اقوام متحدہ تیسری دنیا پر تسلط کا ذریعہ

26جون 1945 میں لیگ آف نیشنز کے بعد اقوام متحدہ کے نام سے بننے والا ادارہ اس ضمن میں متنازعہ حیثیت اختیار کر گیا ہے کہ اس نے اصل مقاصد سے ہٹ کر چند پسندیدہ قوتوں کے اشارے پر چلنا شروع کر دیا ہے ۔ لیگ آف نیشنز ادارہ نے معاشی ، اقتصادی اور سیاسی میدانوں میں اپنا فعال کردارادا کیا لیکن دنیا میں امن قائم کرنے میں نا کام ہوگیا ۔ دنیا کو تیسری جنگ عظیم سے بچانے کیلئے اقوام متحدہ کے تمام ممبر ممالک جنرل اسمبلی کے ممبران ہوتے ہیں جبکہ سلامتی کونسل کے ارکان کی تعداد (11) ہے جس میں 5ممالک کے رکنیت مستقل ہے جنہیں ویٹو کا اختیار حاصل ہے ۔ یہ ممالک امریکہ ،برطانیہ ، روس ، فرانس اور چین ہیں ۔ سال میں ایک مرتبہ جنرل اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوتا ہے تاہم ہنگامی حالات میں کسی بھی وقت یہ اجلاس طلب کیا جاسکتا ہے ۔

آئیے اب ہم دوڑاتے ہیں اس امرپر کہ آیا کہ اقوام متحدہ نے ان بیتے سالوں میں اپنا کردار احسن طریقے سے ادا کیا ہے ؟ کیا دنیا واقعی جنگ کے خطرات سے بہت دور چلی گئی ہے ؟ کیاتم رکن ممالک کو اب بھی اس کی کارکردگی پر مکمل اعتماد ہے ؟ پچھلی جند دہائیوں میں دنیا دوحصوں میں تقسیم نظر آئی ۔ امریکہ اور روس کی دھڑے بند ی نے ایشائی اور تیسری دنیا کے ممالک کوکچل کررکھ دیا ۔ 1991میں روس کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے بعد دنیا ایک نئے ورلڈ آرڈر میں تبدیل ہوگئی ۔ معاشی اور اقتصادی طور پر مستحکم ممالک کی تنظیم G8سامنے آئی جبکہ لڑکھڑاتے اور دوسروں کی بیساکھیوں پر چلنے والے ممالک نے SARC تنظیم کا سہارا لیا ۔ امیر ممالک امیر تر ہوتے گئے اور غریب ممالک غربت کی عام سطح سے نیچے چلے گئے ۔ نتیجہ نکلا کہ موجودہ دنیا کی تقسیم امیر اور غریب کی تقسیم ہے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ ورلڈ بنک ، آٗئی ایم ایف اور یونیسکو طاقت ورقوتوں کے آلہ کا ربن گئے ۔ ماہرین کے مطابق تیسری جنگ عظیم اب غریبوں اور امیروں کے درمیان ہوگی ۔ اب ترقی پذیر ممالک کے لئے اقوام متحدہ مسائل کے حل کا فورم نہیں رہا بلکہ ان پر طاقت کے استعمال کا ذریعہ ہے ۔

گذشتہ چند سالوں میں اقوام متحدہ کی طرف سے کئے جانے والے فیصلے صرف سپر پاور ز کی خوشنودی کیلئے کئے گئے۔ انہیں طاقتوردھڑوں کی اشیر باد حاصل تھیں ۔ عراق پر طاقت کا استعمال ہو یا افغانستان میں فوجی کاروائی ایران کے جوہری پروگرام پر پابندیاں ہوں یا شمالی کوریا کے خلاف قراردادیں یہ سب کچھ یکطرفہ اور دہشت گردی کے ذریعے دہشت گردی کو ختم کرنے کی چالیں ہیں ۔ نائن الیون کے بعد اقوام متحدہ صرف امریکہ اور برطانیہ کے سفارتی ادارہ کے طور پر ابھرکر سامنے آیا ۔ عراق پر بلا جواز فوجی کاروائی نے پوری دنیا کے امن کو تہہ بالا کر دیا ہے ۔ پوری دنیا اس وقت آگ کی لپیٹ میں ہے۔ خود کش دھماکے اور ہر روز امریکی اور برطانوی فوجیوں پر حملے امریکہ اور اتحادیوں کیلئے تشویش کا باعث بن چکے ہیں ۔ ابھی ایک محاذ ختم ہی نہیں ہواتھا کہ اقوام متحدہ نے افغانستان پر حملے کی اجازت دے دی ۔ اسامہ اور ملا عمر کو پکڑنے کے بہانے اس جنگ کے دائرہ کا رکواب تو پاکستان کی سرحدوں تک بڑھا دیا گیا ہے ۔ شمالی علاقہ جات اور سوات میں کاروائی پس پردہ قوتوں کے ایماء پر ہورہی ہے ۔ آج اقوام کو ایران کے جوہری پروگرام پر تشویش ہے ۔ آج شمالی کوریہ کا ایٹمی پروگرام خطرے کی گھنٹی ہے۔ امریکہ ،برطانیہ،فرانس اور چین کے ایٹمی پروگرام کی گارنٹی کون دے گا۔

امریکہ اور برطانیہ کی ہڈیوں پر پلنے اولے اقوام متحدہ کو فلسطین اور کشمیر میں دہشت گردی نظر کیوں نہیں آتی ۔ یہاں پر معیار کے پیمانے مختلف کیوں ؟ امریکہ کے پالتو اسرائیل کے خلاف قراردادویٹو کیو ں ہوجاتی ہے ؟ دینا کے سب سے بڑے دہشت گرد ملک بھارت جس کی سات لاکھ جوج معصوم کشمیریوں کو کچل رہی ہے کے خلاف کروائی کیوں نہیں ہوتی ؟ یہاں انسان نہیں بستے ۔ یہاں انسانی حقوق کی پامالی کیا اقوام متحدہ کی نظروں سے اوجھل ہے خود اپنی قراردادوں پر جسے عمل درآمد کرنے کا اختیار نہیں اس ناٹک کو اب بند کر دینا ہی بہتر ہے ۔ اسرائیل اور بھارت کی جارہیت پر عالمی دنیا کی خاموشی معنی خیز ہے ۔ شاید تیسری دنیا کے ممالک کا پسنا ہی مقدر ہے ۔ امریکی اقوام سے انہیں کسی قسم کی امید یں وابستہ رکھنا فضول ہے ۔

تیسری دنیا پریکطرفہ کا روائیوں کی زندہ مثال کچھ عرصہ پہلے سلامتی کونسل کی طرف سے پاکستان کی چند مذہبی جماعتوں پرپابندی ہے ۔ جماعت الدعوۃ سمیت تین مذہبی جماعتوں پر پابندی بمبئی بم دھماکوں کے بعد پاکستان کا مؤقف سنے بغیر لگائی گئی ۔ یہ کسی بھی ملک کی خود مختیاری پر ڈاکہ لگانے کے مترادف ہے ۔ بغیر تحقیق ، بغیر ثبوت اور بغیر کسی ٹھوس شواہدات کے کسی بھی ملک کے خلاف کاروائی کھلی دہشت گردی اور غنڈہ گردی ہوا کرتی ہے ۔

زیر بحث موضوع کی طوالت کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آج تیسری دینا یا ترقی پذیر ممالک اپنی بقاء کی جنگ لڑرہے ہیں ۔ انہیں اندرونی و بیرونی خطرات لاحق ہیں ان کی سنوائی کیلئے افسوس کوئی ورلڈ فورم موجود نہیں ۔ اقوام متحدہ چند طاقتورملکوں کا آلہ کاربن چکا ہے ۔ اسے جند ممالک اپنے مضموم مقاصد کے حصول کیلئے کمزور اور معاشی لحاظ سے ضعیف ممالک کے خلاف استعمال کرہے ہیں ۔ ڈالر کے مقابلے میں ان ممالک کی کرنسی روز بروز گرتی جارہی ہے مہنگارئی عروج پرہے یہ ممالک ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کے قرضوں تلے دبے جارہے ہیں ۔ پاکستنا جیسے ترق پذیر ملک کا 33فیصد بجٹ ان قرضوں کے مارک اپ ہر خرچ ہورہاہے ۔ یونیسکو اور یونیسیف جیسے اداروں کے پروگرام ان ممالک کیلئے خیرات کی طرح ہیں ۔ کشکول لیے ہمارے صدراور وزیر اعظم کبھی آئی ایم ایف کے دروازے کھٹکھٹاتے ہیں تو کبھی ڈونرز کا نفرنس بلائی جارہی ہیں ۔ ان حالات میں اقوام متحدہ ان ممالک کے زخموں پرمر حم رکھنے کی بجائے ہر سال شرائط بڑھا کر نمک کا کام کررہاہے ۔ عالمی منڈی میں جس پر چند ممالک کی اجارہ داری ہے اور اقوام متحدہ کی پذیرائی حاصل ہے تیسری دنیا کے ممالک کی اقتصادی حالت کو تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔ میر ناقص رائے تو یہ ہے کہ اقوام متحدہ جس میں آزاد فیصلے کرنے اور کرانے کا دم نہیں کو بند کردینا ہی بہتر ہے ۔ تیسری دنیا ممالک کو اب جنگ کا خوف نہیں انہیں ایٹم بم نہیں روٹی چاہیے ۔ انہیں جینے کا سہارا چاہیے لڑنے کیلئے ہتھیار نہیں یا تو ویٹو پاور ختم ہونی چاہیے ۔ یا پھر اسلامی ممالک کی نمائندگی کیلئے ویٹو پاور کا اختیار پاکستان کے پاس بھی ہونا چاہیے تب جا کر کہیں طاقت کا توازن نہتر ہو گا اور اسلامی ممالک سمیت تیسری دنیا کے ممالک کا استحصال بند ہوگا ۔
Mushtaq Ahmad kharal
About the Author: Mushtaq Ahmad kharal Read More Articles by Mushtaq Ahmad kharal: 58 Articles with 104993 views Director princeton Group of Colleges Jatoi Distt. M.Garh and a columnist.. View More