تفریح اور ہمارے اخلاقی تقاضے

ادب کے بنیادی طور پر تین مقاصد ہیں۔ تفریح ، معلومات اور اخلاقی سبق ۔ مگر موجودہ نفسا نفسی کے دور میں باقی دو مقاصد پس پشت ڈال کر نام نہار تفریخ پر توجہ مرکوز کردی گئی ہے ۔جسمانی سکون کے حصول میں روح کو تڑپایا جارہا ہے ۔حقیقی تفریخ دلی سکون اور مسرت فراہم کرنے کا ذریعہ تھی۔ مادیت پر ستی کے اس دور میں چند لمحے سکون کے مسیر آجاتے تھے مگر بد قسمتی سے آ ج ہمارے حقیقی تفریخ کے پیمانے بدل گئے ہیں ۔جنسی اور جسمانی تسکین کا نام تفریح رکھ دیا گیا ہے۔

آئیے ذرا نظر دوڑاتے ہیں عصر حاضر کے تفریح کے مواقعوں اور ان کے کردار پر منفی اثرات پر ۔ہماری فلمیں اور ڈرامے اخلاقی سبق سے ہٹ کر محاشی اور عریانی کو فروغ دے رہے ہیں ۔ ہمارا اردو ادب اخلاقیات کی تمام حدوں کو پار کرتے ہوئے نوجوان نسل کو بے راہ روی کا شکار کر رہا ہے ۔ آج کا نوجوان گہری سوچ اور فکر سے عاری ہے ۔وہ صرف اور صرف جسم اور جنس کا بچاری ہے ۔ روحانیت اور اخلاقیات نام کی کسی چیز سے وہ واقف ہی نہیں ۔نئی آنیوالی نسل تفریح کا غلط مفہوم لیتی ہے ۔ان کو عشق ،محبت ،فحاشی اور عریانی پر مبنی کہانیاں ہی دلفریب اور رنگین نظرآتی ہیں۔

اگر ہم ادب سے ہٹ کر پارکوں اور تفریحی گاہوں کا رخ کریں تو وہاں بھی کوئی قابل دید نظارہ نہیں ۔نوجوانوں کی اکثریت اخلاقیات سے گری سوچ کے ساتھ ان تفریخی گاہوں کا رخ کرتی ہے ۔ وہ دن پھر ہفتے پھر کی تھکاوٹ ختم کرنے نہیں آتے بلکہ نوجوان لڑکیوں کے نظاے اور انھیں تنگ کرنے آتے ہیں ۔ ان کے نزدیک یہی تفریحی ہے ۔

اب میں آپکو موجودہ دور کی بد ترین تفریح کا احوال سناتا ہوں ۔ اور وہ ہے تھیٹر اور کیپل پر پیش کئے جانے والے ڈرامے اور ناچ گانوں کے پروگرام ، فحاش اور اخلاقیات سے گرے ہوئے جملوں کا تبادلہ ، ذومعنی فقرے اور نیم عریاں ڈانس ہماری جدید تفریح کی قسمیں ہیں ۔کسی بھی ضابطہ اخلاق کی پرواہ کئے بغیر سٹیج ڈراموں پر پیش کئے جانیوالے ڈرامے نوجوان نسل پر وہ گہرے اثرات مرتب کررہے ہیں جو ناسور سے بھی بدترہیں ۔ جنسی نمائش پر مبنی ڈانس کیبل نیٹ ورک کا جزو اہم نظر آتا ہے جسکے ٹین ایج پر تباہ کن اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ عریاں اور نیم عریاں سی ڈیز جو ہرجگہ عام اور کھلے عام فروخت ہورہی ہیں۔ تفریح کے نام پر سنسر بورڈ کی آنکھوں میں دھول ڈالی جارہی ہے ۔ غیر ملکی اور خاص طور پر بھارتی فلموں کی نمائش اور بھارتی چینلز کی پاکستان میں نشریات نے جلتی پرآگ کا کام کیا ہے۔ اب تو حد ہو گئی ہے پاکستانی نجی چینلز نے باقاعدہ طور پر بھارتی پروگرام نشر کرنا شروع کردیے ہیں۔ وہ یہ بات بھول گئے ہیں کہ ہندوستانی تہذیب اور پاکستانی تہذیب میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ وہ یہ بھی بھول گئے ہیں کہ ہم نئی نسل کو کیا منتقل کررہے ہیں ۔ خدا کے تصور سے ہٹ کر بھگوان کے تذکرے ہندوستانی ڈراموں کا خاصہ ہیں۔ مغربی کلچر کے ساتھ ساتھ ہندوستانی کلچر کی اس حد تک کھلے عام نمائش صرف اور صرف تفریح کے نام پر ہورہی ہے۔ پہلے تو صرف ہمارے اخلاقیات پر کاری ضرب لگائی گئی اور اب ہمارے مذہب کی بنیادیں ہل کر رہ گئی ہیں۔ آزادی رائے کے نام نہاد چیمپین بھارت میں جب فلم پی ۔کے کی نمائش ہوئی تو ہندو انتہا پسند وں نے سخت ترین ردعمل کا اظہار کیا ۔ جبکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہندی ڈراموں اور فلموں میں ہندو مت کا پرچار سرعام ہورہا ہے۔ اس پر نا تو کبھی پاکستانی انتہا پسند جماعتوں نے شور مچایا اور نہ ہی بھارت نے کبھی ان کی پاکستان میں نمائش پر پابندی لگائی ۔ یہ دہرے معیار سمجھ سے بالا تر ہیں ۔

موبائل جسے صرف پیغام دینے اور سننے کے مقاصد کیلئے استعمال ہونا چاہے تھا آ ج کل غیر مہذب مقاصد کیلئے استعمال ہو رہا ہے ۔ آڈیو اور ویڈیو کی سہولت نے اسے کال کرنے اور سننے کی بجائے ایک موسیقی کا آلہ بنا دیا ہے۔ غلط قسم کے پیغامات اور تصاویر کی منتقلی تفریحات کا حصہ بن چکی ہیں ۔ تھری جی جیسے تیز ترین نیٹ ورک کی وجہ سے فحاشی اور عریانی کی تفریح ہر نوجوان کی دسترس میں ہے۔ انتہائی سستے پیکجز کے ساتھ انتہائی سستی اور مشرقی تہذیب کے منہ پر تمانچا دے مارتی ہوئی تفریح نوجوان نسل کو تعلیم اور شعور سے کوسوں دور لے جارہی ہے۔ آدھی آدھی رات تک بے جا سوشل میڈیا کا استعمال اس حد تک معاشرہ میں سرایت کر چکا ہے کہ اب کوئی بھی گھر اس سے محفوظ نہیں۔ بزرگ والدین کو چکنا دے کر نوجوان علم کے نام پر رات گئے تک چیٹنگ اور غیر اخلاقی ویڈیوز کی ڈاؤن لوڈنگ میں محو رہتے ہیں۔

عصر حاضر میں تفریح اور مذہب کے درمیان چلنے والی کشمکش کا انجام جو بھی نکلے ایک بات تو واضح ہے کہ ہم زوال کی پستیوں کی طرف جارہے ہیں۔ ہمارا اپنے اسلاف کے ساتھ رشتہ ٹوٹ چکا ہے۔ اعلیٰ اخلاقی اقدار آخری ہچکیاں لے رہی ہیں ۔ سمجھ نہیں آرہا کہ جدید ٹیکنالوجی ہمیں کس طرف لے جارہی ہے۔ آدھی رات کو اٹھ کر تہجد ادا کرنے والا مسلمان اب کن لذتوں میں پڑ گیا ہے۔ تہذیب ، شائستگی ، عزت وقار اور تعظیم جیسے اوصاف اب بالکل نایاب ہیں ۔ میڈیا کی ایک دوسرے سے برتری کی خواہش اور بالی ووڈ اور ہالی ووڈ کی نکالی نے انہیں اپنی تہذیب کے رسم ورواج بھلا دیے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ مسلمانوں کو نمازوں اور تلاوت قرآن پاک سے قلبی و روحانی سکون ملتاتھا۔ مگر بدقسمتی سے اب یہی مسلمان سکو نِ دل اور سکونِ روح کیلئے سینما گھروں اور تھیٹرز کا رخ کر رہاہے۔ قیامت سے پہلے قیامت کے مناظر نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔
Mushtaq Ahmad kharal
About the Author: Mushtaq Ahmad kharal Read More Articles by Mushtaq Ahmad kharal: 58 Articles with 103880 views Director princeton Group of Colleges Jatoi Distt. M.Garh and a columnist.. View More