زندگانی کی حقیقت

 فطری طور پر پر انسانی جبلت اور سرشت میں جذبہ محبت کو سمو دیا گیا ہے۔ وقت، حالت اور ماحول کا تغیر و تبدل جذبات محبت میں بھی تنوع بیدار کردیتا ہے، کوئی ، اﷲ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کوئی دنیوی مال و متاع کی محبت میں گرفتار تو کوئی اولاد کی محبت کا اسیر۔ لیکن ایک چیز ایسی ہے جس سے ہر کوئی بلا تفریق مذہب و ملت مرد ہو یا عورت، بوڑھا ہو یا جوان محبت کرتا ہے اور وہ ہے’’زندگی‘‘ اگر کسی کو کہہ دی اجائے کہ چند لمحے بعد تیری موت واقع ہوجائے گی تو اس کا کیا حال ہوگا۔ لیکن اس کے برعکس کبھی کبھی محیر العقول واقعات رونما ہوتے ہیں، یہی زندگی جو ہر ایک کا متاع عزیز ہے اجیرن بن جاتی ہے۔ کچھ لوگ کبھی کبھی یوں اس زندگی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ
مصیبت ہے یہ لمبی زندگانی
بزرگوں کی دعا نے مار ڈالا
اور کبھی زندگی سے تنگ آکر یوں مافی الضمیر کا اظہار کرتے ہیں:
زندگی ہے یا کوئی طوفا ن ہے۔
ہم تو اس جینے کی ہاتھوں مرچلے

ہر دور میں انسانیت کی بہی خواہ اس کھوج میں لگے رہے کہ آخر اس محبوب ترتین چیز کے کٹھن بن جانے کا سبب کیا ہے۔ غوروخوض، مشاہدات اور تجربات کی رونی میں یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچی کہ جب انسان اندر سے بیزار اور پریشان ہو کراداسی اور آرزدگی(Depression) اور اضطراب و بے چینی (Anxiety Disorder) کا شکار ہوجائے تو زندگی بوجھ بن جاتی ہے اور نتیجتاً انسان خود کشی تک کے قریب ہوجاتے ہیں۔ جب مرض کی تشخیص مکمل ہوگئی تو علاج کی طرف توجیہ دی گئی۔ کچھ نے زائد از ضرورت اور بے بہا دولت کو ہی ان بیماریوں کا علاج سمجھا۔ لیکن آج کے اس تقی یافتہ دور کے اس حوالے سے پیش آنے والے واقعات اس کی نفی کرتے ہیں۔کیونکہ اس وقت اضطراب ، بے چینی اور بے اطمینانی کا شکار ہو کر خود کشی کے واقعات جن مماکل میں ہو رہے ہیں جو افراد کرر ہے ہیں، وہاں دولت کی ریل پیل ہے لوگ مادی طور پر آسودہ زندگی بسر کرتے ہیں۔ حکومتیں اپنی رعایا کی مادی ضروریات کی کفالت کی ذمہ دار ہیں۔ اس سب کے باوجود خاصی تعداد میں لوگ ان اندرونی الجھنوں سے چھٹکارہ پانے کے لئے خود کشی کرتے ہیں۔ اس وقت خود کشی کا تناسب جاپان، سویڈن، یورپی ممالک اور امریکہ میں سب سے زیادہ ہے اور پوری دنیا کی دولت کا تین گنا سے بھی زیادہ حصہ ان ہی ممالک کے بینکوں میں جمع ہے۔ گویا یہ علاج کرنے کی کوشش تو کی گی مگر ناکام ہوا۔ اسی طرح تہذیب جدید کے متوالے انسانی زندگی کی ان پریشانیوں سے نجات کیلئے عفت و عصمت کا تار تار کردیا، عیاسی اور فحاشی کو فروغ دے کر عورت جو چراغ خانہ تھی اسے شمع محفل بنا دیا۔ صرف اس لئے کہ زندگی مطمئن اور پرسکون ہوجائے لیکن نتائج بتاتے ہیں کہ
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

آج ہم Suicideکی Statisticsدیکھیں تو امیر ممالک میں اس کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ (Sleeping Pills)نیند کو گولیاں لے کر سونے والوں میں سارے وہی لوگ ہیں جو دولت مند ارو زندگی کی ہر سہولت سے آراستہ ہیں۔ پس جہ باید کرد؟ (اب کیا کیا جائے؟)

ایک تو یہ کہ ہم مایوس ہو کر بیٹھ جائیں کہ دنیا کی زندگی نام ہی پریشانیوں اور الجھنوں کا ہے لہٰذا مزید کاوش کی ضرورت نہیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ زندگی میں اطمینان کے حصول کے لئے بے شمار تجربے کیے گئے تو اسی تسلسل کے ساتھ ایک تجربہ اور کر لیا جائے۔ وہ یہ کہ زندگی خداداد ہے زندگی اور اس کی بقا کے جملہ اسباب اﷲ تعالیٰ ہی کے پیدا کیے ہوئے ہیں۔ ہماری عام زندگی میں بھی کسی چیز کے Manufacureres کی ہدایات کی اس کو بہتری کیلئے بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ کیونکہ ان کی Instruction Books اور Guidesخرابی کی صورت میں بہتر Solution بتاتے ہیں۔ ہمیں آدم سے وجود عطا کرنے والی ذات نے بھی ہدایت کی اوررہبری کا مربوط اور مضبوط اہتمام کیا۔ انبیاء و رسل کی صورت میں Guides اور Devine Scripts کی صورت میں کتابیں اور صحیفے عنایت فرمائے۔ اطمینان قلب کا ایک ہی طریقہ بتایا گیا کہ ’’آگاہ ہو جاؤ کہ دلوں کا اطمینان ذکر الٰہی سے وابستہ ہے۔‘‘ (سورۃ الرعد آیت نمبر28) تاریخ انسانی شاہد عادل ہے کہ اگر کسی نے بھی اس فارمولے کو اپنایا تو خواہ وہ بوریا نشین درویش ہی کیوں نہ ہو لذت حیات سے آشنا ہو اور Depressionاور Anxicty نام کی کوئی چیز نظر نہیں آئی۔

اوراگر کسی نے ترنگ میں آخر اسے ٹھکرا دیا تو خواہ فرعون جتنا جاہ و جلال، نمرود جیسی حکومت یا قارون جتنا خزانہ ہی کیوں نہ اکٹھا کرلے زندگی کو حقیقی معنوں میں سکون آشنا نہیں کرسکا۔ کبھی کبھی لوگ سامان راحت کو راحت سمجھ بیٹھتے ہیں جو کہ ایک غلط فہمی کے سوا کچھ بھی نہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ جب وجود آدم خاکی تکمیلی مراحل مکمل کرچکا تو رب ذوالجلال نے فرمایا کہ ’’میں نے اس میں اپنی روح پھونکی‘‘ (سورہ ص آیت 71) گویا سی وقت سے انسانی زندگی کا (Link) رابطہ ذات باری تعالیٰ سے قائم ہوگیا۔ جب یہ رابطہ بحال رہتا ہے تو انسانی زندگی پر سکون (Disonnect)منقطع ہو اتو پریشان حال۔
اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن

یہ بھی بڑی عجیب بات ہے کہ عمومی طور پر پیدائش سے موت تک کے درمیانی عرصہ کو زنگانی سے تعبیر کیا جاتا ہے جبکہ بعض ممالک مثلاً جاپان میں ابتدائے حمل سے زندگی کا آغاز مانا جاتا ہے۔ لیکن جاپان میں ابتدائے حمل سے زندگی کا آغاز مانا جاتا ہے۔ لیکن اسلامی نکتہ نگاہ سے زندگی کا نظر یہ قطعاً مختلف ہے۔ عال ارواح سے بطن مادر تک اور دنیوی زندگی سے لے کر برزخ و آخرت تک زندگی کی مختلف صورتیں ہیں، بقول اقبال:
بر تراز اندیشہ سود و زیاں ہے زندگی ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی
تو اسے پیمانہ امروض و فردا سے نہ ناپ
جاوداں، پیہم رواں، ہردم جواں ہے زندگی
زندگانی کی حقیقت کوہ کن کے دل سے پوچھ
جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں ہے زندگی
(از بانگ درا……نظم خضر راہ)

(شائع شدہ روزنامہ جنگ لندن 4 اپریل 2014 جمعۃ المبارک)
Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 218261 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More