے اور مساوی باشندے ہیں آپ آزاد ہیں آپ اس لئے آزاد ہیں کہ اپنے مندروں میں جائیں آپ آزاد ہیں کہ اپنی مسجدوں میں جائیں یا ماکستان کی حدود میں اپنی کسی عبادتگاہ میں جائیں آپ کا تعلق کسی مذہب کسی عقیدے یا کسی ذات سے ہو اس کو مملکت کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں میرا خیال ہے کہ ہمیں یہ بات بطور نصب العین اپنے سامنے رکھنی چاہیے ۔‘‘

خدا ہم سب کو ایسا پر امن پاکستان اپنی زندگی میں دیکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔( آمین)
Nadeem Ahmed Farrukh
About the Author: Nadeem Ahmed Farrukh Read More Articles by Nadeem Ahmed Farrukh: 33 Articles with 27637 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.