جنت المعلیٰ میں کچھ لمحات

(مکہ المکرمہ کا متبرک و مقدس قبرستان)
دنیا سے رخصت ہونے جانے کے بعد ہمارے جسم کا مقام قبرہے، قبر ہی میں منکر نکیر ہم سے ہمارے اعمال کے بارے میں سوالات کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے پرور دگار سے قبر کی سختی، قبر کی تنگی ، قبر کی مشکلات اور قبر کے عذاب سے محفوظ رہنے کی دعا کرتے ہیں۔ بار باراپنے اﷲ سے اپنے گنا ہوں اور قصوروں کی معافی اور بخشش مانگتے ہیں، استغفار کرتے ہیں۔ صحیح بخاری کی حدیث ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا ’’خدا کی قسم میں دن میں ستر دفعہ سے زیادہ اﷲ تعالیٰ کے حضور میں توبہ و استغفار کرتا ہوں‘‘ ۔صحیح مسلم کی حدیث حضرت اغر مزنی رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا ’’ لوگو ! اﷲ کے حضور میں توبہ کرو‘ میں خود دن میں سو سو دفعہ اس کے حضور میں توبہ کرتا ہوں‘‘۔معارف الحدیث میں مولانا محمد منظور نعمانی ؒ نے درست ارشاد فرمایا کہ بندے کو چاہئے کہ توبہ کے معاملے میں ٹال مٹول نہ کرے ‘ معلوم نہیں کس وقت موت کی گھڑی آجائے اور خدا نخواستہ توبہ کا وقت ہی نہ ملے۔

کلام مجید کی متعدد آیات میں قبر ، موت، قبر میں دفن ہونے، قبر سے دوبارہ اٹھائے جانے کا ذکر ملتا ہے۔ سورۃ الحج کی آیت 7میں کہا گیا کہ ’اور یہ کہ خداسب لوگوں کو جو قبر وں میں ہیں جلد اٹھا ئے گا‘، سورۃ عبس آیت 22میں بھی کہاگیا ’پھر جب چاہے گا اُسے اٹھا کھڑا کرے گا‘،سورۃ الانفطار آیت 1۔5کہا گیا ’ جب آسمان پھٹ جائے گا اور جب تارے جھڑ پڑیں گے، اور جب دریا بہہ کر ایک دوسرے میں مل جائیں گے، اور جب قبریں اُکھیڑ دی جائیں گی تب ہر شخص معلوم کرلے گا کہ اُ س نے آگے کیا بھیجا اور پیچھے کیا چھوڑا تھا‘، اور سورۃ التکاثر کی آیا 1اور 2 میں کہا گیا ’’لوگوتم کو (مال کی) بہت سی طلب نے غافل کردیا یہاں تک کہ تم نے قبریں جادیکھیں‘۔

قبر میں موجود مردے کے لیے افضل تحفہ استغفار ہے۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’قبر میں مدفون مُردے کی مثال بالکل اس شخص کی سی ہے جو دریا میں ڈوب رہا ہواور مدد کے لیے چیخ پکار کر رہا ہو۔ وہ بیچارہ انتظا ر کرتا ہے کہ ماں یا باپ، بھائی یا کسی دوست آشنا کی طرف سے دعائے مغفرت کا تحفہ اسے پہنچے ۔ جب کسی طرف سے اسے کو ئی دعا کا تحفہ پہنچتا ہے تو وہ وہ اس کو دنیا و مافہا سے زیادہ عزیز و محبوب ہوتا ہے اور دنیا میں بسنے والوں کی دعاؤں کی وجہ سے قبر کے مُردوں کو اتنا عظیم ثواب اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ملتا ہے جس کی مثال پہاڑوں سے دی سکتی ہے۔ اور مُردوں کے لیے زندوں کا خاص ہدیہ ان کے لیے دعائے مغفرت ہے ‘
(معارف الحدیث)

سنن ابن ماجہ کی حدیث ہے، حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ اس کے راوی ہیں۔فرمایا رسول اﷲ ﷺ نے ’’میں نے تم کو زیارت قبور سے منع کردیاتھا (اب اجازت دیتا ہوں کہ ) تم قبروں کی زیارت کر لیا کرو، کیونکہ (اس کا یہ فائدہ ہے کہ) اس سے دنیا کی بے رغبتی اور آخرت کی یاد اور فکر پیدا ہوتی ہے‘‘۔ اس حدیث کی تشریح معارف الحدیث میں یہ بیان کی گئی ہے کہ ’شروع شروع میں جب تک کہ توحید پوری طرح مسلمانوں کے دلوں میں راسخ نہیں ہوئی تھی اور انہیں شرک اور جاہلیت سے نکلے ہوئے تھوڑاہی زمانہ ہوا تھا ، رسول اﷲ ﷺ نے قبروں پر جانے سے منع کر دیا تھا ، کیونکہ اس سے ان لوگوں کے شرک اور قبرپرستی میں ملوث ہوجانے کا خطرہ تھا۔ پھر جب امت کا توحیدی مزاج پختہ ہوگیا ، اور ہر قسم کے جلی خفی شرک سے دلوں میں نفرت بھر گئی اور قبروں پر جانے کی اجازت دے دی اور یہ بھی واضح فرمایا دیا کہ یہ اجازت اس لیے دی جارہی ہے کہ وہ دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کی یاد اور فکر دلوں میں پیدا ہونے کا ذریعہ ہے۔ علامہ مولانا محمد منظور نعمانی ؒ اس حوالے سے مزید لکھتے ہیں کہ اس حدیث سے شریعت کا یہ بنیادی اصول معلوم ہوا کہ اگر کسی کام میں خیر اور نفع کا کوئی پہلو ہے اور اسی کے ساتھ کسی بڑے ضرر کا بھی اندیشہ ہے تو اس اندیشہ کی وجہ سے خیر کے پہلو سے صر ف نظر کرکے اس کی ممانعت کردی جائے گی ، لیکن اگر کسی وقت حالات میں ایسی تبدیلی ہو کہ ضرر کا اندیشہ باقی نہ رہے تو پھر اس کی اجازت دے جائے گی‘۔جامع ترمذی کی حدیث جس کے راوی حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ ہیں ’ایک مرتبہ رسول اﷲ ﷺ کا گزر مدینہ ہی میں چند قبروں پر ہوا، ‘آپﷺ نے ان کی طرف رخ کیا اور فرمایا’’السلام علیکم یا اھل القبور‘(سلام ہوتم پر اے قبر والو! اﷲ تعالیٰ ہماری اور تمہاری مغفرت فرمائے، تم ہم سے آگے جانے والے ہو اور ہم پیچھے پیچھے آرہے ہیں‘۔

اﷲ کے متبرک شہر مکہ المکرمہ کی فیوض و برکات کا تو شمار ہی نہیں ۔ خانہ کعبہ مقدس ہے اسی نسبت سے شہر مکہ مقدس جسے اﷲ نے ’بلد اﷲ لحرام قرار دیا ہے۔ قرآن مجید کی متعدد آیات میں اس کا ذکر موجود ہے۔ یہ شہر بھی مقدس ہے اس کی سرزمین کا چپہ چپہ مقدس ہے، اس میں پائے جانے والی ہر چیز قابل احترام ہے۔ مکہ المکرمہ کے چارو جانب کئی کئی میل کے علاقے کو ’حرم‘ کی حدود قرار دیا گیا ہے۔ حرم کے معنی ہی ’واجب الحترام ‘ کے ہیں۔ مکہ شہر میں غیر مسلموں کاداخلہ ممنوع ہے، یہاں شکار نہیں کیا جاسکتا، جنگ و جدل کی اجاذت نہیں، درخت حتیٰ کے پتوں کو چھاڑنے کی اجازت نہیں۔ یہ سب اس سرزمین کا تقدس و حترام ہے۔ حرم کی حدود کا تعین اول اول حضرت ابراہیم ؑ نے پھر آنحضرت محمد ﷺ نے اپنے عہد میں اس کی تجدید فرمائی۔ شہر مکہ کی تعظیم و احترام میں متعدد احادیث مستند احادیث کی کتابوں میں ملتی ہیں۔سنن ابن ماجہ کی حدیث ہے جس کے راوی عیاش بن ابی ربیعہ رضہ اﷲ عنہ ہیں ۔ فرمایا رسول اکرم ﷺ نے ’میری امت جب تک اس حرام مقدس کا پورا احترام کرتی رہے گی اور اس کی حرمت و تعظیم کا حق ادا کرتی رہے گی خیریت سے رہے گی اور جب اس میں یہ بات باقی نہ رہے گی برباد ہوجائے گی‘۔ جامعہ ترمذی کی حدیث ہے جسے عبداﷲ بن عدی رضی اﷲ عنہ نے روایت کیا ہے اور معارف الحدیث میں نقل کیا گیا ہے ۔ ’آپ ﷺ مکہ میں حزورہ (ایک ٹیلے‘) پر کھڑے تھے اور مکہ سے مخاطب ہوکر فرما رہے تھے :خدا کی قسم !تو اﷲ کی زمین میں سب سے بہتر جگہ ہے ، اور اﷲ کی نگاہ میں سب سے زیادہ محبوب ہے، اور اگر مجھے یہاں سے نکلنے اور ہجرت کرنے پر مجبور نہ کیا گیا ہوتا، تو میں ہر گز تجھے چھوڑکے نہ جاتا‘۔ اس احادیث سے اور دیگر احادیث مبارکہ سے مکہ شہر کی عظمت اور تعظیم واضح ہے۔ ایسی مقد س زمین میں دفن شخصیات کے مقدس اور افضل ہونے میں کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔ مکہ کا قبرستان ’جنت المعلیٰ‘ یقینا افضل اور مقدس ہے۔ جو مسجد حرام ، خانہ کعبہ کے نذدیک ہی واقع ہے ۔ حدود حرام میں شامل ہے ۔ اسے اس اعتبار سے بھی فضیلت و بلند مرتبہ حاصل ہے کہ یہاں ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کے خاندان کے بے شمار بزرگ ابدی نیند سورہے ہیں۔ ان میں وہ بزرگ بھی ہیں جنہوں نے اسلام قبول نہیں کیا اور وہ بزرگ بھی ہیں جنہوں نے اعلان نبوت کے بعد اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کو نبی آخر الزماں مانا اور اسلام لے آئے۔ اہل قبور کو سلام عرض کرنا ، ان کے لیے مغفرت کی دعا کرسنت رسول ﷺ اور باعثِ ثواب ہے۔ مکہ میں جانے والے مسلمانوں کی خواہش، تمنا اور کوشش ہوتی ہے کہ وہ اسلام کے ان محترم شخصیات کی قبور پر پہنچے اور سلام کا نذرانہ پیش کریں اور ان کے لیے مغفرت کی دعا کریں۔

ہمارا قیام جدہ میں ہوتا ہے۔ مکہ المکرمہ چلے جانا ہمارے لیے اب بہت سہل ہوگیا ہے۔ 18 دسمبر بدھ 2014 کا دن تھا۔ میَں اور شہناز صبح ہی حرم پہنچ گئے۔ہمارے بیٹے عدیل نے آفس جاتے ہوئے ہمیں کلو عشرہ اسٹاپ جہاں سے مکہ کے لیے گاڑیاں جاتی ہیں پہنچا دیااور ہم وہاں ٹیکسی کے ذریعہ پینتالیس منٹ میں حرم پہنچ گئے۔ اولین فرصت میں خانہ کعبہ کے سامنے دعا کی ۔ ہماری خوش قسمتی کہ حجر اسود کے بوسے کے لیے لائنیں لگیں تھیں۔ ہم اپنی اپنی لائن میں لگ گئے دس منٹ میں ہم دونوں نے یہ سعادت حاصل کرلی۔ بلکہ میں نے تو دو بار بوسہ لیا۔ سعادت کی بات ہے ورنہ عام دنوں میں ہم جیسے دل کے مریض کے لیے یہ کسی بھی طور ممکن نہیں کہ ہم حجراسود کے بوسے کے لیے اس جم غفیر میں شامل بھی ہوں۔ اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر اور احسان کہ وہ بلاتا ہے تو سعادتیں بھی نصیب کرتا ہے۔ آج ہم نے جنت المعلیٰ میں مدفن اہل قبور کو سلام عرض کرنے اور مغفرت کی دعا کا نذرانہ پیش کرنے کا پروگرام بنایا ۔جنت المعلیٰ مکہ کا معروف قبرستان ہے۔ یہ مکہ کے علاقے حجون میں ہے ، حرم شریف کے شمال میں واقع ہے ۔ حرم سے اس کا فاصلہ ایک میٹر سے بھی کچھ کم ہے۔حرم شریف سے قبرستان جانے کے لیے دو طریقے تھے ایک یہ کہ ہم سعٔی کر کے باہر آنے والے دروازے سے باہر آتے اور مولودالنبی ؑ (حضورؑ کی پیدائش گاہ) کے سامنے سے پیدل جنت المعلیٰ چلے جاتے ۔ اس صورت میں پیدل اچھا خاصہ چلنا پڑتا ۔ ابھی ہم نے طواف بھی کرنا تھا۔ دوسری صورت ٹیکسی کے ذریعہ جنت المعلیٰ چلے جانا تھا ۔ ہم نے ٹیکسی والے سے بات کی اتفاق سے ٹیکسی والا اردو بول رہا تھا بعد میں معلوم ہوا کہ اس کا تعلق بہاولپور سے ہے اس سے اور بھی سہولت ہوگئی۔ اس سے جانے اور واپس آنے کا طے کیا بیس ریال پر اتفاق ہوا اس نے ہمیں جنت المعلیٰ کے دروازہ پر پہنچا دیا۔ اﷲ اکبر، کبھی کتابوں میں اور حج سے واپس آنے والوں کی زبانی سنا کرتے تھے کہ اس قبرستان میں ہماری بہت ہی پیاری پیاری اور قابل تعظیم ہستیاں ابدی نیند سو رہی ہیں۔ آنحضرت محمد ﷺ جب کبھی حضرت خدیجہؓ کے مقبرہ پر تشریف لاتے تو فرمایا کرتے ’’کیا ہی اچھا ہے یہ مقبرہ‘‘ ۔ عربی میں مقبرہ قبر کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ جیسے مقبرہ جنت المعلیٰ،مقبرہ جنت البقیع، مقبرہ اماں حوا، مقبرہ شہدائے بدر، مقبرہ شہدائے احد۔ جنت المعلیٰ آج بھی اسی طرح پرسکون ہے۔ رحمت کی بارش ہورہی ہے۔ صاف ستھرا، ایک ترتیب سے تمام قبریں بنائی گئیں ہیں۔ آج اﷲ نے یہ موقع دیا کہ ہم ان عظیم ہستیوں کی قبروں کے سامنے کھڑے ہیں ۔ قبرستان ہر وقت نہیں کھلتا۔ اس وقت یہ قبرستان بند تھا لیکن اس کی چاردیواری بڑی بڑی جالیوں کی ہے اندر موجود قبریں واضع نظر آرہی ہیں۔ سپاٹ زمین پر جگہ جگہ پتھر رکھے ہیں ، یعنی یہی قبریں ہیں۔ یہاں کی قبریں اوپر اٹھی ہوئی نہیں بلکہ زمین سے ہموار کرکے پتھر رکھ دئے جاتے ہیں۔لیکن اب ہم نے دیکھا کہ بعض قبرستانوں میں قبریں اسی طرح اوپر اٹھی ہوئی بنائی جارہی ہیں۔ حتیٰ کہ جنت البقیع میں قبروں پر کالے رنگ کے چھوٹے چھوٹے پتھر ڈال کر قبروں کو اوپرکی جانب اٹھا دیا گیا ہے۔ ہم نے جالیوں کے باہر سے ہی تمام اہل قبورکو سلام پہنچایا اوران کی مغفرت کی دعا کی۔

ٍ جنت المعلیٰ میں جو شخصیات ابدی نیند سو رہی ہیں جن کے بارے میں مجھے علم ہوسکا ان میں خاتون جنت حضرت خدیجہؓ کی قبر اس قبرستان میں ہے ۔ اب تو یہ قبر چاروں جانب سے چھوٹی سے دیوار کے اندر نظر آرہی ہے ۔ جس طرح جنت البقیع میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ، حضرت عثمان ؓ، حضور ؑ کے فرزند ابرہیم ؓ اور چند دیگر شخصیات کی قبروں کے گرد چھوٹی سی دیوار بنی ہوئی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سعودی حکومت کے قیام سے قبل حضرت خدیجہؓ کی قبر ِ مبارک ایک وسیع اور خوبصورت مقرہ میں تھی۔ یہ مقبرہ (Mausoleum)سعودی حکومت سے قبل کسی دور میں بنا یا گیا ہوگا۔ 1925میں سعودی حکمراں ابن سعود کے دورِ حکمرانی میں قبر پر تعمیر شدہ مقبرہ کو شہید کردیا گیا اور صرف قبرِ مبارک ہی رہنے دی گئی۔یہاں مقبرہ سے مراد قبر مبارک کے اوپر گنبد نما عمارت ہے۔ کیونکہ سعودی عرب میں مقبرہ ‘ قبرستان کو کہا جاتا ہے۔ کسی بھی قبر پر مقبرہ یا اس کی عمارت کو منہدم کرنے کی یہ واحد مثال نہیں تھی بلکہ پورے سعودی عرب میں جس قبرستان میں بھی کسی قبر پر مقبرہ بنا ہوا تھا اسے منہدم کردیا گیا۔ ماسوائے روضہ ٔ رسول ﷺ کے۔اس کی وجہ سعودی عقیدہ ہے جس پر وہ آج تک سختی کے ساتھ عمل کر رہے ہیں۔صحیح یا غلط ، یہ الگ بحث ہے۔ یہاں اس کی گنجائش نہیں۔اماں خدیجہ ؓ کی قبر پربنے ہوئے مقبرے کی تصویر انٹر نیٹ پر موجود ہے۔ یہ بات سینہ بہ سینہ ہے کہ یہ فلاں کی قبر ہے اور یہ فلاں کی قبر۔ ہر شخص نے اپنی اپنی قبر میں جانا ہے اور اپنے اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔بس ایسی متبرک ہستیوں کی قبروں کو ویران ا ور کھنڈر کی مانند دیکھ کر کرب اور شدید دکھ ہوتا ہے۔

جنت المعلیٰ میں مدفون بعض قابل تعظیم ہستیاں جن کے نام کتابوں سے معلوم ہوسکے، جو اس قبرستان میں ابدی نیند سورہی ہیں ۔ ان میں عبد المطلب(آنحضرت ؑ کے دادا)، ابو طالب ابن عبد المطلب ( آنحضرت ؑ کے چچا اور ْحضرت علی ؓ کے والد) ،عبد اﷲ بن عبدالمطلب، سیدہ آمنہ(والدہ ماجدہ آنحضرت ﷺ ) (ایک روایت یہ ہے کہ سیدہ آمنہ ’ابوا‘ میں مدفن ہیں)، اماں خدیجہؓ(پہلی شریک حیات حضرت محمد ﷺ)، حضرت عبداﷲ بن زبیر ؓ اور ان کی والدہ، حضرت اسماء بنت ابو بکر صدیق ؓ، عبدالمناف،ابو تراب الزہری،محمد علاوی المالکی کے علاوہ بے شمار جلیل القدر صحابہ اکرم ، اہل مکہ اوربعض زائرین اس قبرستان میں مدفن ہیں۔ میرے والد مرحوم کے حقیقی ماموں غلام مصفطیٰ سبزواری ، میرے کرم فرما ساتھی محمد عادل عثمانی بھی اسی قبرستان میں مدفن ہیں۔ اس وقت مجھے ان کی یاد شدت سے آرہی ہے اور ان کے ساتھ گزرے اچھے دن یاد آرہے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ ہم کچھ دیر یہاں ٹہرے فاتحہ پڑھی اور مسلسل ان قبروں کو دیکھتے رہے۔ اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کرتے رہے اپنی قسمت پر رشک کرتے رہے۔ یہاں استراحت فرما تمام ہی اہل قبور کو سلام پیش کرتے رہے اور مغفرت کی دعا کے ساتھ واپس ہوئے۔ اب اس ٹیکسی والے نے ہمیں حرم کے اس حصہ میں اتار ا جہاں سے پیدل چل کر ہم پہلے مولودالنبی ؑ (حضورؑ کی پیدائش گاہ) پہنچے۔ اس گھر کی زیارت کی اس بار شہناز بھی میرے ہمراہ تھیں۔ اس گھر میں قائم لائبریری کو دیکھا اس کمرے کو دیکھا جہاں حضور ﷺ کی ولادت با سعادت ہوئی تھی اپنی خوش نصیبی پر فخر کرتے ہوئے ہم دوبارہ حرم میں داخل ہوئے طواف کیا ، عصر کی نماز پڑھ کرہم جدہ کے لیے روانہ ہوگئے۔مغرب جدہ جاکر ادا کی۔ (11مئی2015)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1274136 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More