الرجی کی اقسام٬ وجوہات اور ان کا علاج٬ ڈاکٹر امتیاز اطہر صدیقی

دوسری بیماریوں کی مانند الرجی بھی ایک عام بیماری ہے جس کی متعدد اقسام ہوتی ہیں- یہ ایک ایسی بیماری ہے جس کے ردِ عمل انسان مختلف بیماریوں کا شکار بن سکتا ہے- الرجی کن وجوہات کی بنا پر ہوتی ہے؟ اس کی کتنی اقسام ہیں؟ یا پھر اس کا علاج کیا ہے؟ ان تمام اہم سوالات کی جوابات جاننے کے لیے ہماری ویب کی ٹیم نے معروف ای این ٹی سرجن ڈاکٹر امتیاز اطہر صدیقی سے خصوصی ملاقات کی- ڈاکٹر امتیاز سے حاصل کردہ مفید معلومات ہماری ویب اپنے قارئین کی آگہی اور شعور کے لیے یہاں پیش کر رہی ہے-

ڈاکٹر امتیاز کے مطابق “ الرجی معاشرے موجود ہر طرح کے طبقے سے تعلق رکھنے والے فرد میں پائی جاتی ہے٬ چاہے وہ شہر کا رہائشی ہو٬ گاؤں کا ہو یا پھر کسی پہاڑی علاقے کا“-
 

image


“ کوئی ایسے شے میں ہمارے جسم سے ٹکرا جائے یا جسم میں داخل ہوجائے جسے ہمارا جسم قبول نہ کرے اور اس کا ردِ عمل ظاہر کرے اسے الرجی کہتے ہیں- الرجی میں انسان مختلف بیماریوں کا شکار بن سکتا ہے“-

ڈاکٹر امتیاز کہتے ہیں کہ “ الرجی کئی اقسام ہوتی ہیں٬ ایک عام الرجی ہوتی ہے جو ہمیں مٹی٬ دھول اور دھوئیں کی وجہ سے ہوتی ہے- یہ الرجی پاکستان سمیت کئی ایشیائی ممالک میں عام ہے جبکہ یورپی ممالک اور امریکہ میں ناپید ہے البتہ ان ممالک الرجی کی دیگر اشکال ضرور موجود ہیں“-

“ ہمارے ہاں جو الرجی سب سے زیادہ ہوتی ہے اور ناک کے راستے نظامِ تنفس میں داخل ہوتی ہے وہ مٹی دھول سے ہونے والی الرجی ہے“-

“ مٹی دھول وغیرہ میں دیگر اجزاﺀ کا علاوہ ایک خاص کیڑا بھی پایا جاتا ہے جس کا فضلہ مٹی دھول میں شامل ہو کر ہمارے جسم میں داخل ہوجاتا ہے اور الرجی کا سبب بنتا ہے- اس کیڑے کو Dust Mite کہا جاتا ہے“-

“ یہ عام دھول مٹی میں تو زیادہ موجود نہیں ہوتا لیکن وہ دھول مٹی جو گھر کے اندرونی حصوں میں پائی جاتی ہے مثلاً کوئی ایسا کمرہ جو ایک مدت سے نہ کھولا گیا ہے اس میں موجود مٹی میں اس کیڑے کی آبادی میں اضافہ ہوجاتا ہے- اسی طرح اگر کوئی پرانی کتاب جھاڑی جائے تو اس سے نکلنے والی مٹی کے اثرات بھی ہم پر آجاتے ہیں“-

ڈاکٹر امتیاز کا کہنا تھا کہ “ کئی لوگوں کو ٹریفک کے دھوئیں سے بھی الرجی ہوتی ہے- خصوصاً ڈیزل گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں سے زیادہ الرجی ہوتی ہے کیونکہ اس دھوئیں میں دھول بھی شامل ہوچکی ہوتی ہے“-

“ اس کے علاوہ ایسے گھر جو صنعتی علاقوں میں وافع ہوتے ہیں تو ان کے آس پاس موجود فیکٹریوں سے نکلنے والا دھواں بھی وہاں کے رہائشیوں کو متاثر کرتا ہے“-
 

image

“ اکثر لوگوں کو فوڈ الرجی بھی ہوتی ہے٬ اس الرجی میں کھانے کے ذریعے جسم میں کوئی ایسا پروٹین داخل ہوجاتا ہے جسے جسم قبول نہیں کرتا اور اس کا ردِ عمل ظاہر ہونا شروع ہوجاتا ہے- مثال کے طور پر کئی لوگوں کو انڈے سے الرجی ہوتی ہے اور ایسا شخص اگر انڈے کا ٹکڑا بھی کھا لے تو اسے الرجی شروع ہوجاتی ہے“-

“ ردِ عمل کے طور پر ایسے شخص کو دانے نکلنے لگتے ہیں یا پورے جسم میں سوئیاں چھبتی محسوس ہوتی ہے یا پھر ایسی خارش شروع ہوجاتی ہے جو قابو میں نہیں آتی“-

ڈاکٹر امتیاز کے مطابق “ کچھ لوگوں کو سونگھنے سے بھی الرجی ہوتی ہے٬ یہ لوگ جب کوئی خاص پرفیوم لگاتے ہیں تو اس کی خوشبو ناک میں پہنچتے ہی الرجی شروع ہوجاتی ہے- اس صورت میں لوگوں سانس رکنا شروع ہوجاتا ہے“-

“ اسی طرح ایک الرجی کو Pollen الرجی کہا جاتا ہے جبکہ اسے اردو میں زر گُل کہتے ہیں- پھولوں کو غور سے دیکھا جائے تو اس میں آپ کو کچھ خوبصورت پارٹیکلز دکھائی دیں گے انہی کو زر گُل کہتے ہیں“-

“ جب کوئی پھول اپنی مدت پوری کرلیتا ہے تو یہ زر گُل اور ان کے ساتھ لگے بیج ہوا کے ذریعے ماحول میں پھیل جاتے ہیں- اس کی وجہ پھول کی نسل کو بڑھانا ہوتا ہے“-

“ تاہم یہ زرگُل جہاں پھیلتے ہیں وہاں موجود لوگوں کی ناک کے ذریعے جسم میں داخل ہوجاتے ہیں اور الرجی کا سبب بن جاتے ہیں“-

ڈاکٹر امتیاز کا کہنا تھا کہ “ پولن الرجی دنیا کے دو ممالک میں زیادہ ہوتی ہے ایک پاکستان اور دوسرا آسٹریلیا- پاکستان میں یہ الرجی اسلام آباد کے شہریوں میں پائی جاتی ہے اور اس کی وجہ اس شہر میں موجود بےپناہ درخت ہیں- اس شہر میں یہ الرجی بہار کے موسم کے دوران ہوتی ہے“-
 

image

“ آسٹریلیا میں اس الرجی کو Grass Pollen کہا جاتا ہے اور وہاں یہ الرجی گھاس کی وجہ سے ہوتی ہے کیونکہ وہاں گھاس کے زر گل پھیلتے ہیں“-

“ زر گل الرجی کے لیے اینٹی الرجی یا ویکسین تیار کی جاتی ہے جو کم مقدار میں انسان کے جسم میں داخل کی جاتی ہے- اور اس طرح آہستہ آہستہ جسم میں موجود قوتِ مدافعت زر گل الرجی کے مطابق ہوجاتی ہے“-

“ زر گل الرجی سے بجنے کے لیے درخت کاٹنے کے بجائے اگر شہد کی مکھیاں پالی جائیں تو زیادہ بہتر ہے- یہ شہد کی مکھیاں پھول سے جو رس چوس کر شہد بنائی گئی اس سے زر گل کے پارٹیکلز کم ہوجائیں گے اور یہ شہد جب استعمال کیا جائے گا تو بھی زر گل الرجی سے بچا جاسکتا ہے“-

ڈاکٹر امتیاز کا کہنا ہے کہ “ الرجی کے لیے ضروری ہے کہ اینٹی الرجی کا استعمال کیا جائے یا پھر ایسی چیزوں سے دور رہا جائے جن کی وجہ سے ہمیں الرجی ہوتی ہے“-

“ یقیناً مٹی دھول وغیرہ سے ہم نہیں بچ سکتے لیکن باقی چیزوں سے مثلاً فوڈ الرجی سے تو ہم خود کو محفوظ بنا سکتے ہیں“-

“ اس کے علاوہ ایک الرجی سر کی خشکی کی وجہ سے بھی ہوتی ہے- جب ہم کنگھی کرتے ہیں تو اس دوران خشکی کے چھلکے ہماری ناک٬ کان اور آنکھوں میں گرتے ہیں اور اس طرح ہمیں الرجی کا سامنا کرنا پڑتا ہے“-

ڈاکٹر امتیاز کا یہ بھی کہنا تھا کہ “ آج کل نوزائیدہ بچوں میں بھی الرجی پائی جاتی ہے اور اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ان کا قوت مدافعت کا نظام ابھی مکمل نہیں ہوتا ہے اور اسی وجہ سے یہ بچے مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں“-

“ اس کے علاوہ ناک کی الرجی کا علاج ضرور کروائیں کیونکہ ہے دمے کا مؤجب بن سکتی ہے“-
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

YOU MAY ALSO LIKE:

Unlikeother diseases, allergy is a common problem with various types. The reaction of allergy can make you a victim of other related diseases. What are the causes of allergies? How many types exist? What is the treatment? To seek answers of these questions, HamariWeb team visited renowned ENT specialist Dr. Imtiaz Ather Siddiqui. The information gained from the interview is shared here.