بجلی کی لوڈشیڈنگ میں اضافہ، سبسڈی کا خاتمہ....عوام کدھر جائیں؟

آئے روز ملک میں گرمی بڑھ رہی ہے۔ جوں جوں جون قریب آرہا ہے، سورج کے غصے میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت نے عوام کو کرب میں مبتلا کردیا ہے۔ عوام سورج کی جھلسا دینے والی گرمی سے پنکھے چلا کر ہی بچ سکتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے طویل لوڈشیڈنگ کی وجہ سے عوام کو پنکھوں کو ہوا بھی میسر نہیں ہے۔ یوں تو بجلی کی لوڈشیڈنگ ملک کا دائمی مسئلہ ہے، لیکن جب سے گرمی میں اضافہ ہونا شروع ہوا ہے، تب سے لوڈشیڈنگ کے دورانیے میں ابھی اضافہ کردیا گیا ہے اور جتنی دیر لائٹ آتی ہے، اس دوران بھی وقفے وقفے سے بجلی میں تعطل کا سلسلہ جاری رہتا ہے، جس سے نہ صرف بھاری تعداد میں عوام کا الیکٹرک سامان ضایع ہورہا ہے، بلکہ جان لیوا گرمی میں دن گزارنا بھی مشکل ہورہا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ شدید گرمی میں طویل لوڈ شیڈ نگ کو برداشت کرتے کرتے عوام نفسیاتی مریض بن چکے ہیں۔ موجودہ حکومت نے عوا م کو ذلیل و خوار کر نے میں سا بقہ حکو متو ں کے ریکارڈبھی توڑ دیے ہیں۔ گھروں میں نہ بجلی ہے، نہ پا نی ہے۔ ایسے حالات میں عوام کہاں جائیں؟ لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے اعلانات کے ساتھ اقتدار کی کرسیوں پر براجمان ہونے والے حکمرانوں کے خلاف روز روز احتجاج کرنے کے باوجود بھی لوڈشیڈنگ میں کمی نہ آسکی، بلکہ دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ مسلسل بڑھتی ہوئی لوڈشیڈنگ کے خلاف ایوان بالا کے اجلاس میں حکومتی و حزب اختلاف کے ارکان نے شدید احتجاج کیا ہے۔ اس کے ساتھ حکومت نے عوام پر بڑا ظلم یہ کیا کہ آئی ایم ایف کی شرائط کو مانتے ہوئے بجلی پر دی جانے والی سبسڈی میں کمی کر کے قیمت 3روپے بڑھادی ہے، جس سے عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ مسلسل بڑھتی ہوئی بجلی کی لوڈشیڈنگ اور بجلی پر دی جانے والی سبسڈی میں کی جانے والی کمی پر ملک کے مختلف حلقوں کی جانب سے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ گزشتہ روز ایوان بالا کے اجلاس میں حکومتی و حزب اختلاف کے ارکان نے سندھ اور بلوچستان میںطویل لوڈ شیڈنگ پر حکومت کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ ارکان کا کہنا تھا کہ 20 سے 22 گھنٹے تک بجلی کی بندش چھوٹے صوبوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کے الیکٹرک کے حکام خود کو قانون سے بالا تر سمجھتے ہیں، انہیں لگام ڈالی جائے، کراچی واٹر بورڈ اور دیگر اداروں میں گزشتہ 7 سال میں کی گئی بھرتیوں کی انکوائری کی جائے، حکومت رمضان سے قبل ہونے والی مہنگائی روکنے کے لیے اقدامات کرے۔ اجلاس میں نکتہ اعتراض پر عثمان کاکڑ نے کہا کہ بلوچستان کے اضلاع قلعہ سیف اللہ، قلات، چمن، زیارت اور لورالائی میں 20 سے 22 گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے، وعدے کے مطابق ٹیوب ویلوں کو بھی روزانہ 8 گھنٹے بجلی نہیں مل رہی، اربوں روپے مالیت کے باغات تباہ ہو رہے ہیں۔ جبکہ ن لیگ کے سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ کراچی میں بجلی کی بہت زیادہ لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے ، ایسا لگتا ہے کہ کے الیکٹرک ملکی قوانین سے بالا تر ہے، کسی کو جوابدہ نہیں، کون سا گروپ ہے جس نے کے ای ایس سی کو اونے پونے داموں میں خریدا؟ اب کے الیکٹرک کے کام کو لگام دینا ہو گی۔ پی پی پی کے سینیٹر مختار احمد عاجز دھامرہ نے کہا کہ سندھ میں 22 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کر کے بل ادا کرنے والوں کو بھی سزا دی جا رہی ہے، جبکہ واپڈا کے افسران ٹیلیفون پر بھی دستیاب نہیں ہوتے۔ واپڈا نے سندھ میں صوبائی حکومت کو ونڈ پاور اور سولر انرجی کے منصوبے سے روک دیا، لیکن اب پنجاب میں یہ منصوبے شروع کیے جا رہے ہیں، سندھ سے زیادتی ہو رہی ہے۔

دوسری جانب حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں بجلی پر سبسڈی ختم کا فیصلہ کیا ہے۔ فیصلے کے باعث بجلی کی قیمتوں میں دو سے تین روپے تک اضافہ کا امکان ہے۔ وزارت خزانہ کے ذرایع کے مطابق نئے مالی سال میں بجلی سبسڈی کی مد میں 150 ارب روپے مختص کیے جانے کی توقع ہے، جو کہ رواں مالی سال سے کافی کم ہے۔ اس کمی کو پورا کر نے کے لیے حکومت کو بجلی کی قیمت میں دو سے تین روپے فی یونٹ بجلی مہنگی کرنا پڑے گی۔ حکومت آئی ایم ایف کو بجلی سبسڈی کو مرحلہ وار ختم کرنے کی یقین دہانی کرا چکی ہے۔ واضح رہے کہ چند روز قبل دبئی میں وفاقی وزارت خزانہ اور آئی ایم ایف کے مابین مذاکرات ہوئے۔ بجلی اور گیس پر سبسڈی میں کمی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کی روشنی میں حکومت کو اس عالمی مالیاتی فنڈ کی طرف سے نئے اہداف دیے گئے۔ ان میں ایک بڑا ہدف آئندہ مالی سال کے دوران سبسڈی ختم کرنے کا ہے۔ بجلی پر دی جانے والی سبسڈی میں 80 ارب کی کمی کی جائے گی۔ وزیر خزانہ کی طرف سے مکمل طور پر ختم کرنے کا یقین دلایا گیا۔ واشنگٹن میں آئی ایم ایف کے دفتر کے حوالے سے شائع ہونے والی خبروں کے مطابق پاکستان کی اقتصادی ترقی پر اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے، تاہم یہ صاف ظاہر ہے کہ گیس اور بجلی پر سبسڈی ختم کرنے کا ہدف پورا کرنے کے لیے گیس اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ لازم ہو جائے گا اور اگلے مالی سال میں جو نئے ٹیکس لگائے جائیں گے یا ٹیکسوں میں جو ردو بدل ہو گا، ان کی وجہ سے عوام پر مالی بوجھ آئے گا تو سبسڈی ختم کرنے سے مزید 80 ارب روپے خزانے میں جمع ہونے کے لیے بوجھ عوام ہی برداشت کریں گے۔ ذرایع کے مطابق دبئی میں وفاقی وزارت خزانہ اور آئی ایم ایف جائزہ مشن کے مابین ساتویں جائزہ مشن مذاکرات میں آئی ایم ایف نے آئندہ مالی 16-2015 سال کے دوران دیگر شرائط کے ساتھ بجلی پر سبسڈی کا مکمل خاتمہ کرنے کی شرط میں کوئی نرمی کرنے سے انکار کردیا تھا۔ ذرایع کے مطابق وزارت خزانہ نے آئی ایم ایف جائزہ مشن کو بجلی پر سبسڈی 50فیصد کم کرنے کی تجویز پیش کی تھی، لیکن آئی ایم ایف جائزہ مشن اپنی مذکوروہ بالا شرائط میں کسی قسم کی نرمی لانے کے موڈ میں نہیں تھا۔لہٰذا پاکستان کو آئی ایم ایف کی تمام شرائط ماننا پڑیں۔ مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد آئی ایم ایف کے پاکستان مشن کے سربراہ ہیرالڈ فنگر نے کہا بھی تھا کہ گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران پاکستان معیشت کے اشاریے بہتر ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ خوش آئند بات ہے کہ پاکستان نے قرض کے حصول کے لیے آئی ایم ایف کی تمام شرائط کو پورا کیا ہے۔ ذرایع کے مطابق حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پر بجلی کی قیمت بڑھا کر عوام پر بجلی گرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط مان کر بجلی کی قیمت میں اضافہ کرنا انتہائی قابل مذمت ہے۔بجلی کی قیمت میں اضافے سے عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ ملک میں پہلے ہی مہنگائی بہت زیادہ ہے، ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیے عوام کو بہت زیادہ تگ و دو کرنا پڑتی ہے۔ دو وقت کی روٹی کے لیے بھی عوام کو سخت محنت مزدوری کرنا پڑتی ہے، لیکن حکومت نے ان حالات میں بجلی پر دی جانے والی سبسڈی ختم کر کے غریب عوام کے مسائل میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ بعض رہنماﺅں کا کہنا تھا کہ حکومت کو اپنے ملک کے عوام کی کوئی پروا نہیں ہے،حکمرانوں کو صرف اپنی حکومت عزیز ہے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 626005 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.