پولیو ایک مہلک بیماری

اسکی عمر چو بیس سال ہے وہ ایک پاؤں سے مکمل معذور ہے روزانہ صبح سویرے اٹھ کر ہسپتال جانے کی تیاریاں کرتی ہیں ۔اس کا گھر ہسپتال سے ایک کلو میٹر دور ہے وہ معذوری کے باوجودہسپتال میں بیمار لوگوں کی خدمت کرتی ہے جب وہ اپنے ڈیوٹی سے فارغ ہو جاتی ہے اور گھر واپس جانے لگتی ہے تو ایک عجیب سکون اور خوشی محسوس کرتی ہے یہ باتیں چوبیس سالہ صبا ء گل بتاتی ہے ۔صباء گل جب دو سال کی عمر میں تھی تو پولیو جیسے مہلک بیماری نے اسکی دونوں ٹانگیں متاثرکی ۔اور وہ چلنے پھرنے سے قاصر ہوگئی ۔صباء گل بتاتی ہے کہ اسکی ماں نے اسے بتایا ہے کہ بچپن میں اسکی والد نے پولیو کے قطرے پلانے سے منع کیا تھا اور اس وجہ سے اسی پولیو ہوگیا ۔وہ رنجیدہ ہو کر اپنی بچپن کی یادوں میں کھو کر بتاتی ہے کہ جب دوسرے بچے کھیلتے تھے خاص کر دوڑاور انکھ مچولی کی کھیلوں میں اسے ہمیشہ شکست ہوتی تھی کیونکہ وہ ٹھیک چل نہیں سکتی تھی جب اُسے سکول میں داخل کر دیا گیا تو وہ اپنے ایک پاؤں کو پکڑ کر اورگھسیٹے ہوئے سکول جاتی تھی وہ اکثرسو چتی تھی کہ کاش وہ بھی عام بچوں کی طرح دوڑ سکتی کھیلوں میں حصہ لئے سکتی اور اپنے لئے بازار سے خود خریداری کر سکتی ۔ لیکن ان تمام مشکلات کے باجود اس نے بارہو یں تک تعلیم حاصل کی اب وہ ایک ہسپتال میں نرسنگ کی تعلیم حاصل کررہی ہے اور اس کا ارادہ ہے کہ بیمار لوگوں کی خدمت کریں اس کی چوٹی بہن کی شادی ہو چکی ہے اس کی بھی خواہش ہے کہ اس کی شادی ہو جا ئے مگر معذروں کے ساتھ کون شادی کرتا ہے ۔

پولیو ایک لا علاج مرض ہے اور اس کی جراثیم ایک جگہ سے دوسرے جگہ تک پھیلتی ہے، اور خاص کر پانچ سال تک کی عمر کی بچوں پر حملہ اور ہوتی جس سے متاثرہ ہونے والہ بچہ تمام عمر معذور ہوجاتاہے۔ یہ باتیں سوات میں یونیسکو کے معاون ڈاکٹر بدر منیر بتا تے ہے وہ کہتے ہے کہ ہر بچے کو پانچ سال کی عمرمیں پولیو سے بچاو کے دو قطرے پلانے ضروری ہے انکا کہنا ہے بہت سے والدین کی نا سمجھی کی وجہ بچے پولیو جیسے مہلک بیماری کی وجہ سے معذور ہو جاتے ہیں خیبر پختون خوا ہ اور ضلع سوات میں ایسے ہزاروں مرد اور خواتین پولیو سے متا ثر ہے اور معذوری کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ ان میں خواتین زیادہ مشکلات سے دو چار ہے کیو نکہ ان معذور خواتین کے بحالی یا دیکھ بھال کے لئے کوئی با قاعدہ ادارہ نہیں ، اگر کوئی غیر سرکاری طور پرادارہ موجود بھی ہے تو والدین اپنے بچیوں کو ان اداروں میں نہیں بھیج رہے ہیں کیونکہ والدین اپنے بچیوں کے لئے فکر مند ہوتے ہیں سینکڑوں ایسے خواتین جوکہ پولیو بیماری کا شکار ہوچکے ہیں ۔ وہ اپنے خاندان اور والدین پر بوج بن کرکسمپر سری کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ان کی شادیوں میں معذوری بڑی روکاوٹ ہے ۔ زیادہ تر ایسے معذور افراد نے تعلیم بھی حاصل نہیں کی ہے اوران کی تعلیم میں یہی معذوری روکاوٹ بنی ہے کیونکہ معذور لوگ عمر بھر زیادہ توجہ چاہتے ہیں اور وہ ہمیشہ دوسروں پر انحصار کرتے ہیں ان معذور افراد میں زیادہ تر بھیک مانگتے ہیں یا ان پر بھیک مانگا جاتاہے۔ کئی پولیوں سے متاثرہ افراد کو اللہ کے خاص بندے قرار دئے جاتے ہیں اور ناسمجھ لوگ ان سے منتے منگواتے ہیں ان سے دعائیں لینے کے لئے جاتے ہیں۔

صباء گل ان ہزاروں معذور افراد میں سے ایک ہے جوکہ پولیو جیسے مہلک بیماری کی باوجود اپنی زندگی کچھ بہتر گزار رہی ہے اور بہت سے مشکلات کا وہ ہمت کے ساتھ مقابلہ کررہی ہے۔ لیکن پولیو سے متاثرہ زیادہ تر لوگ انتہائی مشکلات سے دوچار ہے اور ان میں سب سے زیادہ بری حالت خواتین کی ہیں۔ اورا یسے لوگ بے بسی کی زندگی صرف اس وجہ سے گزارنے پر مجبور ہے کہ انکی والدین نے ان کو بر وقت پولیو سے بچاو کے قطرے نہیں پلائیں جو کہ ہمارے معاشرے کا ایک المیہ ہے ۔
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Shaista Hakim ,Journalist
About the Author: Shaista Hakim ,Journalist Read More Articles by Shaista Hakim ,Journalist : 5 Articles with 5375 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.