ہماری ویب رائٹرز کلب (روایت اور ٹیکنالوجی کا حسین امتزاج)

 اس عنوان سے ہمیں ایک تقریب کا احوال لکھنا ہے جس میں شرکت کے بعد نہ صرف ہمیں اپنے قلم کار ہونے پر فخر محسوس ہوا بلکہ اپنی ان ٹوٹی پھوٹی کوششوں کی اتنی پذیرائی پر گونہ مسرت کا احساس بھی در آیا․․․․

اس سرگر می کا آغاز اپنے ایک جملے سے کرتے ہیں جو ہم نے اپنی ایک تحریر میں لکھا تھا ’’اپنے خیا لات کو تحریر کے قالب میں ڈھال کر ٹیکنا لوجی پر سوار کردیں پھر دیکھیں اس کی پرواز کی رفتار! آپ کی تحریر جان دار ہوئی تو آن لائن ہوکر لاکھوں لوگوں تک پہنچ جائے گی اور کسی آ پریٹر کی ایک کلک سے کی بورڈ اور ماؤس کے ذریعے لاکھوں لوگوں تک پہنچ کر کروڑوں کو متاثر کرنے کی طاقت رکھتی ہے ․․․․․․․‘‘

اور ہماری ویب واقعی اس کام کو بہترین طریقے سے کر رہی ہے ۔جی ہاں! روایات کو جدید طریقے سے عوام الناس تک منتقل کرنا!

ہماری ویب پہلا اردو ویب پورٹل ہے جو ایک حقیقی پاکستانی ویب سائٹ کاکردار ادا کر رہی ہے۔اس مختصر سے کالم میں تمام کارنامے نہیں سما سکتے لہذا ہماری توجہ اس کے رائٹرز کلب پر رہے گی جس کا قیام یوں تو اسی سال عمل میں آیا ہے مگر درحقیقت یہ اپنے آغاز 14 ؍اگست7 200ء سے ہی اس مہم پر کام کر رہی ہے یعنی قلم کاروں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرنا! اس مقصد کے تحت ہر فرد کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ اپنی تحریر کو یہاں شائع کروادیں۔ہماری ویب پر مختلف سطح کے مصنفین کی تعداد چھہ ہزار کے لگ بھگ ہے۔ایک اندازے کے مطابق پچاس ہزار مضامین آن لائن ہیں اور جن میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے۔یہ ساری باتیں ابراراحمد صاحب ، چیر مین رائٹرز کلب اور ہماری ویب کے نگران نے اپنی گفتگو میں بتائی ۔مزید یہ کہ اردو بیس کروڑ پاکستانیوں کی زبان ہے اور دنیا کی بیس سب سے زیادہ بولی جانیوالی زبان ہے۔انٹر نیٹ کے حوالے سے اس کواپنے رسم الخط کے ساتھ نافذ کر نے کی ضرورت ہے کیونکہ یونی کوڈ لکھنے میں مشکل ہی نہیں پڑھنے میں بھی غیر دلچسپ لگتا ہے۔اس کے علاوہ بہت سے الفاظ کی بناوٹ درست طریقے سے ممکن نہیں ۔سوچنے کی بات ہے کہ اسے کس طرح سہل بنایا جاسکتا ہے؟ اردو کی ترقی کے لیے سر گراں افراد کے لیے یہ ایک چیلنج ہے۔

اس ضمن میں اس تقریب کے مہمان خصو صی ڈاکٹر سحر انصاری نے اپنے خطاب میں بڑی حوصلہ افزاباتیں بتائیں ۔انہوں نے کہا کہ بھارت میں اردو کے فروغ کے لیے بہت کام ہو رہا ہے اور اس میں ہندو بھی شامل ہیں گویا اردو کو وہاں سے تریاق مل رہا ہے جہاں سے زہر ملنے کی امید تھی۔ وہاں چھ صوبوں کی زبان اردو ہے ۔ایک ہندو نوجوان ریختہ کے نام سے اردو کی سب سے بڑی ویب سائٹ چلا رہا ہے اس نے بھی انصاری صاحب کی ای بکس تیار کی ہیں۔ ڈاکٹر سحر انصاری کے تعارف میں یہ بھی معلوم ہوا کہ ان کاپہلا مجوعہ کلام جو 1976 میں نمود کے نام سے شائع ہوا تھا اس ویب سائٹ پر موجود ہے ۔․․․․․․یہ سب سن کر دل خوشی سے جھوم اٹھا۔اس کی تفصیلی روداد آ گے بڑھانے سے پہلے کچھ باتیں گوش گذار کرنا از حد ضروری ہے!

ماہ مارچ کے آخری ہفتے میں کمپیوٹر کی خرابی کے باعث ہمارارابطہ انٹر نیٹ سے کچھ ٹھٹھر سا گیا تھا۔ ایسے میں اپنے سمارٹ فون سے میل چیک کی تو معلوم ہواکہ ہماری ویب رائٹرز کلب کی جانب سے ای بک شائع کی جا رہی ہیں جن کی تقریب رونمائی 4 ؍ اپریل کو آ رٹس کونسل میں ہوگی جس میں شرکت کی رجسٹر یشن کروانی ہے۔ہم نے فوراً حامی بھرلی !خوشی اس بات پر کہ اگلے مرحلے میں ہمارانام بھی شا مل ہو گا ۔ساتھ ہی سوچ میں پڑ گئے کہ ہمار تعلق ہماری ویب سے کتنا پرا نا ہے ! یہ تقریباً 2009 ء کی بات ہے جب ہم نے اس پر لکھنا شرو ع کیا۔ آغاز میں scan کر کے بھیجتے رہے پھر جب اردو کمپوزنگ سیکھ لی تو کام اور آ سا ن ہوگیا۔ یوں ہمارا سفر بہ حیثیت آن لائن رائٹر شرو ع ہوااور آج اس کے باعث یہ اعزاز حاصل ہوا کہ ہم اس تقریب میں بطور ممبررائٹرزکلب کے شریک تھے۔ یقیناًاس کا کریڈٹ ہماری ویب کی انتظامیہ کو جاتا ہے جو رائٹرز کے لیے اپنے فرش دل واکیے رہتی ہے۔جب ہم نے لکھنا شروع کیا تو بہت کم کیٹیگریز ہوتی تھیں مگر مضامین کی تعداد بڑھنے سے ان میں اضافہ ہوتا گیاجو ہنوزجاری ہے۔

حسب روایت تلاوت کے بعد نعت سے پروگرام کا آغاز ہوا۔عطا محمد تبسم کی اناؤ نسسمنٹ ماحول میں خوشگواری پیدا کررہی تھی۔ہماری ویب کے بانی اور چئیرمین ابرار احمدنے خواب سے حقیقت تک کی داستان نہایت جچے تلے انداز میں بیان کی جسے سنکر وہ مشہورکہاوت یاد آ گئی کہ خواب وہ ہوتے ہیں جوسونے نہیں دیتے!اس کے بعد رضوان شیخ نے ہماری ویب کی ٹیکنیکل تفصیلات پریزینٹیشن کے ذریعے نہایت چابکدستی سے دیں۔پھر باری آئی رائٹرز کلب کے صدر ڈاکٹررئیس صمدانی کی،جنہوں نے بڑے خوبصورت انداز میں کلب کا تعارف پیش کیااور اس کے اغراض ومقاصدپر روشنی ڈالی۔ ان کی گفتگو سے ان کا انداز تدریس نمایاں تھا۔ہمیں انکے شاگردوں پر بڑارشک آیا! کتنے آرام سے لیکچر نوٹ کر لیتے ہوں گے! ایک ایک لفظ موتی کی طرح جڑا ہوا!ماشاء اﷲ، یہ ہی اندازان کے طرز تحریر میں بھی جھلکتاہے۔ ہر چیز کی اتنی جزئیات بیان کرتے ہیں کہ قاری اپنے آپ کو اسی منظرکا ایک حصہ سمجھنے لگتا ہے۔صدارت کاتاج بجا طور پر ان کے سر سجتا ہے۔حالانکہ ہماری ویب پران کو آ ئے ہوئے محض دوسال ہی ہوئے ہیں۔ دراصل آن لائن تو محض ایک ذریعہ ہے جبکہ اصل شاہکار جوقلم سے تخلیق پاتے ہیں۔اس کا خزانہ تو ان کے پاس پہلے سے موجود ہے ہی!

اس کے بعد پندرہ قلمکاروں کی ای بکس دکھائی گئیں۔جذبات مہمیز ہوئے کہ قلمکاروں نے شاید سوچا بھی نہ ہوگا کہ ان کے مشغلے کی اتنی پذیرائی ہوگی!!!ان کو دیکھ کر ہمارے تخیل کی اڑان وہاں پہنچ گئی جہاں ہر فرد کا نامہ اعمال اس کے سامنے کھل جائے گا اور کہا جائے گا کہ پڑھ اپنی کتاب!اور وہ اس کے مندرجات دیکھ کر حیران رہ جائے گاکہ اس میں بہت سے پہاڑ جیسی نیکیاں ہیں جو اس وقت بہت معمولی لگی تھیں ۔بس اس دن کی شرمندگی سے اﷲ سب کو محفوظ رکھے کہ اس د ن کوئی اضافہ یا کمی ممکن نہیں ہوگا۔مصروفیت کے باعث ہم نے پچھلے دنوں اپنے مضامین اپ لوڈ کرنے چھوڑدیے تھے۔ اپنے وہ تمام مضامین یاد آئے جوہمیں پہلی فرصت میں ہماری ویب کی زینت بنانے ہیں!

ان تمام قلمکاروں کو اسٹیج پر بلایاگیا اور ان کے تاثرات لیے گئے۔بڑا دلچسپ سیشن تھا ! کچھ نے تفصیلی بات کی اور کچھ نے مختصر ! مزے کی بات قلم کاروں کا تنو ع تھا ! اکثریت توباقاعدہ رائٹر ہیں جبکہ کچھ افراد حادثاتی طور پر بھی رائٹڑ بنے مگر کیا خوب جوہر کھلے ! یقیناً کریڈٹ ہماری ویب کو جاتاہے!کچھ شغل کے طورپر لکھتے ہیں جبکہ کئی افراداپنی مصروفیت میں سے وقت نکل کر لکھتے ہیں!پھر کچھ افراد اردو کواوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے ہیں اور کئی ساری زندگی انگلش میں بسر کرتے رہے مگرہماری و یب پر اردوکالبادہ اوڑھ کر بشاش ہیں! اس کے علاوہ مختلف حلیوں،پیشوں اور دلچسپیوں کے باوجود ایک جھنڈے تلے کھڑے تھے۔ہمای ویب ز ندہ باد!

اس کے بعد سحرانصاری صاحب کو دعوت خطاب دی گئی۔ہم ان کے صبر اور حوصلے کی داد دیتے ہیں جو اتنی د لچسپی اور توجہ سے پورا پروگرام سن رہے تھے۔مجال ہے جو ذرا بھی اونگھ لگی ہو یا بوریت جھلکی ہو ان کے چہرے سے! اور اس کی وجہ ان کے الفاظ تھے ’’میں نوجوانوں کو دیکھ کر خوشی محسوس کرتا ہوں․․․․․․‘‘اور وہ کہا کریں اور ہم سنا کریں․․․․ان کی باتوں کو ہم پہلے ہی مختصر لکھ چکے ہیں․․․․․ پاکستان بنے اڑسٹھ برس ہوچکے ہیں مگر ہنوز اردو کوقومی اور سرکای زبان نہ بنا یاجا سکا ․․․․حا لانکہ اردود نیا کے تمام بر اعظموں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے․․․ ان کا خطاب بڑا پر امید تھا کیو نکہ وہ خود نوجوانوں سے امید لگائے بیٹھے ہیں اردو کو جائز اور اعلٰی مقام دینے کے لیے۔ انہوں نے اپنا تمام کام ہماری ویب پر شائع کرنے کی بخوشی اجازت ے ی ۔جب ہندوستان کے لوگ کر رہے ہیں تو ہم کیوں نہ کریں ! سحر انصاری تو ہماراسر مایہ ہیں

تمام قلم کاروں کو شیلڈدی گئی ۔اس موقع پر بھی تاثرات لیے گئے۔ چونکہ ہمارے پروگرامز کی ریہر سل نہیں ہوتی اس لیے وقت کو منضبط کرنے میں تھوڑا مسئلہ ہوتا ہے! ورنہ یہ بھی ممکن تھا کہ جن قلم کاروں کی ای بکس شائع ہوئی ہیں انہیں ایک ہی دفعہ اسٹیج پر بلوایا جا تا سوائے کچھ رضاکار وں کے جوتحریر کے ساتھ ساتھ تقریر کے بھی ماہر ہیں ! پروگرام کے آخر میں شرکاء میں سے تمام رائٹرز کو اسٹیج پر بلا کر سحر صاحب کے ساتھ تصویر بنائی گئی۔ بڑے یاد گار لمحات تھے۔ ہم نے سحر انصاری صاحب کو حریم ادب کی طرف سے شائع شدہ محترمہ افشاں نوید کے کالمز پر مبنی کتاب ’’ نوید فکر ‘‘ پیش کی جو انہوں نے کمال شفقت سے وصول کی ۔

آخر میں ایک زبرد ست عصرانے کے ساتھ یہ محفل اختتام کو پہنچی۔ ایک خوشگوار تقریب جو جذ بوں کو مہمیز کر نے کا باعث بنی ۔اب اگلی نشست کا شدت سے انتظار رہے گا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اتنی تاخیر سے یہ روداد بھیجنے پر بہت معذرت! دراصل یہ فنی خرابی یعنی کمپیوٹر کی کاہلی کے باعث ہوئی۔
Farhat Tahir
About the Author: Farhat Tahir Read More Articles by Farhat Tahir: 72 Articles with 74336 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.