پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے اساتذہ

آزاد کشمیر میں اس وقت پرائیویٹ سکولوں اور کالجوں میں پڑھنے والے طلباء کی تعداد گورنمنٹ اداروں کے طلباء سے کئی گنا زیادہ ہے۔پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی فیسیں چھوٹے اور بڑے علاقوں کے حساب سے مختلف ہیں، جبکہ یہ ادارے بھی ہزاروں کی تعدادمیں ہرجگہ موجود ہیں۔

بڑے شہہروں میں پرائیویٹ اساتذہ کی تنخواہیں مناسب ہوں گی مگر زیادہ تر ایسے اداروں میں گرایجویٹ اور ماسٹرز ڈگری ہولڈرز کی قابلیتوں کیساتھ ظلم کی حد تک مذاق ہورہاہے، بعض او قات ۵۰،۵۰بچوں کی کلاس لینے والے اساتذہ کو ۵،۴بچوں کی فیس کے برابرتنخواہ مل رہی ہے یعنی کم از کم مزدور کی اجرت سے بھی انتہائی کم،نہ ہی ملازمت کی گارنٹی ہے اور نہ ہی پنشن کا نظام ہے۔بلکہ بیروزگاری اور حکومتی بے حسی کی وجہ سے اپنے حق کیلئے بولنے کی والوں کو اسی وقت فارغ کردیاجاتاہے۔ سیکیورٹی کے نام پہ الگ کٹوتیاں ہوتی ہیں۔ ان اداروں کے مالکان اپنے سٹاف ممبرز کو ذاتی ملازموں کو جلاد کی طرح ہر وقت ڈراکے رکھتے ہیں۔

ایسے اداروں کے دوسرے ملازمین بیچارے اور بھی قابل رحم ہیں تنخواہوں کے معاملوں میں۔

یہ طبقہ اصلی ڈگریاں ، سرکاری ملازمت کے حصول میں ناکامی، غربت، شرافت، علم و محنت سے محبت، سفید پوشی، سفارش سے محرومی ، گھریلو مسائل جیسی مجبوریوں کی وجہ سے اپنے جائز حقوق سے محروم ہے۔ایسے لوگ شدیدمحنت کی وجہ سے وقت سے پہلے کمزور بھی ہو جاتے اور مذید تعلیم بھی بچتیں نہ ہونے کی وجہ سے حاصل نہیں کر پاتے۔

ہر سال جب بھی بجٹ پیش ہوتا ہے تو ان پڑھ مزدور کی کم ا ز کم تنخواہ کا بہت چرچہ ہوتا ہے ، جبکہ پڑھے لکھے طبقے کی تنخواہ کی کوئی حدنہیں بتائی جاتی۔

پرائیویٹ سکولز ایسوسی ایشنز کو صرف مالکان سے غرض ہے، نہ تو ان کو مجبور والدین سے غرض ہے جو پیٹ کاٹ کر بچوں کو تعلیم حاصل کرا رہے ہیں اور نہ ہی مجبور اساتذہ سے غرض ہے جن کو ان کی محنت کے بدلے بہت کم معاوضہ دیا جاتا ہے۔

ایک طریقہ تو اتحاد کا ہے کہ تمام گرایجویٹس اپنی قابلیت کے مطابق پورے ملک میں تنخواہ کامعیار فکس کر لیں اور اس سے کم پر کوئی راضی نہ ہو۔

حکومت وقت سے بھی درخواست ہے کہ اپنے تمام ووٹرز کے حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے ایف۔اے،بی۔اے، ایم۔اے، ایم۔فل پرائیویٹ ملازمین کی کم ازکم مقررہ تنخواہ کا اعلا ن کریں اور طلباء کے والدین بھی ان محنتی اساتذہ کے لئے آوازبلند کریں۔ جن اداروں کے مالکان ایسا نہ کریں ان کیلئے اسی وقت سزا دینے کاقانون بنا یا جائے، جیسے وہ اپنے بیگار کیمپس کے ملازمین کو ہر وقت دینے کو تیار ہوتے ہیں۔

Asma
About the Author: Asma Read More Articles by Asma: 26 Articles with 25841 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.