فالج کے نوجوان مریضوں میں اضافہ

برطانیہ میں ایک خیراتی ادارے نے خبردار کیا ہے کہ کام کرنے والی عمر کے مردوں اور عورتوں میں فالج کے حملے کی شرح پریشان کن حد تک بڑھ رہی ہے۔

سٹروک ایسوسی ایشن کے مطابق 2014 میں انگلینڈ میں 40 سے 50 سال کی عمر کے 6,221 مرد اس بیماری کی وجہ سے ہسپتال داخل ہوئے، جو کہ 14 سال پہلے کی نسبت 1,961 اضافہ ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اس کی کچھ ذمہ داری غیر صحت مندانہ طرز زندگی پر بھی ہے، لیکن بڑھتی ہوئی آبادی اور ہسپتال کے طریقوں میں تبدیلی نے بھی کسی حد تک اس میں کردار ادا کیا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اب فالج کو صرف بوڑھے افراد کی بیماری کے طور پر ہی نہیں دیکھا جا سکتا۔

فالج کی بنیادی وجہ دماغ میں خون کا لوتھڑے کی شکل میں جمنا یا خون کا بہنا ہے جس کی وجہ سے بہت لمبے عرصے تک معذوری ہو سکتی ہے۔

یہ زیادہ تر ان لوگوں میں ہوتا ہے جن کی عمر 65 سال ہے لیکن اس رپورٹ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اب نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو بھی اس سے خطرہ ہے۔

ماہرین نے 2000 سے 2014 تک کے ہسپتال کے ڈیٹے کا جائزہ لیا ہے۔

برٹش ہارٹ فاؤنڈیشن کے ڈاکٹر مائیک نیپٹن کہتے ہیں کہ ان نتائج سے یہ پتہ چلتا ہے کہ بلڈ پریشر اور کولیسٹرول کو کنٹرول میں رکھنے کی کتنی اہمیت ہے۔

40 اور 50 کے پیٹے میں لوگ اس سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔

40۔54 سال کی عورتوں میں سنہ 2014 میں سنہ 2000 کی نسبت 1,075 اضافی فالج کے حملے دیکھے گئے۔

ماہرین کے مطابق موٹاپا، زیادہ دیر بیٹھنے کا طرز زندگی اور غیر صحت مندانہ خوارک سبھی مل کر اس میں کردار ادا کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس گروہ میں فالج کے مریض کی ذات، خاندان اور ان کی اقتصادی حالت پر دیرپا اثرات مرتب ہوتے ہیں

رپورٹ کے مطابق فالج کے حملے کے بعد بہتر ہونے والے افراد کو کام پر واپس جانا مشکل لگتا ہے اور ان کے مالکوں کو ان کا زیادہ خیال رکھنا چاہیے۔

سٹروک ایسوسی ایشن کے جان بیرک کہتے ہیں کہ ’یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ فالج اب بوڑھے افراد کی بیماری نہیں ہے۔‘

’کام کرنے کی عمر کے لوگوں میں فالج کا شکار ہونے والوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔‘
’اس کی بہت بڑی قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے نہ صرف ان افراد کو بلکہ ان کے خاندانوں اور ہیلتھ اور سوشل کیئر سروسز کو بھی۔

الیسٹیئر مارلے صرف 34 برس کے تھے جب چار سال پہلے انھیں نئے سال کے پہلے دن فالج ہوا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’میرے سر میں شدید درد تھا، میں اچھا محسوس نہیں کر رہا تھا، اور نہ بہتر طور پر چل سکتا تھا نہ بات کر سکتا تھا۔‘

بعد میں پتہ چلا کہ مارلے کے دل کی ایسی حالت تھی جس کی وجہ انھیں فالج ہوا۔

’یہ مشکل تھا لیکن میں خوش قسمت تھا کہ میں جوان تھا اور میرے دماغ نے متاثرہ حصے کے گرد دوبارہ کام شروع کر دیا۔‘

برومزگرو، ورسٹرشائر کے پیٹ رمفولڈ 49 برس کے تھے جب انھیں نومبر 2011 میں فالج ہوا۔ ’اس سے میں بائیں حصے میں نیچے تک مفلوج ہو گیا، نہ بول سکتا تھا، نہ نگل سکتا تھا اور نہ ہی دیکھ سکتا تھا۔‘
انھوں نے خبردار کیا کہ بظاہر ایسی کوئی علامات نہیں تھیں کہ انھیں یہ ہو سکتا ہے۔ ’میں بہت تندرست تھا، چھ دن جم جاتا تھا اور میں صحت مندانہ غذا کھاتا ہوں۔ لیکن مجھے تیز بلڈ پریشر تھا اور یہ میرے علم میں نہیں تھا۔‘

’میں سات آٹھ سال تک ڈاکٹر کے پاس نہیں گیا تھا اس لیے میرا بلڈ پریشر بھی چیک نہیں ہوا تھا۔‘

سٹروک ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ نوجوان افراد کو چکر آنے، بولنے میں دشواری اور چہرے پر کسی تبدیلی جیسی علامات کے متعلق خبردار رہنا چاہیے۔

برٹش ہارٹ فاؤنڈیشن کے ڈاکٹر مائیک نیپٹن کہتے ہیں کہ نوجوان عورتوں اور مردوں میں فالج کی شرح کا بڑھنا ایک پرشان کن بات ہے اور اسے سنجیدگی کے ساتھ لینا چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ یہ نتائج اس بات کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہیں کہ ہمیں اپنا بلڈ پریشر اور کولیسٹرول کنٹرول میں رکھنا چاہیے اور 40 کی عمر کے بعد باقاعدہ ہیلتھ چیک کروانے چاہیئں۔

BBC.COM

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

mahfuzurrehman
About the Author: mahfuzurrehman Read More Articles by mahfuzurrehman: 5 Articles with 3008 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.