برما کے مسلمانوں پر ظلم :کوئی معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں

ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانیؔ
برما کے روہنگیا مسلمانوں پر قیامت صغریٰ ٹوٹ رہی ہے۔ 2012سے اب تک ان کی پریشانیوں کا کوئی سدباب نہیں ہوسکا۔ نہ تو برماکی سرکار اپنے ظلم سے رک رہی اور نہ عالمی ادارے کو مؤثر اقدام کر پارہے ہیں۔ ترکی ، سعودی عرب ، ایران اور کچھ دوسرے ممالک نے راحت رسانی کے کچھ اسباب ضرور فراہم کئے ہیں مگر ان کی حقیقت اونٹ کے منہ میں زیرے سے زیادہ نہیں ہے ۔ ابھی حال ہی میں خبر آئی ہے کہ تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار برمائی مسلمان جنوبی ایشیا کے سمندروں میں بے یارو مدد گار گھوم رہے ہیں ۔ آبی اسمگلروں کے ذریعے خالی کی گئی کشتیوں میں بڑی تعداد میں برما کے مسلمان وہاں کے شمالی مغربی ضلع سے فرار ہورہے ہیں۔ اور کشتیوں پر سوار ہوکر جان بچانے کی غرض سے ملیشیا ، انڈونیشیا ، تھائی لینڈ اور بنگلہ دیشی ساحلوں کے ذریعے ان ممالک میں پناہ لینے کی کوشش کررہے ہیں مگر کوئی ملک بھی اتنی بڑی تعداد میں بد قسمت مسلمانوں کو پناہ دینے کے لئے آمادہ نہیں ہے۔ واضح رہے کہ برما میں روہنگیانی مسلمانوں کی کل تعداد تقریباً 13لاکھ ہے ۔ اور جون 2012سے ہی وہاں کی مقامی آبادی نے ان پر عرصۂ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ خود کو عدم تشدد کے علمبردار کہنے والے بودھ بھکشوؤں نے ان مسلمانوں کی گویا نسل کشی کا بیڑ اٹھا رکھا ہے ۔ دوسال سے مسلسل کشت وخون کا سلسلہ جاری ہے۔ ہزاروں مسلمانوں کو قتل کیا جاچکا ہے اور روزگار کے دروازے ان پر بند کئے جا چکے ہیں۔ ایسے میں تنگ آکر یہ مسلمان نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ہیں ۔ ادھر برما کی سرکار نے یہ کہہ کر آگ میں گھی ڈال دیا ہے کہ روہنگیانی مسلمان بر ما کے شہری نہیں ہیں۔ گویا ان کو قتل کر نا یہ ملک بدر کردینا جائز ہے ۔ دنیا میں حقوق انسانی کی علمبردار اور نوبل امن انعام یافتہ محترمہ آن سانگ سوچیجو برما کی جمہوریت پسند لیڈر ہیں اورجن کو چند سال قبل ہی یوروپین کے دباؤ میں قید سے رہا کیا گیا ہے ۔ ان کا بھی ان مسلمانوں کے بارے میں یہی کہنا ہے کہ وہ نہیں جانتی کہ یہ مسلمان برما کے شہری ہیں یا نہیں۔ عالمی ادارے بس یہ کہہ کر دنیا کو تسلی دے رہے کہ برمائی مسلمان دنیا کے سب سے زیادہ مصیبت زدہ اور مجبواقلیت ہیں ۔ اب جب کہ یہ مسلمان پڑوسی مسلم ممالک میں پناہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں تو یہ ممالک بھی ان کو پناہ دینے سے گریز کر رہے ہیں ۔ ادھر برمائی سرکار نے حال ہی میں کہا کہ یہ مسئلہ برما نے پیدا نہیں کیا ہے لہٰذا حکومت میانمار کا اس سے کچھ لینا دینا ہے۔ انتہائی ڈرامائی انداز میں برما کے صدارتی محل نے اپنے بیان میں کہہ دیا کہ روہنگیا ؤں کا کوئی تعلق برما سے نہیں ہے اور یہ لفظ ہی ان کی ڈکشنری میں موجود نہیں ہے۔ مسئلے پر تبادلۂ خیال کے لئے تھائی لینڈ نے پندرہ پڑوسی ممالک کے متعلقہ افسران کی ایک میٹنگ 29مئی کو طلب کی ہے جس میں بر ما نے یہی جواز دے کر شرکت سے انکار کردیا ہے کہ اگر دعوت نامے پر پر لفظ روہنگیا لکھا گیا تو وہ اس کانفرنس میں شریک نہیں ہوں گے ۔ ادھر کھلے سمندروں میں بھوک پیاس اور گرمی سے بے حال ان لاکھوں مسلمانوں کا عالم یہ ہے کہ وہ زندہ رہنے کے لئے خو د اپنا ہی پیشاب پینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ہر کشتی میں دو۔ دو تین ہزار لوگ عورتیں، بچے ،بوڑھے ، جوان ادھ ننگی حالت میں ہر ملک کی سرحد کے پاس جاتے ہیں اور وہاں کی سیکورٹی فورسزان کی کشتی روک کر کسی دوسرے ملک کی جانب موڑ دیتی ہیں اور کچھ پانی اور تھوڑی بہت غذائی اجناس کشتی میں ڈال دیتی ہیں جن کو حاصل کر نے کے لئے کشتی کے مسافر اس قدر لڑتے ہیں کہ اب تک ان لڑائیوں میں سو سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں ۔ مگر حقوق انسانی کے تمام ادارے کھلی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ رہے ہیں ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کر کے مسئلے کو مزید خراب کر رہے ہیں ۔ قدرتی آفات سے متاثر لوگوں کی امداد کے نا م پر اربوں روپے خرچ کر نے والے ممالک روہنگیا مسلمانوں کو کسی قسم کی آفت کا شکار نہیں مانتے ۔

برما میں روہنگیا ئی مسلمانوں کا یہ مسئلہ نیا نہیں ہے ہے ۔ بات اس وقت بگڑی جب 1982میں جنرل نی ون کی ایک فوجی حکومت نے ایک نیا شہریت کا قانون پاس کیا جس کے تحت روہنگیا ئی مسلمانوں کی شہریت کو رد کردیا گیا ۔ اور اس قانون کی رو سے لاکھوں روہنگیا ئی مسلمانوں سے شہری حقوق سلب کر کے ان کو ملک کے اندر ہی کیمپوں میں رہنے پر مجبور کردیا ۔ تقریباً ایک لاکھ روہنگیا ئی مسلمان کو اپنا گھر بار چھوڑ کے کسی نہ کسی کیمپ میں پناہ گزیں ہونا پڑا اور برمائی فوج نے انہیں روزگار حاصل کرنے کی خاطر بھی ان بد حال کیمپوں سے باہر نہیں نکلنے دیا۔

برما کے ان 13لاکھ مسلمانوں پر الزام یہ ہے کہ وہ وہاں کے مقامی باشندے نہیں ہیں بلکہ بنگالی ہیں ۔ اور بنگلہ دیشی مہاجرین کی حیثیت سے برما پر ان کا کوئی حق نہیں ہے ، جبکہ تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ 1826میں جب برطانوی راج نے اپنی حدود کو وسیع کرتے ہوئے ریاست بنگال کی توسیع کی اور برما تک بنگال کی ریاست کو پھیلادیا تب وہاں کی زرخیز زمینوں پر کھیتی کرنے کی غرض سے بڑی تعداد میں بنگالی مزدوروں کو وہاں لے جا کر آباد کیا تھا ۔ واضح رہے کہ بنگالی باشندوں کو کھیت مزدور کی حیثیت سے نہ صرف برما لے جایا گیا بلکہ برطانوی سامراج نے انہیں مفلس مزدور سمجھ کر دنیا کے دیگر بہت سے ممالک میں بھی آباد کیا تھا ۔ مثلاً آسام ، ماریشس ،مالدیپ ، سورینام، ترینڈاڈ ، گیانا اور دیگر جنوبی امریکی ممالک تک ان مسلمانوں کو لے جایا گیا ان کی نسلیں آج بھی وہاں آباد ہیں اور اپنے پرانے دیار ان کو یاد تک نہیں ہے ۔ اسی سلسلے کی کڑی کے طور پر برما میں بھی ان بنگالی مسلمانوں کو آباد کیا گیا تھا ۔ حالانکہ اس سے قبل بھی وہاں خاطر خواہ مسلم آبادی موجود تھی ۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ برما میں 1430-34کے زمانے سے ہی مسلمانوں کی آبادی موجود تھیں اور ماروک علاقے کے راجہ بارا میکھلا نے 1430میں بنگال کے سلطان جلا ل الدین محمد شاہ کی فوج کی مدد سے ارکان صوبیپر اپنا تسلط قائم کیا تھا اور اسی زمانے میں سلطان بنگال کے مسلمان فوجی وہاں آباد ہوگئے تھے ۔ اس جنگ کے معاوضے کے طور پر ارکان کے راجہ نے وہاں کے کچھ علاقے بھی بنگالی سلطنت کی تحویل میں دے دیئے تھے جن پر مسلم آبادیاں بسائی گئی تھیں ۔ تاریخ شاہد ہے کہ اس کے بعد لمبے عرصے تک اراکان میں بنگالی اسلامی سکوں کا چلن جاری رہا۔خود اراکان کا راجہ بھی جو سکے ڈھلواتا تھا اس میں ایک جانب برمی زبان ہوتی تھی اور دوسری جانب فارسی زبان لکھی ہوتی تھی۔ یہ سلسلہ 1666تک جاری رہا اور اس مرحلے میں اراکان سے چٹاکانگ تک کا علاقہ برما میں شامل رہا ۔ سلطنت بنگال سے علیحدگی کے بعد بھی لمبے عرصے تک برما کے بودھ راجہ اپنے لئے مسلم خطابات استعمال کرتے رہے۔

1785 تک اراکان ایک خود مختار صوبہ تھا جس پر برما کا کوئی تسلط نہیں تھا اور وہ سلطنت بنگال کی حمایت سے اپنی خود مختاری قائم کئے ہوئے تھا لیکن 1785 میں برمانے اس خود مختار ریاست پر قبضہ کرلیا اور ہزاروں اراکانی باشندوں کو قتل کردیا۔ اس سے گھبرا کر بڑی تعداد میں اراکانی لوگ صوبۂ بنگال میں بھاگ کر آگئے جہاں اس وقت برٹش حکومت تھی ۔ اس کے نتیجے میں اراکان صوبے کی آبادی بہت کم رہ گئی تھی چنانچہ 1826میں جب برطانوی راج برما تک پھیل گیاتو بنگال اوربرما کے درمیان کوئی بین الاقوامی سرحد نہیں رہی اور نگریزوں نے بڑی تعداد میں بنگالیوں کو اراکان پہنچ کر کھیت مزدور کی حیثیت سے کام کرنے کی حوصلہ افزائی کی جس کے نتیجے میں اراکان ضلع کی آبادی میں خاطرخواہ اضافہ ہوا ۔ یہی وہ مسلمان ہیں جن کو آج روہنگیا مسلمان کہاجاتا ہے ۔

آج میانمار کی سرکار دعویٰ کرتی ہے کہ روہنگیا لفظ کبھی برما میں رائج ہی نہیں رہا جب کہ حقیقت یہ ہے کہ 1799میں فرانسس ہملٹن نے اپنی کتاب ’’محمڈن‘‘ میں ارکان میں رہنے والے مسلمانوں کے لئے Rooingaکا لفظ استعمال کیا ہے اور یہ لفظ وہاں کے مسلمان خود اپنے لئے استعمال کرتے تھے اسی لفظ کی بدلی ہوئی شکل روہنگیا ہے۔ یہاں یہ بھی واضح ہے کہ برما میں بہت سی اصطلاحوں میں مستقل تبدیلی ہوتی رہی ہے مثلاً آج جس ملک کو میانمار کہا جاتا ہے اس سے قبل اس کا نام برما تھا اور آج بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے اسی طرح برما کی راجدھانی رنگون کہلائی جاتی تھی جب کہ آج اس کا نام ژینگون ہے ۔ ناموں کی یہ تبدیلیاں قوموں کی زندگی میں عام بات ہے خو د ہمارے ملک میں حال ہی میں کئی ضلعوں اور ریاستوں کے نام بدلے گئے ہیں-

تاریخی اعتبار سے روہنگیا مسلمانوں کا وجود ثابت ہے ۔ پھر سوال یہ ہے کہ آخر برما کی حکومت کو اس لفظ سے چڑھ کیوں ہے اور آخر 1990کے بعد سے اب تک روہنگیا ئی مسلمانوں پر یہ قیامت کیوں برپا کی جارہی ہے۔تاریخ میں اس سوال کا جواب بھی پوشیدہ ہے ۔ اراکان صوبے میں مسلمانوں کی تعداد0 8فیصد کے قریب ہے ۔ اویہاں سے 1947میں یہ آواز بلند ہوئی تھی کہ اس ضلع کو بھی مشرقی پاکستان میں شامل کیا جائے۔ درحقیقت اس وقت برما کی شخصیات نے برما مسلم لیگ بھی قائم کی تھی اور اس مسلم لیگ نے محمد علی جناح سے درخواست کی تھی انہیں بھی پاکستان کا حصہ قرار دیا جائے مگر محمد علی جناح نے یہ کہہ کر انکار کردیا تھا کہ وہ برما کے لیڈر نہیں ہے اور نہ ہی یہ برما کی آزادی کی جنگ ہے ۔ اس کے بعد مجاہدنام سے وہاں ایک تحریک اٹھی اور اس نے شدت سے اراکان صوبے کی خود مختاری کا مطالبہ کیا تھا جس کو بہت پرتشدد طریقے سے وہاں کی فوجی حکومتوں نے کچل دیا تھا 1948میں برما کی آزادی کے بعد ہی یہ تحریک بھی شروع ہوگئی تھی ۔حقخود اختیاری کے اس مطالبے کی ہی پاداش میں برما کے مسلمانوں کو یہ آج سزا دی جارہی ہے ۔ حالانکہ آج روہنگیا مسلمانوں کا مطالبہ محض اتنا ہے کہ ان کو برما کی شہری کا تسلیم کیا جائے اس غرض سے انہوں نے روہنگیا لفظ سے بھی سمجھوتے کا عندیہ ظاہر کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ ان کو میانمار مسلم کی حیثیت سے وہاں کا شہری تسلیم کر لیا جائے ۔ لیکن غالباً برما کے حکمرانوں کا اس بات کا خدشہ ہے کہ اتنی کثیر آبادی والے صوبے سے خود مختاری کا مطالبہ کبھی بھی اٹھ سکتا ہے اور اس کے لئے وہاں کے جغرافیائی حالات بھی اراکانی مسلمانوں کے حق میں ساز گار ہیں کیونکہ ان کی سرحد ایک جانب مسلم اکثریتی ملک بنگلہ دیش ہے سے ملتی ہے اور دوسری جانب مسلم اکثریتی صوبے آسام سے بھی ملتی ہے ۔ بس اسی ایک خدشے کے تحت برما کے مسلمانوں پر عرصۂ دراز سے ظلم کیا جاتارہاہے۔

اب اس ظلم کی مزید ایک وجہ اور بھی قرین از قیاس ہے وہ یہ کہ جب سے مغربی ایشیا اور عرب ممالک کا تنازعہ خونی صورت اختیار کرگیا ہے اور ایک کے بعد ایک یہ ممالک ریت کے ڈھیر میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں تب سے ہی مغربی ایشیا کی منڈیوں کی اہمیت بھی معدوم ہوتی جارہی ہے اور ایشیا میں ایک نئی منڈی کی ضرورت موجود ہے ۔ سنگاپور اس منڈی کی حیثیت سے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ مگر پھر اس منڈی میں چین کا مال زیادہ رہے گا اور یوروپی ممالک کے مال کی کھپت یہاں کم ہوگی چنانچہ اس کا راستہ یہ ہے کہ میانمار میں سمندر کے قریب کے علاقے کو ایک صنعتی زون میں تبدیل کیا جائے اور یہاں سستا مال تیا ر کیا جائے جسے سنگا پور لے جا کے بیچنا آسان بھی ہوگا اور مسافت کی کمی وجہ سے کرائے وغیرہ کم ہوجانے سے ان کا مال سستا بھی ہوگا۔ چنانچہ حال ہی میں یوروپی یونین نے برما پر عائد اقتصادی ناکہ بند ختم کردی اور اس کے عوض میں آن سانگ سوچی کو رہا بھی کیا گیا علاوہ ازیں تقریباً 40ہزار سیاسی قیدی جو زیادہ تر عیسائی ہیں اور جن کو 8اگست 88کی بغاوت کے بعد گرفتار کیا تھا ان کو بھی رہا کردیا گیا ۔ اور اس نام پر اقتصادی ناکہ بندی ختم کی گئی مگر دراصل اس سے بر ما کے اس علاقے میں صنعتی فروغ کے لئے سرمایہ کاری کا راستہ کھولنا مقصود تھا ۔ اگر یہاں یوروپی یونین اپنے سرماے سے انڈسٹری لگاتا ہے تو اسمیں کام کرنے کے لئے بڑی تعداد میں مزدوروں کی ضرورت پیش آئے گی۔ اور یہ ضرورت برما کے یہ مجبور و مقہورمسلمان پوری کریں گے کیونکہ وہ نہ تو اس ملک کے شہری ہوں گے اور نہ ہی ان کے پاس روزگار کے کوئی ذرائع ہوں گے۔ بھوکے پیاسے سمندروں میں سرگرداں رہنے سے بہتر ان کے لئے یہ ہوگا کہ وہ انتہائی کم اجرت پر کہیں مزدوری کرلیں۔ چنانچہ یہ جبری مزدور بن جائیں گے اور یوروپی یونین اور برما اس دنیا کی واہ واہ لوٹیں گے کہ دیکھئے کسی قد ر انسانی ہمدردی کے جذبات سے لبریز ہیں کہ لاکھوں بے گھر خانمان برباد لوگوں کی باز آباد کاری کر دی گئی ۔ اس طرح چین سے صنعتی مقابلہ بھی کرلیا جائے گا ۔ تباہ حال مغربی ایشیا کا متبادل بھی فراہم ہو جائے گا اور مسلمانوں کی کمر بھی اس قدر توڑ دی جائے گی کہ وہ اراکان میں زندگی بھر کبھی حق خود اختیاری کا مطالبہ نہ کرسکیں اور یوروپ کے عیسائی و برما کے بدھسٹ مال کمائیں گے ۔ بہرحال خو دہمارے ملک کی ہندو سرکار بھی اسی سمت میں کام کرتے ہوئے جنوب ایشیا کے سمندروں کو محفوظ بناکے امریکہ اور یوروپی یونین کے لئے پرامن آبی راہداری کی راہ ہموار کررہی ہے ۔
Safi Rahman
About the Author: Safi Rahman Read More Articles by Safi Rahman: 15 Articles with 8530 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.