پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ

قانون فطرت ہے کہ ہر چیز کا استحکام گروہ یا جماعت کے ساتھ وابستہ رہنے میں ہے اور واحدانیت صرف اور صرف خدا کی ذات کا خاصا ہے۔ کائنات میں تنہا اور جدا رہنے والے عناصر اپنا وجود جلد کھو دیتے ہیں۔ پانی سے باہر آئی مچھلی اور ٹہنیوں سے ٹوٹے پتے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ بہار صرف ان پتوں اور ٹہنیوں پہ آتی ہے جن کا تعلق شجر سے سدا جڑا رہتا ہے۔ اور یقیناًبہار کے لطف کے حقدار بھی صرف وہی پتے ہوتے ہیں جنہوں نے خزاں کی صعوبتیں برداشت کی ہوں۔ افراد کا معاشرے کے ساتھ رشتہ بھی کچھ اسی طرح کا ہوتاہے۔ مختلف اکائیاں ہی مل کر معاشرے کو تشکیل دیتی ہیں اور ان اکائیوں کی حقیقی طاقت کل میں ہے۔
؂ فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ بھی نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ بھی نہیں

کسی بھی معاشرے سے جڑے رہنے والے افرادہی حالات کی سنگینیوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ اور ہر دکھ ہمیشہ سکھ کا پیش خیمہ ہوتاہے ۔انگریز رومانوی شاعر شیلے نے اسکی ترجمانی یوں کی ہے۔ "If Winter comes, can Spring be far behind"
"اگر موسم سرما آسکتاہے تو موسم بہار بھی دور نہیں"

موسموں کا تسلسل اور دکھ سکھ کا چکر بھی ایک فطری عمل ہے اور خود خدا نے اس کی وضاحت یوں کی ہے۔
"اور ہم دنوں کو پھیرتے رہتے ہیں"

لیکن زیر بحث موضوع کی روح ' امید بہار 'سے زیادہ' پیوستہ رہ' میں ہے۔ پیوستہ کا حقیقی مادہ انتہائی مضبوطی سے جڑے رہنے سے نکلا ہے ۔جزوکا کل سے تعلق ہے۔ دراصل جزو کل کا وجود ہے۔

جب ہم احکام الٰہی اور شریعت محمدی کا بغور جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ دین اسلام درحقیقت اتحادا ور یگانگت کا درس دیتاہے۔ مسلمان قوم کی مثال ایک جسم سے دی گئی ہے۔ جسم کے کسی ایک حصے میں تکلیف پورے وجود میں محسوس ہوتی ہے ۔ مسلمانوں کا ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رہنے میں ہی بقاء کا راز مضمر ہے ۔ فرمان رسول ﷺ ہے۔
ترجمہ: اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو ۔

اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لینے میں ہی تعصب ، نفرتیں اور کدورتیں دور ہوتی ہیں۔ باجماعت نماز ، نماز عیدین اور اجتماع جمعہ دراصل مسلمانوں کو یکجا کرنے کی تراغیب ہیں۔

اقبال کا یہ شعر اس دور کی پیداوار ہے جب مسلمانان ہند مایوسیوں اور ناامیدیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبتے جارہے تھے۔ قادیانیت اور ہند وقوم کے یکے بعد دیگرے اسلام پر حملوں نے مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پید اکردیا تھا ۔ ان ناگزیدہ حالات میں اسلامی تشخص کو زندہ رکھنا قدرے مشکل نظر آرہا تھا ۔اقبال نے حالات کی نزاکت کے پیش نظر شجر اسلام سے تعلق مضبوط کرکے امید کی کرن دکھائی۔ ان کی مکمل شاعری کا محور دین اسلام کی سربلندی ہے۔ اقبال اپنی کشت ویراں سے قطعاََ ناامید نہ تھے۔ ان کا "مایوسی گناہ ہے"فرمان پر کامل ایمان تھا۔ایک مرتبہ پھر وہ اسلام کا غلبہ دیکھ رہے تھے ۔ وہ مسلمانوں کے تابناک ماضی کے نشاط ثانی کی نوید دے رہے ہیں۔ یہاں امید بہار دراصل احیاء علوم کی طرف اشارہ ہے۔ ان کے نزدیک مسلمانوں کے تابناک مستقبل کی راہ میں واضح رکاوٹ مسلمانوں میں گروہ بندی اور فرقہ بندی ہے۔ اور زہرقابل مسلمانوں کی رگوں میں تیزی سے سرائیت کررہا تھا ۔ اور ماند کٹی پتنگ مسلمان کبھی کہیں کبھی کہیں بھٹک رہا تھا۔ اقبال کی دعوت اتحاد اور قومیت سے رشتہ اسوار کرنے کی ترغیب مسلمانوں کے شیرازے کو مزید بکھرنے سے بچانے میں معاون ثابت ہوگی۔

یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ انسان تنہا اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا ۔معاشرتی روایات کے ساتھ چل کرہی وہ حالات سے لڑ سکتا ہے ۔ اقبال کے علاوہ متعدد فلسفیوں ادیبوں اور شاعروں نے اپنی تحریروں میں اسی موضوع کو اجاگر کیا ہے۔ خلیل جبران کے نزدیک "امید نو"ہی علامت زیست ہے شیلے کا کہنا ہے 'میں معاشرے سے کٹ چکا ہوں اسی لیے میں ناامید ہوں ۔کائنات کی کوئی بھی چیز جب اپنے کل سے جدا ہوئی وہ اپنے جزو کو بھی برقرار نہیں رکھ سکی ۔ اور آج کا شاعراس منظر کی عکاسی کچھ یوں کررہا ہے۔
؂ شاخ سے ٹوٹے ہوئے پتوں کی سدا توسن
کبھی ہم پہ بہار تھی کبھی ہم پہ شباب تھا

Mushtaq Ahmad kharal
About the Author: Mushtaq Ahmad kharal Read More Articles by Mushtaq Ahmad kharal: 58 Articles with 103863 views Director princeton Group of Colleges Jatoi Distt. M.Garh and a columnist.. View More