پاکستان کے روبوٹ فٹبالر عالمی روبو کپ میں

فٹبال ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کرنا۔ یہ وہ کام ہے جو ہمیشہ سے پاکستانی فٹبالروں کی پہنچ سے میلوں دور رہا ہے، لیکن پاکستانی روبوٹوں نے انسانی کھلاڑیوں سے آگے بڑھ کر یہی ممکن کام کر دکھایا ہے۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں روباٹِکس اینڈ آرٹیفِشل انٹیلی جنس (مصنوعی ذہانت) کے شعبے کے چھ طلبہ آج کل عالمی کپ جیتنے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کی کوششوں میں ہے۔ اُن کی تیار کی ہوئی روبوٹ فٹبال ٹیم نے روبوکپ کھیلنے کے لیے کوالیفائی کیا ہے جو جولائی میں چین میں منعقد ہو گا۔
 

image


شعبے کے سربراہ ڈاکٹر یاسر ایاز کے مطابق اُن کے طلبہ کی روبوٹ ٹیم کو سٹینڈرڈ پلیٹ فارم لیگ کھیلنی ہے جو دنیا میں روباٹِکس کا سب سے بڑا مقابلہ ہے۔

’یہ پہلی مرتبہ ہے کہ جنوبی ایشیا سے کوئی ٹیم اِس نوعیت کے مقابلے میں حصہ لے رہی ہے۔ اِس مقابلے کا ہدف ہے کہ دو ہزار پچاس تک فٹبال کی روبوٹ ٹیم کو انسانوں کی عالمی چمپیئن ٹیم کے خلاف کھلایا جائے۔‘

سٹینڈرڈ پلیٹ فارم لیگ کی خاصیت روبوٹ کھلاڑی کی خودمختاری ہے۔ اُس میں اتنا شعور ہونا چاہیے کہ وہ میدان میں اُترنے کے بعد خود فیصلے کر سکے کیونکہ کھیل کے دوران اُسے باہر سے کنٹرول کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اور روبوٹ میں خودمختاری پیدا کرنے کا حل مصنوعی ذہانت میں ہے۔

روبو کپ میں بین الاقوامی یونیورسٹیوں کی بنائی ہوئی روبوٹ ٹیمیں حصہ لیتی ہیں۔ کوالیفائی کرنے سے عالمی مقابلہ جیتنے تک کے تمام مراحل میں روبوٹ کھلاڑی کی مصنوعی ذہانت کو پرکھا جاتا ہے۔

پاکستانی ٹیم کو کوالیفائی کرنے کے قابل بنانے والے طلبہ نے فٹبال کے مختلف حربے روبوٹ کے دماغ میں بھرنے کے کام بانٹ رکھے ہیں۔ کوئی گول کیپر تیار کر رہا ہے تو کوئی اُنھیں ساتھی اور مخالف کھلاڑی کی پہچان دے رہا ہے۔ ماہم تنویر کی ذمہ داری روبوٹ کھلاڑیوں کو کِک سکھانے کی ہے۔ انسان فٹبال کو کِک لگائے تو چند لمحوں کی بات ہے لیکن ماہم تنویر کے بقول روبوٹ کا فٹبال کو کِک لگانا طویل اور پیچیدہ عمل ہے۔

’روبوٹ کو پتہ ہونا چاہیے کہ بال کے لحاظ سے میں کہاں ہوں تاکہ وہ بال کے سامنے جا کر صحیح کھڑا ہو سکے۔ پھر اُسے اپنی ایک ٹانگ پر توازن قائم کرنا ہوتا ہے۔ اُس کے بعد وہ دیکھتا ہے کہ گول کہاں ہے، بال کدھر پھینکنی ہے، اردگرد کتنے کھلاڑی کھڑے ہیں؟ پھر وہ صاف راستہ تلاش کرتا ہے۔ راستہ ملنے پر وہ کِک کرنے والی ٹانگ کا زاویہ بناتا ہے۔ تب کِک مارتا ہے۔‘

ماہم تنویر کے بقول اُن کی ٹیم کے روبوٹ کھلاڑی کِک کرنے کے قابل ہیں۔ اپنا توازن برقرار رکھ سکتے ہیں۔ میدان میں اپنی پوزیشن کی نشاندہی بھی کر لیتے ہیں البتہ عالمی مقابلے کھیلنے سے پہلے بڑا چیلنج یہ ہے کہ اُن کے کھلاڑی کو پتہ ہو کہ اُسے کتنی رفتار یا طاقت سے کِک لگانی ہے۔

’یہ کام آسان نہیں کیونکہ دنیا میں اِس پر بہت کم کام ہوا ہے کہ روبوٹ متوازن طاقت اور رفتار کا اندازہ لگا سکے۔‘
 

image

مصنوعی ذہانت پیدا کرنے کی مہارت کو پاکستانی طلبہ نے صرف کھیل تک محدود نہیں رکھا۔ اِسی شعبے میں مصنوعی ذہانت پر مبنی ایک ویل چیئر بھی زیرِتکمیل ہے جو جاپان کی ایک غیر سرکاری تنظیم کی ہدایت پر تیار کی جا رہی ہے۔

ڈاکٹر یاسر ایاز کے مطابق: ’جب اُس نے اپنے اوپر بیٹھے ہوئے شخص کو کسی جگہ پر لے کر جانا ہے تو اُس نے سوچنا ہے کہ میں کِس راستے سے گزر کر جاؤں تو وہاں پر پہنچ سکتی ہوں۔ بالکل اُسی طرح جیسے فٹبال کے میدان میں کھلاڑی کو راستہ بناتے ہوئے بال کو لے کر جانا ہے۔ یہ وہیل چیئر بینائی سے محروم اور اُن لوگوں کے کام آئے گی جو دماغی مرض کے باعث خود اِسے نہیں چلا سکتے۔‘|

پاکستان کی یونیورسٹیاں تحقیق خصوصاً جدید ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی یافتہ ملکوں کی یونیورسٹیوں سے بہت پیچھے قرار دی جاتی ہیں۔ تاہم پاکستانی طلبہ کا روبوٹوں میں مصنوعی ذہانت پیدا کرکے اُنھیں عالمی مقابلوں میں اتارنا ثابت کرتا ہے کہ مواقع اور وسائل ملنے پر وہ کِسی سے کم نہیں ہیں۔

فوج کی نگرانی میں چلنے والی نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے اپنے طلبہ کو چھ روبوٹ فراہم کیے جو جسمانی لحاظ سے سٹینڈرڈ پلیٹ فارم لیگ کے معیار پر پورے اُترتے تھے۔

مقابلوں میں کوالیفائی کرنے کے لیے خالی دماغ والے روبوٹوں میں طلبہ نے مصنوعی ذہانت بھری۔

آج کل وہ اِن کوششوں میں ہیں کہ اپنے روبوٹ کھلاڑیوں کا ذہن زیادہ سے زیادہ پختہ کریں اور چھ کے چھ کھِلاڑی جیت کے لیے ایک ٹیم کی طرح کھیلیں، ساتھی یا مخالف کھلاڑیوں کو دھکے نہ دیں اور نہ ہی گول کیپر، گول بچانے کے لیے قلابازی لگائے۔

ایسی صورت میں انسانی کھلاڑی تو زیادہ سے زیادہ زخمی ہوتا ہے لیکن تقریباً 20 لاکھ روپوں کا ایک روبوٹ کھلاڑی جسمانی طور پر ہِل گیا یا ٹوٹ گیا تو پاکستانی طلبہ کے لیے اُسے مرمت کرانے کی سہولت اپنے ملک میں نہیں۔
YOU MAY ALSO LIKE:

RoboCup is an annual international robotics competition proposed in 1995 and founded in 1997. The aim is to promote robotics and AI research, by offering a publicly appealing, but formidable challenge. Pakistan's National University of science and technology team qualified for robocup.