صدائے گلگت کی صدا

صدائے گلگت سے میری قلمی وابستگی بہت پرانی ہے۔اس وابستگی کی وجہ سے اخبارکے نشیب و فراز سے بھی آگاہی ہے۔میں ہمیشہ اس صدا کی گونج کے لیے اللہ کے حضور ملتجی رہا مگر افسوس کہ یہ صدا ہمیشہ سے دبائی جاتی رہی۔اس صدا کو دبانے میں اپنوں کی بے رعنائیوں کے ساتھ غیروں کی ریشہ دوانیاں بھی شامل رہی۔یہ ایک طویل قصہِ غم ہے کبھی پھر سہی۔ تاہم اب روزنامہ صدائے گلگت کو نئے سرے سے منظر عام لایا جارہا ہے۔ اللہ کرے اب کی بار یہ صداء ''صداء بصحرا'' نہ ہو۔صدائے گلگت کو اب کی بار دوبارہ ''میک آپ '' کرکے اس کے قارئین کی نذر کی جارہی ہے توتجدیدشدہ اولین شمارے کے لیے یہ چند الفاظ کہنے لگا ہوں۔

میرے احباب جانتے ہیں کہ میں نے صحافت کو بطور پیشہ نہیں اپنایا،اور نہ ہی صحافت کو کمانے کا ذریعہ بنایا ہے۔ صحافت میرا ذوق ہے۔ اور میں اپنی ذوق کی تکمیل کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتا ہوں۔اسی ذوق کی خاطرمجھے صحافت کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا پڑا۔ میں نوجوانوں صحافیوں اور اپنے شاگردوں سے بھی ہمیشہ یہی کہتا ہوں کہ صحافت کی خارزار جھاڑیوں میں قدم رکھو تو کمانے کے لیے نہیں بلکہ خدمتِ خلق کے لیے قدم رکھو۔اپنی مختصر زندگی میں صحافت کے ذریعے بہت سی خدمات اس معاشرے کی بہتری کے لیے انجام دی ہیں۔ اللہ مزید توفیق دے۔میرے نزدیک صحافت ایک مقدس پیشہ ہے۔صحیفے آسمانوں سے اترتے ہیں تو آپ خود اندازہ لگاسکتے ہیں کہ یہ کتنا مقدس پیشہ ہے۔اس مقدس پیشے کی لاج رکھنا صحافت سے منسلک ہر آدمی کا فرض ہے۔مگر یہاں تو اس کو جنس بازار بنایا جاچکاہے۔ گلگت بلتستان کی صحافت کی جب بھی تاریخ لکھی جاوے گی تو صدائے گلگت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکے گا۔صدائے گلگت ، اب کی بار اس کے اصل اور حق دار مالک برادرم عبداللطیف کی ملکیت میں آچکی ہے۔ انہوں نے ایک تجربہ کار ٹیم کا انتخاب کیا ہے۔اس کی ٹیم کے نئے چہرے دیکھ کر دل باغ باغ ہوا۔برادرم عبداللطیف اور اس کی عامل ٹیم سے میری گزارش ہے کہ آپ ایک لمحے کے لیے بھی اپنے اخبار پر آنچ نہ آنے دیں۔جو کہنا ہے ڈنکے کے چوٹ پر کہا جاوے۔ احقاقِ حق اور ابطالِ باطل آپ کا موٹو ہونا چاہیے۔جھکنا آپ کی سرشت میں ہی نہ ہو،حق پر ڈٹنا آپ کا منشور ہو۔ مالی مشکلات آپ کا راستہ نہ روکتی ہو۔اصحاب اقتداراور ان کے چیلوں کے مظالم آپ کے ارادوںکو نہ بدلنے پاوے اور ڈالر کی جھونک ضمیر کونہ خریدنے پاوے۔آپ کو ایک مرد بیمار کے بجائے ایک مرد جری و بے باک صحافی کا کردار ادا کرنا ہوگا یعنی ''یااپنا گریباںچاک یا دامن یزدان چاک''۔

میرا ایک مسئلہ ہے۔ میں نے قنوطیت سے بھاگنے بلکہ دور بھاگنے کا حلف اٹھارکھا ہے۔ غربت میں نام کمانے کے گُر سے واقفیت حاصل کی ہے۔میرا مطالعہ مجھے بتاتا ہے کہ دنیا کے اکثر عظیم ترین لوگ غریب جھونپڑیوں اور جھگیوں سے اُٹھے ہیں۔خدا کو سجدہ کرنے والے اور خانہ خدا کو آباد کرنے والے بھی غریب ہی ہیں۔امید سے دنیا قائم ہے۔تمنائیں ہر کسی کا حق ہے۔کم سے کم امیدوں اور تمناؤں پر تو اقوام متحدہ پابندیاں عائد نہیں کرسکتی۔ سو میں بھی یہ امید اور تمنا کرتا ہوں کہ صدائے گلگت اپنی تمام تر جھولانیوں اور رعنائیوںسے پھلے پھولے اور انسانی خدمت میں ہر ایک سے دو قدم آگے رہے۔صحافت کوئی مزاق نہیں اور نہ ہی اس کو مزاق سمجھا جاسکتا ہے۔صدائے گلگت کی ٹیم کو مبارک بادی کے ساتھ ایک مشورہ بھی دونگا کہ انیسوی صدی کے نامور صحافی و ادیب جناب شورش کاشمیری کے ان اشعار کو اپنا منشور اور پالیسی بنائے۔میں جانتاہوں کہ آپ کے لیے سینکڑوں مسائل ہیں لیکن پھر بھی۔بہرصورت شورش کاشمیر ی نے آزادی صحافت پر ایک نظم کہی ہے اس کے چند بندآپ کی نظر کرتاہوں ۔ شاید کہ تیرے دل میں اتر جاوے میری بات:
تم قلم روک رہے ہو پر تمہیں یاد رہے
ہم وہاں ہیں کہ سفینوں سے لہو ٹپکے گا
دعوتِ فکر کا رکنا ممکن نہیں صاحب
شہر یاروں کی جبینوں سے لہو ٹپکے گا
ہم قلم کار کسی خوف سے دبنے والے نہیں
ہم یہاں پرورشِ دار ورَسن کرتے ہیں
پابہ زنجیر چلے جاتے ہیں مقتل کی طرح
اپنے ہی خون سے مینائے سفر بھرتے ہیں

میں اپنے ان دوستوںاور عامل صحافیوں سے گزار ش کرونگا کہ وہ صحافت کی اعلی اقدار کا ہرحال میں پاس رکھیں' اس کی لاج رکھنا سب سے پہلے آپ کی ذمہ داری ہے۔۔مرحوم الطاف حسین حالی نے مسدس حالی میں بے ضمیر قلم کاروں اور صحافیوں کے لیے ایک نظم رقم کی ہے ۔حالی کے بیان کردہ مذموم نکات سے بچتے ہوئے اپنے پیشہ وارانہ فرائض انجام دیں۔مجھے امید ہے کہ آپ ایسا ہی کریں گے۔ ملاحظہ ہو۔
بڑھے جس سے نفرت وہ تقریر کرنی
جگر جس سے شق ہو ' وہ تحریر کرنی
گنہ گار بندوں کی تحقیر کرنی
مسلمان بھائی کی تذلیل کرنی
یہ ہے صحافیوں کا ہمارے طریقہ
یہ ہے ہادیوں کا ہمارے سلیقہ

تجدیدشدہ اولین شمارے کے لیے یہ چند الفاظ بطور ہدیہ تبریک قلم کیے ہیں۔رب العالمین سے دعا ہے کہ وہ ہمیشہ نیکو کاروں کی مددکرے۔اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔
 

Amir jan haqqani
About the Author: Amir jan haqqani Read More Articles by Amir jan haqqani: 443 Articles with 382943 views Amir jan Haqqani, Lecturer Degree College Gilgit, columnist Daily k,2 and pamirtime, Daily Salam, Daily bang-sahar, Daily Mahasib.

EDITOR: Monthly
.. View More