افریقہ

صحت پر ریسرچ کرنے والے ماہرین کاکہنا ہے کہ تیز بخار موت کی علامت ہے کئی لوگ بخار کو اہمیت نہیں دیتے اور موت کا شکار ہو جاتے ہیں ،ملیریا بخار سب سے زیادہ خطرناک بخار ہے اس سے بچاؤ کیلئے محض مچھر دانی یا جالی کافی نہیں بلکہ مخصوص ادویہ کی ضرورت بھی ہوتی ہے، ماہرین کا کہنا ہے دنیا بھر میں ملیریا بخار کا شکار ہو کر سالانہ پانچ لاکھ افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اس بخار پر قابو پانے کی ہر ممکن کوشش کے باوجود کینیا جیسے غریب ملک کی حالت مزید ابتر ہے، عالمی ادارہ صحت کے مطابق تقریباً ایک سو ممالک میں ملیریا بخار موجود ہے اینو فیلیس مچھر کے کاٹنے سے انسانی جسم میں جراثیم پیدا ہوتے ہیں،ملیریا بخار میں نوے فیصد افریقی ممالک کے بچے ایفیکٹڈ ہیں جن کی عمریں پانچ سال سے بھی کم ہیں ،سال دوہزار سے ملیریا میں مبتلا افراد کی اموات میں سینتالیس فیصد کمی واقع ہوئی ہے اور دوہزار پندرہ سے اموات میں پچپن فیصد کی کمی کا امکان ہے،عالمی ادارہ صحت کے پروگرام کے مطابق ایک بین الاقوامی ٹیم رول بیک ملیریا کے نام سے ایکشن پلان ترتیب دے رہی ہے جو دو ہزار سولہ سے دو ہزار تیس تک تیکنیکی ترتیب اور نئی حکمتِ عملی کے تحت اس نئے پروگرام کے ذریعے ملیریا کو مکمل طور پر ختم کرنے کا ادارہ رکھتی ہے ٹیم میں شامل گلوبل ٹیکنیکل سٹیرٹیجی اور گلوبل کیس فار انویسٹمنٹ اینڈ ایکشن تنظیمیں حصہ لیں گیں۔ اب تک ملیریا بخار میں مبتلا بچوں اور حاملہ خواتین کا زیادہ احتیاط اور مقدار میں ویکسین سے علاج کیا جاتا رہا ہے لیکن حالیہ رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں تیار کردہ ملیریا ویکسین کے ٹرائل میں شاندار نتائج سامنے آئے ہیں یہ ویکسین انتہائی خطر ناک قسم کے پیرا سائٹ کو ٹارگٹ کرتی ہے جو ملیریا کا سبب بنتا ہے، یہ ویکسین ایفیکٹڈ افراد کے مدافعتی نظام کو متاثر کئے بغیر علاج کرے گی اس ویکسین کے علاوہ نئے طریقے کی مچھر دانی جو انسیکٹس پروف ہوگی اسے بھی مچھروں سے بچاؤ کیلئے استعمال کیا جائے گا، نئی ویکسین آر ٹی ایس جلد دنیا بھر میں متعارف کروائی جائے گی، ماہرین کا کہنا ہے چار سال تک پندرہ ہزار بچوں کا مشاہدہ کیا جائے گا اور پچاس فیصد کامیابی حاصل ہونے کے بعد مزید ریسرچ کی جائے گی جب تک ملیریا بخار مکمل طور پر ختم نہیں ہو جاتا ایکشن پلان جاری رہے گا اولین کوشش افریقا کے ان ممالک میں کی جائے گی جہاں ہائی رسک ہے،دواساز کمپنیز نئے فعال اجزاء کے ساتھ نئی ویکسین اور تھیراپی سے پر امید ہیں کہ ڈرامائی طور پر اس بیماری پر قابو پالیا جائے گادورانِ علاج نئے انسٹرومنٹ کا استعمال بھی شامل ہو گا۔ماہرین کا کہنا ہے صرف ایک معروف مچھر اینو فیلیس ہی نہیں بلکہ ایرا بینیس اور فیو نیٹس ایسے خطرناک مچھر ہیں جوافریقا کے چوالیس میلین باشندوں میں کسی بھی وقت سرایت کر سکتے ہیں ان کے کاٹنے سے خون میں زہر جیسا مواد پھیل سکتا ہے ہماری کوشش ہے کہ افریقا کو اس خطرناک وائرس سے مکمل نجات دلائیں۔ گزشتہ پچیس سالوں کے دوران اس بیماری میں کمی واقع ہوئی ہے کیونکہ ہر تین سال بعد خطرے سے دوچار علاقوں میں خاص قسم کی مچھر دانیاں تقسیم کی جاتی تھیں خاص طور پر بچوں اور حاملہ خواتین کو نظر انداز نہیں کیا جاتا ،نئی تحقیق کے مطابق تمام افریقی ممالک خاص طور پر کینیا میں نئی ادویہ اور مچھر دانیوں کا مزید استعمال کیا جائے گا ہر خاندان کو تین سے زائد مچھر دانیاں فراہم کی جائیں گی،ماہرین کا کہنا ہے ہر بخار کو ملیریا بخار نہیں -

کہا جا سکتا علاج سے پہلے بلڈ ٹیسٹ لیا جائے گا اور ٹیسٹ کیلئے جدید مائکرو سکوپ انسٹرومنٹ اور سپیشل لیبار ٹریز اہلکاروں کو متعین کیا جائے گا جو فوری نتائج ظاہر کریں گے کہ آیا یہ ملیریا بخار ہے یا عام بخار، عالمی ادارہ صحت کے مطابق دو ہزار تیرہ میں ملیریا کے ایک سو اٹھانوے میلین سے زائد کیسیز تھے جن میں سے تقریباً پانچ لاکھ سے زائد اس بیماری میں مبتلا ہو کر موت کے منہ میں چلے گئے، ماہرین کا کہنا ہے ابھی ہمیں طویل سفر کرنا ہے اور آنے والے چند سالوں میں ملیریا پر مکمل قابو پا لیا جائے گا۔ مصر، گھانا، کینیا، ماریشس، نیمبیا، ساؤتھ افریقا، تنزانیا ، برونائی ، چین ، بھارت ، پاکستان ، انڈونیشیا، کمبوڈیا، ملائشیا ، سری لنکا، تھائی لینڈ، ویت نام، کیریبک ممالک ، ساؤتھ امریکااور لاطینی امریکا کے علاوہ دیگر ممالک بھی ملیریا انفیکشن سے متاثر ہیں۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Shahid Shakil
About the Author: Shahid Shakil Read More Articles by Shahid Shakil: 250 Articles with 226603 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.