ایگزیکٹ سکینڈل

مسئلہ بول
مسلسل کئی روز سے پاکستان میں صرف ایک ہی مسئلہ ہے ’’ ایگزیکٹ کی جعلی ڈگریاں ‘‘ باقی تمام مسائل حل ہو چکے ہیں پاکستان امن کی آماجگاہ اور ترقی یافتہ ملک بن چکا ہے ۔ پاکستان کے تمام بیروزگار افراد کو روزگار میسر آ چکا ہے ۔ اب پاکستان میں کوئی بھوک سے رات بسر نہیں کرتا ۔ لوڈشیڈنگ کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا ہے ۔ انڈسٹری کاپہیہ رواں دواں ہے جس سے برآمدات گزشتہ ریکارڈ توڑ چکی ہیں ۔ کراچی میں پانی کا مسئلہ بھی حل ہو چکا ہے ۔ اب بچے کین اٹھائے پانی مافیا کی لگائی قطار میں نہیں کھڑے ہوتے بلکہ سکول جاتے ہیں اور واپسی پر دوستوں پر پانی پھینکتے ہوئے شرارتیں کرتے ہوئے گھر کی راہ لیتے ہیں ۔ کراچی کے حالات بھی پر امن ہو چکے ہیں تمام افراد رات گئے تک چوکوں چوراہوں پر خوش گپیوں میں مصروف رہتے ہیں ۔ بھتہ خوروں نے ہاتھ میں تسبیح تھام کر تبلیغ امن کا فریضہ انجام دینا شروع کر دیا ہے ۔ دنیا بھر میں موجود پاکستانی سفارتخانوں کے باہر سیاحوں اور سرمایہ کاروں کی لمبی لائنیں پاکستانی ویزا کے حصول کے لیے لگ چکی ہیں ۔ پاکستان دنیا کا سپر پاوربن چکا ہے جسے کسی دشمن کی پرواہ ہے نہ فکر ۔ پاکستان کا ہر شہر ی تعلیم یافتہ اور مہذب بن چکا ہے جہاں فرقہ پرستی کی کوئی گنجائش نہیں پاکستان نے اپنی لوٹی ہوئی تمام دولت سوئس اکاؤ نٹس سے واپس نکال لی ہے جس سے پاکستان کے ذمہ تمام قرض کی ادائیگی کر دی گئی ہے ۔

اب یہاں پیدا ہونے والا ہر بچہ مقروض نہیں بلکہ روشن مستقبل کی ضمانت لے کر آتا ہے ۔ تمام ممالک سبز پاسپورٹ کو غیر معمولی اہمیت دینے لگے ہیں ۔ اب کسی پاکستانی کو ائر پورٹ پر ننگا نہیں کیا جاتا بلکہ زبردست سلامی پیش کی جاتی ہے ۔ اب دنیا کی تمام اقوام پاکستان کے آگے ہاتھ باندھے کھڑی ہیں۔۔ ۔ ارے کیا کہہ رہے ہیں بھائی ایسا کچھ نہیں ہے یہی آپ سب کی رائے ہو گی؟ تو پھر یہ ہمارے میڈیا کو کیا ہو گیا ہے ۔ کیا الیکٹرانک میڈیا اور کیا پرنٹ میڈیا ہر طرف ایگزیکٹ کی بازگشت سنائی دے رہی ہے ۔ ہمارے میڈیا کے لیے کراچی میں پیاس سے بلکتے بچے اہم نہیں ہیں ۔ بالی وڈ کی لونڈی کا کردار ادا کرنے والے میڈیا کے لیے مصر کے پہلے جمہوری صدر محمد مرسی کو سزائے موت کا عندیہ بھی نہیں جھنجھوڑتا ۔ 6سال کے بعد پاکستان میں کرکٹ کی واپسی بھی میڈیا کے لیے اتنی اہم نہیں کیونکہ اغیار کے گھر میں صفِ ماتم جو بچھی ہوئی ہے ۔ کالا باغ ڈیم کے بعد پاک چائنا اکنامک کوریڈور کو متنازع بنانے کے لیے دشمنوں سے بھاری تاوان وصول کر کے اٹھکیلیاں کرنے والے نام نہاد سیاست دانوں کو بے نقاب کرنا ہمارے میڈیا کا کام نہیں بلکہ اپنا حصہ وصول کرنا میڈیا کا حق ہے ۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں مرنے والے تمام لوگوں نے خود کشی کی ہے جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق اس لیے میڈیا کو کوئی حق نہیں پہنچتا اُس پربات کی جائے ۔

گزشتہ کئی دنوں سے تمام میڈیا پر صرف ایک ہی ’’قومی مجرم‘‘ کو ڈسکس کیا جا رہا ہے جس نے دنیا میں پاکستان کے روشن او ر بے داغ دامن پر دھبہ لگایا ہے ۔ کوئی اینکر ایسا نہ ہوگا جس نے اس’’ قومی مجرم‘‘ پر لعن طعن نہ کی ہو۔کیونکہ ان کا جرم ہی کچھ ایسا تھا جس سے پاکستان کا سر شرم سے جھک گیا۔کوئی کہ رہا ہے نام ای سی ایل میں ڈالا جائے تو کوئی کہ رہاہے غداری کا مقدمہ درج کردیا جائے۔جی بالکل سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچادیا گیاہے، ذوالفقار مرزا کے سابق صدرزرداری پر سنگین الزامات کے باعث انہیں انصاف کے کٹہرے میں لا کرکھڑا کردیا گیا ہے۔این آراوسے فائدہ اٹھانے والے تمام مجرم پابندِ سلاسل کردیے گئے ہیں۔’’را‘‘اور اس کے آلہ کاروں کو چوکوں پر لٹکا دیا گیا ہے۔اب صرف ایک ہی مسئلہ رہ گیا ہے کسی طرح ایگزیکٹ نامی کمپنی کو تالا لگا دیا جائے۔کیونکہ دنیا کے سب سے معتبر ادارے ’’نیو یارک ٹائمز‘‘ کے شریف النفس اور پاکستان سے محبت کرنے والے صحافی ’’ڈیکلن والش‘‘ نے اسے بے نقاب کیا ہے، جنہیں پاکستان سے گارڈ آف آنر دے کر رخصت کیا گیاتھا۔اب پاکستان میں کسی ادارے کے خلاف کارروائی ہوگی تو صرف نیویارک ٹائمز کے کہنے پر ہی ہوگی۔کیونکہ ان سے بڑھ کر پاکستان کا کوئی خیر خواہ نہ ہے۔سوچنے والی بات یہ ہے کہ اچانک سے پاکستان کا میڈیا محب وطن کیسے بن گیا۔حقیقت تو یہ ہے کہ تمام میڈیاایگزیکٹ سے زیادہ’’ بول ‘‘سے لرز اٹھا ہے۔ایگزیکٹ کو صرف بول کی وجہ سے ہدفِ تنقید بنایاجارہاہے۔ایک معروف اینکرپرسن نے تو انتہا ہی کر دی جب کامران خان سے یہ کہلوانے پر اچھلنے لگے کہ اگر الزامات سچ ثابت ہوتے ہیں تو بول چھوڑ دیں گے اتنے بڑے صحافی سے اتنی احمقانہ ڈیمانڈ کی توقع نہ تھی۔ایک معصوم سا سوال ہے کیا انہوں نے اپنا ادارہ چھوڑ دیاتھا؟حقیقت تو یہ ہے کہ میڈیا کے مگرمچھ صحافت کو یرغمال بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔صحافیوں کے بچے بنیادی سہولیات کے لیے انکے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہیں۔رپورٹر جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کرپشن کو بے نقاب کرتا ہے تو مالکان اشتہار کی مالیت سے اسے ڈھانپ دیتے ہیں۔دنیا میں لاکھوں نہیں کروڑوں آئی ٹی کمپنیز ہیں جو ایسی آن لائن سروسز مہیا کر رہی ہیں ، حتیٰ کہ گوروں نے بھی پاکستان ،انڈیا میں اپنی کمپنیز بنا رکھی ہیں جن سے کام یورپ کے معیار کا اور مزدوری سستے داموں میں کی جاتی ہے۔ابھی ایگزیکٹ پر الزامات لگے ہیں جس کی تحقیق بہرحال ہونی چاہیے لیکن میڈیا کی دہائی سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ میڈیا کی شامت آنے والی ہے۔آخر میں یہ کہنا چاہتا ہوں جتنی تیزی حکومت اور میڈیا نے ایگزیکٹ کاٹرائل کرنے پر لگائی اتنی اگر ’’را‘‘اور وطن دشمنوں کے خلاف لگائی ہوتی تو

پاکستان میں امن قائم ہوجاتا جو پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بنا ہوا ہے۔
Farid Razzaqi
About the Author: Farid Razzaqi Read More Articles by Farid Razzaqi: 15 Articles with 10127 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.